صرف سیاستداں ہی مطعون و ملعون کیوں
آج اگر پشاور میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعے نے ہم سب کےضمیر کوجھنجھوڑ دیا ہے تو یہ ایک مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہے۔
ہمارے یہاں یہ ایک عام روایت بن چکی ہے کہ ہر انفرادی اوراجتماعی غلطی، کوتاہی اور ناکامی پر صرف سیاستدانوں ہی کو برا بھلا کہا جاتا ہے چاہے اصل محرک اور مسبب الاسباب کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔ ملک میں سیلاب آئیں یا کوئی دوسری آسمانی اور قدرتی آفت آجائے الزام صرف سیاستدانوں ہی کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ امن وامان کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری پھیل جائے نشانہ صرف اور صرف سیاستداں ہی ہوگا۔ یہ جانتے بوجھتے کہ 65 سالہ خرابیوں کی جڑ اور وجہ صرف ہمارا سیاسی حلقہ احباب ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ساری قوم ہی ملوث ہے۔
یہ ہمارا اجتماعی نظامِ معاشرہ ہی ہے جس میں ہم ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں، بجلی، گیس اور پانی کی چوری بھی کرتے ہیں، تھانوں اور کچہری میں رشوت بازی بھی کرتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم اجتماعی، اخلاقی اور معاشرتی زوال و انحطاط کی طرف گامزن ہیں۔ ہر ایک کو صرف اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔ اپنے فائدے کے لیے ہم حد سے گزر جانے کو تیار رہتے ہیں۔
آج اگر پشاور میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعے نے ہم سب کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے تو یہ ایک مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہے۔ خدا کرے کہ یہ آگے بھی اسی طرح قائم و دائم رہے۔ ورنہ دیکھا گیا ہے کہ بڑی سے بڑی دہشت گردی اور آفت و مصیبت کا اثر ہم پر صرف چند دنوں تک ہی قائم رہتا ہے۔ ہم پھر اپنی روز مرہ کے جھمیلوں اور بکھیڑوں میں مشغول اور مگن ہوکر اسے بھلا بیٹھتے ہیں۔
آج سیاستدانوں کو طعنہ دیا جارہا ہے کہ انھوں نے دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کئی سال تک روکے رکھا۔ مگر ان دہشت گردوں کی تربیت اور پرورش کس نے کی یہ کوئی سوال نہیں کرتا۔ کس نے انھیں ایک بڑی طاقت کی ایماء پر سویت یونین کے خلاف صف آراء کیا۔ اس وقت یہ دہشت گرد بھی کہلائے نہیں جاتے تھے۔ انھیں مجاہدین اور حریت پسند کا لقب نوازا جاتا تھا۔ ان کے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کی زبانیں بندکردی جاتی تھیں۔ اس وقت ہمارے یہاں کوئی سویلین حکومت نہیں تھی۔
طاقت کا منبع اور محور صرف جنرل ضیاء الحق ہوا کرتے تھے۔ صرف انھی کی مرضی و منشاء کے مطابق ہر کام ہوا کرتا تھا۔ ان کا ہر حکم فرمانِ واجب الادعان کہلاتا تھا۔ کسی کو چوں و چرا کی اجازت نہ تھی۔ وہ دس سال تک یہاں حکومت کرتے رہے۔ ہم انھی کے دور کی بوئی گئی فصل اب کاٹ رہے ہیں۔ پھر پرویز مشرف کا 9 سالہ نام نہاد سنہری دور آیا۔ جس میں ضیاء دور کی پالیسیوں سے یکسر انحراف کرتے ہوئے یوٹرن لیا گیا۔ یہی حریت پسند مجاہدین اب دہشت گردوں کا روپ دھار چکے تھے۔
صدر بش کی ایک فون کال پر اب ہم ان حریت پسندوں کے خلاف ہوچکے تھے۔ رچرڈ آرمیٹیج کے بنائے ہوئے اصولوں پر خود کو پتھروں کے دور میں جانے سے بچا رہے تھے۔ دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلوں کے تحت اپنی زمین اور فضا سب کچھ غیروں کے حوالے کرچکے تھے۔ دیانتدار اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت میں اپنے یہاں سے پکڑ پکڑ کر لوگ ان کے حوالے کر رہے تھے۔ ان میں ایک ہماری سب کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی تھی، جسے شاید اب ہم سب بھلا چکے ہیں۔ وہ امریکی قید خانوں میں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہے۔
ہم نے اپنی خودی، عزت نفس اور آزادی بیچ کر اپنے آپ کو بچالیا۔ کچھ بالغ نظر، دور اندیش دانشوروں کے نزدیک یہی اصل دانشمندی اور بصیرت ہے۔ ہم ساتویں ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی امریکی مخالفت اور ناراضی کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے بقول نظری اور کتابی دانش اور عملی دانش میں یہی فرق ہوا کرتا ہے۔ اسی سوچ اور اسی استدلال کے عین مطابق جنرل نیازی نے 71 میں شاید بڑی حکمت اور دانائی والا فیصلہ کیا تھا، ان کے اس فیصلے سے کتنی ماؤں کی گود اجڑنے سے بچ گئی، کتنی سہاگنیں جواں عمری میں بیوہ ہونے سے رہ گئیں اور کتنے معصوم بچے یتیم ہونے سے بچ گئے۔
