سامراج نے اہداف حاصل کرلیے

پاکستان اپنی تاریخ میں جن آزمائشوں سے گزرتا رہا ہے اس کی وجہ اس کا محل وقوع ہی ہے۔


Zamrad Naqvi December 28, 2014
www.facebook./shah Naqvi

سانحہ پشاور پاکستان کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب کرے گا،اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔ سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ آخری چال کس کے حق میں جائے گی ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں رونما ہونے والے حالات خطے کی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے افغانستان پاکستان بھارت ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ آرمی چیف کے طویل دورہ امریکا سے پہلے دورہ کابل پھر اس کے بعد افغان صدر کا جی ایچ کیو کا دورہ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز کنٹر کے علاقے میں آپریشن کر رہی ہیں جہاں ملا فضل اللہ چھپا ہوا ہے جس کے اشارے پر پاکستان میں حملے ہوتے ہیں سانحہ پشاور بھی اس میں شامل ہے۔

پچھلے ایک مہینے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں اس کی وجہ سے پاک افغان تعلقات سرد مہری نفرت دشمنی سے نکل کر دوستی و تعاون میں بدل گئے ہیں۔اچھے برے طالبان کی تمیز مٹ گئی ہے۔ اب دونوں ملک مل کر ان دونوں کا صفایا کر رہے جن کے بارے میں سابق صدر ریگن نے کہا تھا کہ مجاہدین امریکا کے بانیوں کے مساوی ہیں۔ان ''بیچاروں''کو ابھی تک یہ نہیں پتہ چلا کہ سامراج کتنی خوفناک چیز ہے۔ جو انھیں خود ہی تخلیق کرتا ہے،حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ استعمال کرتا ہے۔ آخر میں انھیں فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ میں جن آزمائشوں سے گزرتا رہا ہے اس کی وجہ اس کا محل وقوع ہی ہے۔ پاکستان کی سرحدیں چین ،افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ مشرق وسطیٰ کے پچھواڑے میں واقعہ ہے ۔ سوویت یونین سرمایہ دارانہ نظام کے سر پر ایک لٹکتی تلوار بن گیاتھا۔ اس خطرے کے توڑ کے لیے مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک نئی ریاستوں کا قیام عمل میں لایا گیااور اپنی مرضی کی قیادت وجود میں لائی گئی۔ اس وقت پورا برصغیر اور چین سامراج مخالف نعروں سے گونج رہا تھا۔

اس وقت مشرق وسطیٰ کی کیا صورت حال تھی اس کو بھی ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔ عراق، شام میں بعث کمیونسٹ پارٹی مضبوط تھی۔ اس کے اثرات مصر فلسطین میں پھیلے ہوئے تھے تو دوسری طرف ترکی تھا جو یورپ کا دروازہ تھا۔ مصطفے کمال اتا ترک کے بعد ترکی زیادہ تر فوجی آمریت کے زیر سایہ رہا۔ اس کی بھی بڑی وجہ وہاں پہ کمیونسٹ سوشلسٹ پارٹی کا طاقتور ہونا تھا جس کو عوامی حمایت حاصل تھی۔

تیسری طرف ایران اور افغانستان تھے ایران میں بھی سامراج مخالف تودہ پارٹی عوام میں جڑیں رکھتی تھی۔ یعنی مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک یہ پورا خطہ سامراج مخالف تحریکوں کی لپیٹ میں تھا۔ سامراج کے لیے یہ ایک انتہائی پریشان کن صورت حال تھی۔ اگر یہ عوام دوست انقلابی تحریکیں کامیاب ہو جاتیں تو مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک عوامی راج قائم ہو جاتا تو اس خطے میں آباد انسانوں کو بھوک ننگ غربت بیماری بے روز گاری کا نہ سامنا کرنا پڑتا۔

لیکن عالمی سامراج نے سرمائے، طاقت، اسلحے کے زور پر ان تحریکوں میں سازشی عناصر داخل کرتے ہوئے پہلے ان کو کمزور، تقسیم اور پھر ان کا خاتمہ کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک سامراج نے مذہبی جماعتوں کو طاقتور بنایا اور ان کی سرپرستی کی ۔مثال کے طور پر مصر میں اخوان المسلمین کو ناصر کے مقابلے میں کھڑا کیا تو ایران میں غیر مقبول ہوتے ہوئے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے مقابلے میں امام خمینی کی درپردہ حمایت کی۔ امریکا کا خیال تھا کہ ایران میں سعودی عرب کی طرح مذہبی حکومت قائم کرے گا لیکن اندازے کی غلطی نے ایران سے امریکی مفادات کا خاتمہ کر دیا لیکن امام خمینی کو سیاسی پناہ اور اپنا پیغام پھیلانے کی سہولتیں انھیں پیرس میں ہی مہیا ہوئیں۔

اب لندن ہو یا پیرس یہ امریکی سامراج کے کتنے بڑے مہرے ہیں یہ ہر کسی کا پتہ ہے۔ جہاں برٹش سامراج کے اثرات پہنچے وہاں کی لیڈر شپ کو سیاسی پناہ لندن میں ملتی ہے اور جہاں فرانسیسی سامراج کے اثرات پہنچے ان کو سیاسی پناہ پیرس میں ملتی ہے۔ آخری نتیجے میں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایران کے مذہبی انقلاب نے امریکی مفادات کو ضرور نقصان پہنچایا لیکن سامراج دشمن کمیونسٹ تو وہ پارٹی کے مقابلے میں اس نے سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا۔

آپ اندازہ لگائیں سامراج کی دوراندیشی کا کہ سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے مشرق وسطیٰ میں عثمانی خلافت کا خاتمہ کر کے عرب بادشاہتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد برصغیر کو تقسیم کیا۔ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو تخلیق کیا گیا۔ جب وہ استعمال ہو گئے تو ان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ عالمی رائے عامہ ان کے خلاف بنانے کے لیے عراق، شام، افغانستان، پاکستان میں ان کو ہر قسم کی دہشت گردی کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا کے دہشت گردوں کو ان ملکوں میں اکٹھا کر لیا گیا ہے تو دوسری طرف امریکا نے ان دہشت گردوں کے خلاف 62 ملکوںکا اتحاد قائم کرلیا ہے جس میں عرب بادشاہتیں پیش پیش ہیں۔ مذہب کا ہتھیار استعمال ہو چکا۔ اور اب نئے دور کے اپنے تقاضے ہیں بحیثیت قوم ہم ان تقاضوں کو نبھانے کے کسی حد تک اہل ہیں۔ اسی پر ہمارے وجود کا انحصار ہے۔ ہمارے خطے کو چار دہائیوں سے آگ و خون میں نہلانے کے بعد امریکا نے اپنے تمام اہداف حاصل کرتے ہوئے (ایران سمیت) آخر کار دہشت گردی کے جن کو زنجیریں پہنانے کا فیصلہ کر لیا ہے... رہے نام اللہ کا

فروری 2015ء سے مئی جون کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے اہم ترین مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔

سیل فون:0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں