ایک خواہش
حکمران اچھی گورننس کے اصولوں کو اپنانے کی خاطر ریاست کے منطقی جواز کو درست سمت دینے کی جرأت کر سکیں گے یا نہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کیا معصوم بچوں کا بلیدان دینا ضروری ہے؟ کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ ملک دہشت گرد عناصر کی زد پر چلا آ رہا ہے۔ ملک کا ہر شہر کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے، مگر اس سے پہلے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب اگر معصوم جانیں گنوا کر حکمرانوں کو ہوش آیا ہے، تو یہ بھی غنیمت ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اس حوالے سے کس حد تک Pro-Active انداز میں شدت پسندی کے مظہر کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ خدشہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح بعض مصلحتیں اس مرتبہ بھی کہیں راہ کی دیوار نہ بن جائیں۔
اس خدشے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاملہ دہشت گردی سے نمٹنے کا ہو، یا انتخابی دھاندلیوں کا۔ بڑھتی ہوئی کرپشن کا ہو یا پھر امن و امان کی مخدوش صورتحال کا، حکمرانوں نے ہمیشہ پس و پیش سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے آج پاکستانی ریاست ہر شعبے میں زد پذیری کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ آج ملک بیک وقت جن بحرانوں سے گزر رہا ہے، حکمران اشرافیہ نے انھیں سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جس کی وجہ سے ان بحرانوں کی شدت اور پیچیدگیاں مسلسل بڑھتی چلی گئیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی ان کار ممکن نہیں کہ ان سب بحرانوں کی جڑیں ریاست کے منطقی جواز کے بحران میں پیوست ہیں، جس نے گورننس کے بحران کو جنم دیا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ آیا حکمران اچھی گورننس کے اصولوں کو اپنانے کی خاطر ریاست کے منطقی جواز کو درست سمت دینے کی جرأت کر سکیں گے یا نہیں؟ کیونکہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ حکمران اور ریاستی منصوبہ ساز اس حقیقت کو یا تو سمجھ نہیں پا رہے یا دانستہ صرف نظر کر رہے ہیں کہ پاکستانی معاشر ے میں جو تغیر و تبدل نظر آ رہا ہے، وہ بیرونی عوامل کے اثرات کا نتیجہ ہے، جس میں اندرونی عوامل کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے، وہ کسی طے شدہ میکنزم کے ذریعے نہیں، بلکہ دنیا میں رونما ہونے والے تغیرات کے زیر اثر خودرو پودے کی مانند تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، اس لیے اس کی کوئی واضح سمت نہیں ہے۔ لہٰذا ایک ایسی صورتحال میں جب اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مخصوص ڈیزائن ہوں اور سیاسی جماعتیں اس سیاسی ویژن سے عاری ہوں، جو سماجی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر جب اہل دانش مختلف نوعیت کی مصلحتوں اور فکری ابہام کا شکار ہوں تو ترقی کے کسی واضح ایجنڈے کی تشکیل کی توقع عبث ہے۔ لہٰذا ریاستی امور کو بہتر بنانے کے لیے جن آئینی، قانونی اور انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ ملک جن بحرانوں اور مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، اس سے نکالنے کے لیے کچھ فوری اور کچھ دیرپا اقدامات نہایت ضروری ہو چکے ہیں۔ اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ پہلے فوری اقدامات کے نتائج سامنے آ جائیں، پھر طویل المدتی اقدامات کیے جائیں۔ بلکہ یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ دونوں اقدامات ایک ساتھ شروع ہوں تا کہ شدت پسندی کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ریاستی انتظام کو اچھی نظم حکمرانی کے ذریعے بہتر بنانے کی جانب پیش قدمی کی جاسکے۔
جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے 8 بنیادی خواص تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اول، ریاستی امور میں عوام کی ہر سطح پر شراکت۔ دوئم، قانون کی حکمرانی۔ سوئم، شفافیت۔ چہارم، احساس ذمے داری۔ پنجم، اتفاق رائے پر مبنی فیصلہ سازی۔ ششم، عدل اور جامعیت۔ ہفتم، موثر کارکردگی۔ ہشتم، جوابدہی۔ اچھی حکمرانی کی ان خصوصیات پر قدرے تفصیل سے گفتگو ضروری ہے، تا کہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ وہ کس قسم کی حکمرانی کے حقدار ہیں اور جو انھیں حکمرانوں کی غفلت، نااہلی اور غلط حکمت عملیوں کے سبب نہیں مل پا رہی۔
1۔ ریاستی امور میں عوامی شرکت کے لیے اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی آج کی دنیا میں انتہائی ضروری عمل ہے۔ اقتدار و اختیار صرف انتظامی ہی نہیں بلکہ سیاسی، مالیاتی اور عدالتی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں دوسرا اقدام قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے، جو اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی سے مشروط ہے۔ مردم شماری اس تقسیم کو منصفانہ رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں قبائلی اور جاگیردارانہ Mindset کی حامل سیاسی جماعتیں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اسی طرح مردم شماری جو ایک سنجیدہ قومی ذمے داری ہے، اس کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے۔ آج 17 برس ہونے کو آئے ہیں، مگر مردم شماری سے ہر حکومت گریز کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے اقتدار و اختیار کی منتقلی میں رکاوٹ آ رہی ہے۔
2۔ قانون کی حکمرانی کسی ریاست کے شائستہ اور مہذب ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لیے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انھیں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم رکھنے کی خواہش نے پولیس سمیت انتظامی اداروں کو Politicise کیا گیا ہے۔ پولیس میں تقرریاں اور تبادلے میرٹ کے بجائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کمیونٹی پولیسنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ اس معاملے کو بھی سیاسیا (Politicise) دیا گیا ہے۔ قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاست دانوں کے علاوہ انتظامی اداروں میں موجود نااہل اور بدقماش اہلکار بھی ہیں، جو اپنی طاقت کے اظہار کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ یوں طاقت کے غلط استعمال یعنی Power Abuse نے اچھی حکمرانی کا راستہ روک دیا ہے۔
3۔ شفافیت اچھی حکمرانی کا تیسرا اہم جزو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حکومتی فیصلے اور ان کا نفاذ قواعد و ضوابط کے دائرے میں ہو۔ کوئی فیصلہ یا منصوبہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو کسی بھی وجہ سے عوام سے پوشیدہ رکھا گیا ہو۔ بلکہ تمام فیصلوں اور منصوبوں تک عوام کی رسائی ممکن ہو۔ عوام کو قواعد و ضوابط کے تحت یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ کسی بھی ریاستی ادارے کے فیصلوں اور کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔
4۔ احساس ذمے داری سے مراد ہے کہ حکومت تمام شراکت داروں کے ساتھ مساوی برتائو کرے۔ ہر قسم کے امتیازی سلوک سے گریز کرتے ہوئے میرٹ کے اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند رہے۔ کسی بحرانی یا قدرتی آفات کی صورت میں احساسِ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو بلاامتیاز امداد اور ریلیف مہیا کرے۔ ان کے نقصانات کا ازالہ کرے اور پھر بحالی کے اقدامات کرے۔ عام حالات میں بھی عوامی شکایات پر توجہ دے اور انھیں ہر قسم کی فوری ریلیف اور ضرورت کے مطابق مدد فراہم کرے۔
5۔ تمام فیصلے اتفاق رائے پر مبنی ہوں یعنی سیر حاصل بحث و مباحثہ کے بعد پارلیمان سے منظور شدہ ہوں۔ ان کے نفاذ میں بھی میرٹ کو مدنظر رکھا جائے۔ 6۔ عدل اور جامعیت کا مطلب ہے کہ حکومتی اقدامات عدل اور انصاف پر مبنی ہوں۔ اس کے علاوہ تمام فیصلے اپنی ہئیت میں جامع ہوں۔ عدلیہ فعال ہو اور عوامی شکایات پر فوری ریلیف فراہم کرے۔ 7۔ موثر کارکردگی سے مراد ہے کہ حکومت اور اس کے تمام ادارے قومی وسائل کو معاشرے کی ضرورت کے مطابق ریاست کے تمام شراکت داروں میں منصفانہ طور پر تقسیم کریں۔ اچھی حکمرانی کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مطلب ماحولیات کو محفوظ رکھتے ہوئے قدرتی وسائل کا پائیدار استعمال یقینی بنانا ہے۔ 8۔ احتساب یا جوابدہی اچھی حکمرانی کی کلید ہے۔ صرف حکومت اور اس کے ادارے ہی نہیں، بلکہ نجی شعبہ اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ کون کس کو جوابدہ ہے، اس سوال کے جواب کا انحصار کسی ادارے یا تنظیم کے ان فیصلوں اور طریقہ کار کے عوام کے مختلف طبقات پر مرتب ہونے والے اثرات سے مشروط ہوتا ہے۔ عام طور پر کوئی ادارہ یا تنظیم ان افراد یا اداروں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، جو ان کے فیصلوں سے متاثر ہو رہے ہوں۔ جوابدہی قانون کی شفاف عملداری کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔
سانحہ پشاور جیسے واقعات اس لیے رونما ہو رہے ہیں، کیونکہ حکمران اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) میں اچھی حکمرانی کے رموز کو سمجھنے اور انھیں رائج کرنے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ عزم۔ انھیں تو یہ بھی اندازہ نہیں کہ اس ملک کے 90 فیصد شہری انتہائی زدپذیر یعنی Vulnerabale زندگی گزارنے پر اس لیے مجبور ہیں، کیونکہ انھیں آج تک اچھی حکمرانی نہیں ملک سکی۔ ان پر پہلے نااہل، غیر ذمے دار اور موقع پرست سیاسی قیادت مسلط ہو گئی۔ پھر اس ملک کی تاریخ کے 32 قیمتی سال فوجی آمریتوں نے نگل لیے۔
کسی نے اقتدار کو خاندانی اور کسی نے ادارہ جاتی میراث بنا کر دراصل عوام سے ان کا حق حکمرانی چھینا ہے۔ اس ملک کے عوام جن کی اجتماعی دانش کے نتیجے میں یہ ملک وجود میں آیا ہے، آج صاحب اقتدار اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ اپنی صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر ان کے پائوں میں کہیں رشوت اور سفارش کی زنجیر ڈال کر، کہیں مختلف امتیازات کے ذریعے انھیں ان کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں اچھی حکمرانی کی صرف توقع ہی کی جا سکتی ہے۔