اسی انداز فکر اور دور اندیشی کے تحت آج اگر ہمارے سیاستداں یورپین یونین کے دباؤ میں آکر پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کرنے سے ہچکچا رہے ہیں تو کون سا غلط کام کر رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی برآمد سے بالآخر اس ملک کو کثیر زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ کارخانے چلتے ہیں۔ مزدور نوکری کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔ ملک و قوم خوشحال ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ عالمی طاقت کی حکم برداری کرتے ہوئے عالمی کولیشن کے ایک متحرک اور ایک بے انتہا مخلص ممبر کی حیثیت سے اس وقت ہم نے وہ کچھ کیا جو وہ سب کچھ درست اور صحیح تھا۔ لیکن یہی کچھ سیاستداں کریں تو صریحاً غلط اور نامناسب۔ ہمیں اپنے رویوں اور طریقوں کو بدلنا ہوگا۔
یہ سچ ہے کہ سیاستدانوں سے غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن وہ غلطیاں اور کوتاہیاں اتنی بڑی نہیں ہیں کہ ہم انھیں ہر وقت مطعون و ملعون کرتے رہیں۔ ہم نے اپنا ملک توڑنے والے یحییٰ خان کو تو معاف کردیا، سیاچن کی زمین دشمن کے حوالے کرنے والے ضیاء الحق کو تو درگزر کردیا اور رچرڈ آرمیٹیج کے آگے سرینڈر کرجانے والے پرویز مشرف کو تو بخش دیا لیکن سیاستدانوں کی معمولی غلطی کو لے کر ہم پہاڑ کھڑا کردیتے ہیں۔ جب کہ دیکھا جائے تو اسلامی ملکوں میں سب سے پہلے جوہری توانائی کی داغ بیل ڈالنے کی جرات جس نے کی وہ کون تھا۔ ایک سیاستداں ہی تھا اور جس نے اپنی اس ایٹمی صلاحیت کو دنیا سے منوایا وہ کون تھا، وہ بھی ایک سیاستداں ہی تھا۔
ورنہ ضیاء الحق کو دس سال تک امریکا کی آشیرباد حاصل رہی لیکن انھوں نے یہ ہمت و جرات نہ دکھائی۔ گرچہ ان دونوں سیاستدانوں کو اپنے اس فعل و عمل کی پاداش میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا مگر انھوں نے یہ کر دکھایا۔ وہ بھی اگر چاہتے تو اپنا اقتدار بچا سکتے تھے، قوم کو پتھروں کے دور میں چلے جانے کا خوف دلا کر اس سے اجتناب کر سکتے تھے۔ ایٹمی دھماکے نہ کرکے وہ بھی مالی اعانت حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن انھوں نے قومی فریضہ کو اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ عزیز رکھا۔ آج ہم انھی کے جرأت مندانہ افعال و اعمال کے ثمرات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دنیا ہمیں ایک ساتویں ایٹمی قوت سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بارہا کوشش کرتے ہوئے بھی ہم پر حملہ آور ہونے سے ڈرتا اور ہچکچاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے سیاستداں دہشت گردوںکی اصل شناخت ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں۔ جب کہ ایسا کوئی عذر ان کے آگے مانع نہیں ہے۔ وہ دہشت گردوں کی کھلم کھلا مذمت کرتے رہے ہیں۔ اگر ایک دو بار لفظ طالبان کی جگہ دہشت گرد کہہ دیا تو اس میں ان کی نیتوں پر شک یا اعتراض کرنا کوئی مناسب طرز فکر نہیں ہے۔ اس طرح تو شہر کراچی میں بھی جاری آپریشن کے دوران جن دہشت گردوں کو پکڑا جاتا ہے تو رینجرز اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں انھیں ایک سیاسی تنظیم اور مذہبی گروہ کے افراد کے نام سے ظاہر کرتی رہی ہیں۔ انھیں جب پریس اور میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو ان کے چہروں پر کپڑا ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔
اس وقت کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارا وطن عزیز 1980 تک ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک تھا۔ یہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوار ہی کا شاخسانہ ہے جن کی دانشمندی، معاملہ فہمی اور مدبرانہ حکمت عملی کی بدولت یہ ملک دو تین دہائیوں سے دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ اسے اس آگ میں جھونکنے والے سیاستداں ہرگز نہ تھے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