دہشت گردی کی دو قسمیں
آج ہمیں جس قسم کی بے لگام مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے اس کا تعلق قرارداد مقاصد سے نہیں بلکہ مسلمانوں پر مظالم سے ہے۔
LONDON:
اس وقت ملک جس خوفناک دہشت گردی کی زد میں ہے اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جسے ہم مذہبی انتہا پسندی کہتے ہیں، انتہاپسندی اس قدر اندھی بہری ہے کہ اسے نہ یہ نظر آ رہا ہے کہ اس کی نذر ہونے والے بے گناہ ہیں یا گناہ گار، یہ دہشت گردی جب حرکت میں آتی ہے تو اس کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے انسانوں کا خون بہانا، وہ یہ دیکھنے کی زحمت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ جس کے گلے کاٹ رہی ہے، جنھیں گولیاں مار رہی ہے، جنھیں بم اور بارود کے ذریعے قتل کر رہی ہے، وہ معصوم بچے ہیں، بوڑھے ہیں، مرد ہیں یا خواتین۔ اسے بس انسانوں کا خون چاہیے، اس قسم کی دہشت گردی کی سفاکی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اس گھناؤنے مقصد کے حصول کے لیے خود اپنے کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو خودکش حملوں کے ذریعے ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے، پولیس کو عموماً ان خودکش حملہ آوروں کے سر ملتے ہیں، جس سے انھیں شناخت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پشاور کے آرمی اسکول کے 140 سے زیادہ بچے اسی اندھی بہری انتہا پسندی کا شکار ہو چکے ہیں اور شرم کی بات یہ ہے کہ اس حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والے فخر سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ''یہ کارنامہ ہم نے انجام دیا ہے۔'' اس کارنامے کے صلے میں پاکستان اور دنیا بھر کے عوام اور خواص نے انھیں درندے کا خطاب دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی جب جناح صاحب کے نظریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے 1949ء میں قرارداد مقاصد آئین میں شامل کی گئی، لیکن قرارداد مقاصد سے پیدا ہونے والی انتہا پسندی عموماً جمہوری قدروں کے دائرے میں رہی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ چونکہ پاکستان کے عوام سیاست اور اقتدار پر مذہبی انتہا پسندوں کے قبضے کو پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا انھوں نے ان جمہوری مذہبی انتہا پسندوں کو 1970ء سے 2013ء تک اقتدار سے دور رکھا اور لبرل جماعتوں کی حمایت کرتے رہے۔
آج ہمیں جس قسم کی بے لگام مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے اس کا تعلق قرارداد مقاصد سے نہیں بلکہ مسلمانوں پر مظالم سے ہے جو فلسطین، کشمیر سمیت دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق نہ دینے سے ہے۔ مثلاً امریکا نے محض اپنے سیاسی مفادات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔ اس حوالے سے امریکی سیاست اور پالیسیوں کا عالم یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے اور اس کے مغربی اتحادی ان سازشوں میں مکمل طور پر اس کا ساتھ دیتے ہیں اس کی کئی دوسری وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ اسلحے کی تجارت ہے۔
مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ملکوں کو امریکا نے اسرائیلی طاقت سے اس قدر خوفزدہ کر رکھا ہے کہ یہ دولت مند ملک اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں سے خریدتے ہیں، بدقسمتی سے مسلم ملکوں میں ابھی تک خاندانی بادشاہتوں کا نظام موجود ہے اور ان خاندانی بادشاہوں کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں اقتدار میں رہنے کے لیے امریکا کی تابعداری کرنی پڑتی ہے اور وہ بھاری وسائل جن کے استعمال سے عرب ملک ترقی کر سکتے ہیں وہ ہتھیاروں کی خریداری میں لگ جاتے ہیں۔
کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن کشمیر کے ہندو حکمراں سے سازش کر کے کشمیر پر ہندوستان نے بزور طاقت قبضہ کر لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے 7-6 لاکھ بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں بھیجنا پڑا اس فوج کی موجودگی اور کشمیریوں پر اس کے مظالم نے ایسی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جو آہستہ آہستہ اس قدر بے لگام ہو گئیں کہ مسلمان بھی ن کا نشانہ بننے لگے۔
مسلم ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کی دوسری وجہ بھی امریکا کی خودغرضانہ سیاست ہے۔ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے پاکستان کے دینی مدرسوں کو استعمال کیا اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر مسلم ملکوں کے مذہبی انتہا پسندوں کو روس کے خلاف افغان جنگ میں جھونک دیا۔ہم جس بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ دنیا کے مختلف مسلم ملکوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ہیں، ان ہی مظالم نے مشرق وسطیٰ میں حماس، حزب اللہ جیسی مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا، ان ہی مظالم نے القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ جیسی بے شمار تنظیموں کے وجود میں آنے اور مستحکم ہونے کی راہ ہموار کی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ مغربی ممالک نے مذہبی انتہا پسندی کی اصل وجوہات کو ختم کرنے کے بجائے طاقت کے بل پر اسے ختم کرنے کی راہ اپنائی جس کا ایک اور بدتر نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسند طاقتوں کے ذہنوں میں یہ تصور سوار ہو گیا کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے دنیا پر غالب آنا ضروری ہے اور خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں کے ذریعے دنیا پر غالب آنے کی وہ احمقانہ کوشش شروع کی گئی، جس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس جہاد کا رخ مغرب کی طرف ہونے کے بجائے خود مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اہل دانش یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ مذہبی انتہا پسند ایک بار پھر امریکا کے ہاتھوں کا کھلونا بن رہے ہیں۔
پاکستان اس حوالے سے سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک اس لیے بنا ہوا ہے کہ دہشت گرد دنیا پر غالب آنے کی جنگ میں پاکستان کو اپنا سب سے طاقتور مورچہ بنانا چاہتے ہیں جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ لیکن دہشت گردوں میں آنے والی حیوانیت نے پاکستان کے عوام کو اس طرح متحدکر دیا ہے کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کا یہ جنگ جیتنا مشکل ہو گیا ہے۔
دہشت گردی کی دوسری قسم چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان کے عوام کی ناراضگی کی مختلف شکلوں میں نظر آ رہی ہے ۔بلوچستان کی آبادی کراچی کی آبادی سے کم ہے لیکن اس کا رقبہ ملک کے تینوں صوبوں سے زیادہ ہے اور یہ سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ بدقسمتی سے یہ صوبہ صدیوں پرانے سرداری نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ صوبے کے خانہ بدوش عوام خصوصاً نوجوان نسل مایوس ہے۔
اسی مایوسی نے انھیں تخریب کاری کی طرف دھکیل دیا اب بلوچستان میں کئی تنظیمیں جنم لے چکی ہیں لیکن ان کی جنگ کا دائرہ بجلی گیس کی اہم تنصیبات کو بموں سے اڑانے، ٹرینوں پر حملوں، ریل کی پٹریوں کو نقصان پہنچانے اور غیر مقامیوں کو قتل کرنے تک محدود نظر آتا ہے لیکن اس صورتحال سے مذہبی انتہا پسند طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہیں اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بلوچستان میں لڑنے والوں کو مذہبی دہشت گردوں سے الگ کرنا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب بلوچستان کے وسائل پر اور اقتدار پر ان کے حق کو تسلیم کیا جائے اور عملاً یہ اختیارات ان کے حوالے کیے جائیں اگر یہ کام نہیں کیے گئے تو بلوچستان کی لڑائی سے مذہبی انتہا پسند فائدہ اٹھائیں گے اور حالات کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہوگا۔