پاکستان نے اقوام متحدہ کا پھانسیاں روکنے کا مطالبہ مسترد کردیا

جب کوئی ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہو تو وہاں غیر معمولی اقدامات کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔


Editorial December 28, 2014
ہمدردی ان مجرموں سے کی جاتی ہے جو مجبوراً چھوٹے موٹے جرائم کرتے یا نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ دہشت گرد نفسیاتی مریض نہیں ہوتے یہ انتہائی سمجھ دار اور پوری پلاننگ سے حملہ کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے پھانسیوں پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ بان کی مون نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ پھانسیوں پر عملدرآمد بند کر کے اس پر عائد پابندی بحال کی جائے۔ انھوں نے سانحہ پشاور پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس مشکل صورت حال کو پوری طرح سمجھتے ہیں تاہم پھانسیوں کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

بان کی مون کا مطالبہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن جب وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان اس وقت مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے تو ایسی صورت میں انھیں حکومت پاکستان کے مسائل اور مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ جب کوئی ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہو تو وہاں غیر معمولی اقدامات کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جب دہشت گرد تعلیمی اداروں میں گھس کر بچوں کو قتل کریں' سیکیورٹی اداروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہوں تو ان سے ہمدردی یا نرمی کا اظہار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قوم اور ملک کے مجرم کو معاف نہیں کیا جاتا بلکہ اسے بھرپور سزا دی جاتی ہے۔

امریکا نے نائن الیون کے بعد کیا اس کے مجرموں کو معاف کر دیا تھا۔ اس نے تو اس سانحہ کا بدلہ لینے کیلیے ایک پورا ملک افغانستان ہی تباہ و برباد کر دیا اور ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ آج بھی وہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ڈرون حملے کر کے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایمل کانسی کی مثال سب کے سامنے ہے' امریکا نے قتل کے جرم میں ایمل کانسی کو موت کی سزا دے دی تھی۔ آج بھی امریکا کی بہت سی ریاستوں میں سزائے موت کا قانون رائج ہے۔ بھارت نے افضل گورو اور اجمل قصاب کو پھانسی دی تب اس پر اقوام متحدہ نے آواز نہیں اٹھائی علاوہ ازیں چین' بنگلہ دیش' ایران' عراق' جاپان' ملائیشیا' سعودی عرب' ویت نام اور دیگر بہت سے ممالک میں قتل کے مجرموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

ہمدردی ان مجرموں سے کی جاتی ہے جو مجبوراً چھوٹے موٹے جرائم کرتے یا نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ دہشت گرد نفسیاتی مریض نہیں ہوتے یہ انتہائی سمجھ دار اور پوری پلاننگ سے حملہ کرتے ہیں' یہ کسی ایک شخص نہیں بلکہ پوری قوم کے دشمن گردانے جاتے ہیں، ایسے میں ان سے ہمدردی کا اظہار کرنا یا ان سے نرم رویہ اختیار کرنے کی بات کرنا انسانیت اور ملکی سلامتی سے دشمنی کے مترادف ہے۔ حکومت پاکستان نے اگر دہشت گردوں کو موت کی سزا دینے کا عمل شروع کیا ہے تو بجا طور پر راست اقدام کیا ہے۔

اس وقت پوری قوم اور سیاسی جماعتیں اس نکتہ پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے حکومت ہر ممکن قدم اٹھائے اور دہشت گردوں کو کسی بھی صورت معاف نہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردی میں ملوث 170 مجرموں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جن میں سے چھ کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ جب تک دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا' دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ اگر امریکا کو بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو یقین کامل ہے کہ وہ بھی پوری امریکی قوم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا دینے سے گریز نہیں کرے گا۔

حکومت پاکستان نے دہشت گردوں کو فی الفور سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اس کی راہ میں کچھ قانونی و آئینی پیچیدگیاں حائل ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے طریقہ کار پر غور کیا جا رہا ہے۔ اے پی سی کے منظور شدہ قومی ایکشن پلان برائے انسداد دہشت گردی پر عملدرآمد کے لیے حکمت عملی طے کرنے اور ضروری اقدامات پر غور و خوض کی خاطر وزیراعظم ہاؤس میں ہفتہ کے روز بھی فالو اپ مشاورتی اجلاس ہوا جس میں دہشت گردوں' ان کی معاونت اور مالی تعاون کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلانے کے طریقہ کار کے قانونی و آئینی ترامیم کے پہلے مسودے پر غور کیا گیا جس میں فوجی افسروں کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام اور اسٹاف کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا۔

وزیراعظم کی جانب سے اس قانونی و آئینی مسودے پر دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ بالکل صائب ہے کیونکہ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا سیاسی مقاصد کے لیے قطعی استعمال نہ کیا جائے اس کا خالصتاً استعمال دہشت گردوں ہی کے خلاف کیا جانا چاہیے ۔ حکومت جب فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا اظہار کر رہی ہے تو امید ہے کہ وہ اس کے سیاسی استعمال سے بھی حتی الامکان گریز کرے گی کیونکہ اسے بھی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اس کے سیاسی استعمال سے اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔

دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے جوانوں کو بعض قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہذا اس خدشے کو دور کرنے کے لیے وزیراعظم نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے مسلح افواج کے بہادر جوانوں کو مکمل قانونی تحفظ دے گی۔

ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ صرف مرکزی حکومت ہی کا کام نہیں' صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت پولیس اور دیگر اداروں کو متحرک کریں، ان کی تربیت کا نظام بہتر بنائیں' زیادہ سے زیادہ عوامی تعاون حاصل کرنے کیلیے محلہ کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں، سکاؤٹس' شہری دفاع اور دیگر تنظیموں کو پھر سے فعال بنایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی صورت کامیابی ممکن ہے جب مرکزی اور صوبائی سطح پر تمام ادارے اپنا کردار با احسن سر انجام دیں۔ یہ جنگ ہماری ہے اور ہمیں یہ جنگ اپنے ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے ہر صورت جیتنی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں