سردار اختر مینگل کے چھ نکات اور سیاسی رہنمائوں کی ملاقاتیں
سیاسی حلقے سردار اختر مینگل کی پاکستان آمد اور یہاں کی لیڈر شپ سے ملاقاتوں کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔
لاہور:
بی این پی مینگل کے مرکزی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوگئے ہیں۔
جہاں انہوں نے یہ موقف اختیار کیاہے کہ 65 سال کے بعد عدالت سے امید کی کرن نظر آئی ہے اس لئے وہ حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے آیا ہوں، صوبے کی تباہی کی ذمہ دار آمرانہ حکومتوں کے ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں،خونی طلاق سے بہتر ہے کہ رضا مندی سے علیحدگی اختیار کرلی جائے، ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اہم ہے 65 سال کا مسئلہ ملکی اداروں سے نکل کر عالمی اداروں تک پہنچ گیا ہے ،ان کے بھائی اسد اللہ مینگل 1976ء میں لاپتہ ہوئے اور آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا۔
بلوچوں کو صرف تسلیاں دی گئیں، 5بار فوجی آپریشن کرکے معافی مانگ لی گئی ۔ بلوچستان کے حالات آج فلسطین سے بھی زیادہ خراب ہیں ، حقیقی قیادت ہٹا کر مصنوعی قیادت لائی گئی ، خفیہ ایجنسیوں کے ڈیتھ اسکواڈ قوم پرستوں کو ختم کررہے ہیں ۔ مسخ شدہ لاشیں کسی سردار یا نواب کی اولاد نہیں سیاسی ورکرز کی ہیں نواب اکبر بگٹی کے قاتل گرفتار کئے جائیں، ٹھوس اقدامات کے بغیر معافی مانگنے یا پیکج دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سردار اخترمینگل نے لاپتہ افراد کی بازیابی کو بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد جہادی ہیں۔
افغانستان چلے گئے ہیں جب تک لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تباہی کی ذمہ دار آمرانہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں ۔ انہوںنے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اپریل 2006میں انکے بچوں کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی، بچے بچانے کے جرم میں 16ماہ جیل کی کوٹھڑی میں گزارے ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے انصاف کی توقع ہے اس لئے سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہوں۔ سردار اختر مینگل نے زبانی اور تحریری گزارشات عدالت کے سامنے رکھیں اپنے تحریری موقف میں انہوںنے واضح کیا کہ بلوچستان کے بامقصد اور با معنی مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان کو کچھ ضروری اقدامات کرنا ہونگے۔ بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشن خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ان کو بند کرنا ہوگا، تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا ہوگا۔
آئی ایس آئی اور اس کے زیر اثر اسکواڈ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات سے روکنا ہوگا۔ تمام بلوچ سیاسی پارٹیوں و کارکنوں کے قتل کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ہزاروں بلوچ جو اپنے آبائی علاقوں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں ان کو اپنے آبائی علاقوں میں پر امن زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں، سردار اختر مینگل نے تجویز کیا کہ مذکورہ بالا اقدامات کے حوالے سے اعتماد سازی کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے بعد بلوچستان کی اصل قیادت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے ۔
عدالت میں پیش ہونے کے بعد بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے سربراہ و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ میرے مطالبات کو شیخ مجیب الرحمن کے 6نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔ اگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو بلوچستان کے لوگ آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ بھول جائیں کہ وہ بات کرنے کو بھی تیار ہونگے۔
ان نکات میں ایک بھی نکتہ ملک کے آئین یا قانون کے خلاف نہیں اگر حالات یہی رہے اور ہمیں وقتی تسلیاں دی گئیں اور پھر ماضی کی طرح کیا گیا کہ پورا پاکستان آپ کا ہے تو ایسا نہیں چلے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کو کبھی اپنا شہری تسلیم نہیں کیا گیا اگر کیا ہوتا تو ہمارے بچوں کے جسموں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے نہ لکھے جاتے، ہمارے نوجوانوں کے سروں میں ڈرل سے سوراخ نہ کئے جاتے، ماضی میں کسی ادارے نے بلوچستان پر توجہ نہیں دی ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں سردار اختر مینگل کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے حالات شدید خراب ہوچکے ہیں اور 2008ء کے الیکشن کے بعد غیر نمائندہ اور کرپٹ حکومت بنائی گئی ۔حقیقی عوامی نمائندوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ ایک تباہ کن عمل ہے ان کا کہنا تھا کہ نواب بگٹی سمیت دیگر کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، عمران خان نے سردار اختر جان مینگل سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے کا حل نکالا جائے ۔ سردار اختر جان مینگل نے پاکستان میں قیام کے دوران سابق وفاقی وزیر اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رکن سردار یار محمد رند اور وفاقی وزیر چنگیز جمالی سے بھی ملاقاتیں کیں، تین روز پاکستان میں قیام کے بعد بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل واپس دبئی روانہ ہوگئے ۔
سیاسی حلقے سردار اختر مینگل کی پاکستان آمد اور یہاں کی لیڈر شپ سے ملاقاتوں کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں سردار اختر جان مینگل کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دوسری جانب مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے سردار اختر مینگل کے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر حلفیہ بیان ریکارڈ کرانے اور ملاقاتوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے ۔ خان آف قلات میر سلیمان دائود کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل کسی ڈیل کے ذریعے ہی پاکستان آئے تھے ۔
اسی طرح بی ایس او آزاد کا کہنا ہے کہ سردار اختر جان مینگل ایک طرف یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہیں پاکستان کے کسی بھی ادارے پر بھروسہ نہیں مگر دوسری طرف وہ اس کی عدلیہ کا معاون بننے کے لئے لندن سے اسلام آباد تشریف لائے جو خود ان کے نام ونہاد حق خود ارادیت اور قوم پرستی کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے کبھی حق خود ارادیت کبھی قوم پرستی اور کبھی کسی ایک نام سے بلوچ قوم کو ورغلانے میں ناکامی کے بعد اب اپنے لئے پارلیمنٹ تک رسائی کے لئے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر بلوچ قوم ان سے واقف ہوچکی ہے اور اب بلوچ قوم کو الفاظ کے ہیر پھیر اور ہمدردیوں سے ورغلانا ان کے بس سے باہر ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے دنوں میں سردار اختر مینگل کے اس دورے اور سپریم کورٹ میں پیش ہوکر بیان دینے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کا اب انتظار ہے۔
بی این پی مینگل کے مرکزی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوگئے ہیں۔
جہاں انہوں نے یہ موقف اختیار کیاہے کہ 65 سال کے بعد عدالت سے امید کی کرن نظر آئی ہے اس لئے وہ حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے آیا ہوں، صوبے کی تباہی کی ذمہ دار آمرانہ حکومتوں کے ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں،خونی طلاق سے بہتر ہے کہ رضا مندی سے علیحدگی اختیار کرلی جائے، ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اہم ہے 65 سال کا مسئلہ ملکی اداروں سے نکل کر عالمی اداروں تک پہنچ گیا ہے ،ان کے بھائی اسد اللہ مینگل 1976ء میں لاپتہ ہوئے اور آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا۔
بلوچوں کو صرف تسلیاں دی گئیں، 5بار فوجی آپریشن کرکے معافی مانگ لی گئی ۔ بلوچستان کے حالات آج فلسطین سے بھی زیادہ خراب ہیں ، حقیقی قیادت ہٹا کر مصنوعی قیادت لائی گئی ، خفیہ ایجنسیوں کے ڈیتھ اسکواڈ قوم پرستوں کو ختم کررہے ہیں ۔ مسخ شدہ لاشیں کسی سردار یا نواب کی اولاد نہیں سیاسی ورکرز کی ہیں نواب اکبر بگٹی کے قاتل گرفتار کئے جائیں، ٹھوس اقدامات کے بغیر معافی مانگنے یا پیکج دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سردار اخترمینگل نے لاپتہ افراد کی بازیابی کو بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد جہادی ہیں۔
افغانستان چلے گئے ہیں جب تک لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تباہی کی ذمہ دار آمرانہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں ۔ انہوںنے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اپریل 2006میں انکے بچوں کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی، بچے بچانے کے جرم میں 16ماہ جیل کی کوٹھڑی میں گزارے ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے انصاف کی توقع ہے اس لئے سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہوں۔ سردار اختر مینگل نے زبانی اور تحریری گزارشات عدالت کے سامنے رکھیں اپنے تحریری موقف میں انہوںنے واضح کیا کہ بلوچستان کے بامقصد اور با معنی مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان کو کچھ ضروری اقدامات کرنا ہونگے۔ بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشن خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ان کو بند کرنا ہوگا، تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا ہوگا۔
آئی ایس آئی اور اس کے زیر اثر اسکواڈ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات سے روکنا ہوگا۔ تمام بلوچ سیاسی پارٹیوں و کارکنوں کے قتل کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ہزاروں بلوچ جو اپنے آبائی علاقوں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں ان کو اپنے آبائی علاقوں میں پر امن زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں، سردار اختر مینگل نے تجویز کیا کہ مذکورہ بالا اقدامات کے حوالے سے اعتماد سازی کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے بعد بلوچستان کی اصل قیادت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے ۔
عدالت میں پیش ہونے کے بعد بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ ن کے سربراہ و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ میرے مطالبات کو شیخ مجیب الرحمن کے 6نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے۔ اگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو بلوچستان کے لوگ آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ بھول جائیں کہ وہ بات کرنے کو بھی تیار ہونگے۔
ان نکات میں ایک بھی نکتہ ملک کے آئین یا قانون کے خلاف نہیں اگر حالات یہی رہے اور ہمیں وقتی تسلیاں دی گئیں اور پھر ماضی کی طرح کیا گیا کہ پورا پاکستان آپ کا ہے تو ایسا نہیں چلے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کو کبھی اپنا شہری تسلیم نہیں کیا گیا اگر کیا ہوتا تو ہمارے بچوں کے جسموں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے نہ لکھے جاتے، ہمارے نوجوانوں کے سروں میں ڈرل سے سوراخ نہ کئے جاتے، ماضی میں کسی ادارے نے بلوچستان پر توجہ نہیں دی ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں سردار اختر مینگل کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے حالات شدید خراب ہوچکے ہیں اور 2008ء کے الیکشن کے بعد غیر نمائندہ اور کرپٹ حکومت بنائی گئی ۔حقیقی عوامی نمائندوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ ایک تباہ کن عمل ہے ان کا کہنا تھا کہ نواب بگٹی سمیت دیگر کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، عمران خان نے سردار اختر جان مینگل سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے کا حل نکالا جائے ۔ سردار اختر جان مینگل نے پاکستان میں قیام کے دوران سابق وفاقی وزیر اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن رکن سردار یار محمد رند اور وفاقی وزیر چنگیز جمالی سے بھی ملاقاتیں کیں، تین روز پاکستان میں قیام کے بعد بی این پی مینگل کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل واپس دبئی روانہ ہوگئے ۔
سیاسی حلقے سردار اختر مینگل کی پاکستان آمد اور یہاں کی لیڈر شپ سے ملاقاتوں کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آئندہ دنوں میں سردار اختر جان مینگل کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دوسری جانب مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے سردار اختر مینگل کے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر حلفیہ بیان ریکارڈ کرانے اور ملاقاتوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے ۔ خان آف قلات میر سلیمان دائود کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل کسی ڈیل کے ذریعے ہی پاکستان آئے تھے ۔
اسی طرح بی ایس او آزاد کا کہنا ہے کہ سردار اختر جان مینگل ایک طرف یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہیں پاکستان کے کسی بھی ادارے پر بھروسہ نہیں مگر دوسری طرف وہ اس کی عدلیہ کا معاون بننے کے لئے لندن سے اسلام آباد تشریف لائے جو خود ان کے نام ونہاد حق خود ارادیت اور قوم پرستی کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے کبھی حق خود ارادیت کبھی قوم پرستی اور کبھی کسی ایک نام سے بلوچ قوم کو ورغلانے میں ناکامی کے بعد اب اپنے لئے پارلیمنٹ تک رسائی کے لئے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر بلوچ قوم ان سے واقف ہوچکی ہے اور اب بلوچ قوم کو الفاظ کے ہیر پھیر اور ہمدردیوں سے ورغلانا ان کے بس سے باہر ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے دنوں میں سردار اختر مینگل کے اس دورے اور سپریم کورٹ میں پیش ہوکر بیان دینے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کا اب انتظار ہے۔