ہم انھیں تو بچاسکتے ہیں
احتجاج، دہائیاں، آنسو، خون، مذمت، بیانات اور لاشوں کی سیاست کب تک اور کہاں تک؟
نئے سال کا آغاز پاکستانی عوام کے لیے خوشی نہ لاسکا۔ چاہتے ہوئے بھی میرا قلم اپنے ہم وطنوں کو خوشی کی امید نہیں دلا پا رہا۔ پاکستان کی تاریخ نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ جنگیں ہوئیں، کبھی جیت ملی اور کبھی ملک کے دولخت ہوجانے کا کرب مقدر بنا۔ آمروں نے آئین، قوانین اور ضابطوں کی دھجیاں بکھیریں تو سیاست دانوں نے ملک کو لوٹا۔ ان سب کے غلط فیصلوں کی سزا آج تک پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں اور نجانے کب تک بھگتیں گے۔ یوں تو ہمارا ہر سال ہی غموں سے پُر اور خوشیوں سے ناآشنا گزرتا ہے، مگر اپنے اختتام پر کھڑا یہ برس تو دکھوں کی کانٹوں اور آنسوؤں والی مالا پہنا گیا۔
دہشت گردوں کی کارروائیاں خون کے دریا بہاتی رہیں۔ ایک کے بعد ایک سانحہ، دل کو اطمینان نصیب ہی نہیں ہو پاتا۔ کبھی واہگہ بارڈر کا سانحہ رلا گیا، کبھی کوئٹہ میں چرچ پر دھاوا آنکھیں نم کرگیا، کبھی ہزارہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائی دل کو چیر گئی۔ ہر سانحہ پہلے ہونے والے سانحے کی شدت کو کم کردیتا اور یوں لگتا کہ شاید اس سے زیادہ اب نہیں ہوسکے گا۔ بس یہی قیامت ہے۔ لیکن ہمارے حصے میں تو نہ جانے اور کتنی قیامتیں باقی ہیں۔
اسی برس کنٹینرز کی سیاست سامنے آئی اور احتجاج کے انداز بدلے۔ جو عام آدمی اس انقلاب کی صدا پر کان نہ دھرتا تھا، وہ بھی اپنے حالات سے تنگ آکر انقلاب کے نعرے لگاتا سڑکوں پر نظر آیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا، جس میں بلاشبہ میڈیا کا ٹرائل عوام نے کیا اور سب کچھ سننے والے عوام نے یہ ثابت کردیا کے اب وہ باشعور ہوچکے ہیں اور اپنے اچھے برے کا فرق سمجھتے ہیں۔
میڈیا کی سیٹوں پر فخر کرنے والے بہت سے عوام کی طاقت کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اسلام آباد کی سڑکوں نے وہ مناظر دیکھے جن کا تصور اس ریاست کے پاس نہ تھا۔ جمہوریت کا جاپ کرتے حکم راں نہتے عوام پر چڑھ دوڑے اور طاقت کا استعمال کرکے احتجاجی تحریک کو کچلنے کی غلطی کر بیٹھے۔ پاکستان کا دارالحکومت ساری دنیا کے سامنے تماشا بن کر رہ گیا۔
احتجاج، دہائیاں، آنسو، خون، مذمت، بیانات اور لاشوں کی سیاست کب تک اور کہاں تک؟ ہم کب تک لفظوں کے سہارے زندگی گزاریں گے۔ بحیثیت قوم ہم میں بے حسی جاگزیں ہوگئی ہے۔ ہم کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ اگر ایک روڈ پر گاڑی ایک آوارہ کتے کو کچل کر آگے نکل جائے تو لوگ اسے راستے سے ہٹا کر میونسپل والوں کو فون کرتے ہیں تاکہ مرے ہوئے کتے کو اٹھایا جاسکے، لیکن اگر کوئی انسان سڑک پر تڑپ رہا ہو یا کوئی ٹارگٹ کلر ایک جیتے جاگتے انسان کو گولیوں سے بھون کر چلا جائے تو نہ ہم تڑپتے آدمی کے قریب جاتے ہیں اور نہ ہی لاش دیکھ کر کسی ادارے کو فون کرتے ہیں۔
ایمبولنس آتی ہے اور لاش کو اٹھا کر چلی بھی جائے تو کچھ دیر بعد ہی انسانی خون پر گاڑیاں چلنے لگتی ہیں یا پیدل چلنے والے اس بات ہی سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے جوتوں تلے جو یہ لال سیال لگا ہے، یہ ایک انسان کا خون ہے، جسے کچھ دیر پہلے کوئی مار کر چلا گیا ہے۔ اُف خدایا! میں نہیں جانتی میں کیا لکھ رہی ہوں، لیکن جو لکھ رہی ہوں۔ وہی حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جسے میں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
ان حقائق سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سانحات اور المیے ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، سو ایک قیامت گزرتی ہے، اور اگلے ہی دن یا چند روز میں بھلادی جاتی ہے۔
لیکن یوں لگا کہ جیسے سال کے جاتے جاتے برپا ہونے والی قیامت نے بے حسی اور سرد مہری کی برف کو ایک آن میں پگھلا کر رکھ دیا۔ مگر پھر مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔
پشاور کا سانحہ ملک کی تاریخ کا بدترین المیہ ہے ۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ان بچوں کے خون کے دھبے ہم تمام پاکستانیوں کے چہرے پر ہیں۔ ہم اتنے بے حس ہوچکے تھے کہ ہم میں سے اکثریت ان لوگوں کو حق پر سمجھنے لگی تھی جو آج ان بچوں کی موت کی وجہ بنے۔ اور جو لوگ ان وحشی درندوں کو روز اول سے ہی غلط سمجھتے رہے وہ ان کے ڈر سے خاموش رہے، جو بولا اسے کافر کہہ دیا گیا۔
ہماری اس بے حسی اور خودغرضی نے یہ دن دکھایا۔ لیکن پھر بھی ہماری قوم سدھر نہ سکی۔ اپنے معصوم پھولوں کی کٹی ہوئی گردنیں بھی ہمیں کچھ نہ سکھا سکیں۔ کچھ دن بعد ہم سب کچھ بھول جائیں گے۔ یہ المیہ یاد رہے گا ،تو بس ان لوگوں کو جنھوں نے پاکستانی شہری ہونے کی سزا بھگتی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں قربان کرکے خالی ہاتھ ویران آنگن کے ساتھ نئے سال کا سورج دیکھیں گے۔ ہمیں شاید اس وقت ہوش آئے گا جب خدانخواستہ ہمارے اپنے گھر سے کوئی جنازہ اٹھے گا۔ ہم بس اُس وقت روئیں گے، چلائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ ہم اب بھی دکھ جھیلنے والوں کی تکلیف کا بس دور سے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں جاگنے کے لیے، کسی قیامت کا انتظار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تھر کے بچوں کو دوسال سے مرتا دیکھ رہے ہیں، لیکن انھیں بچانے اور حکمرانوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی جذبہ پیدا ہوکر احتجاج کی لہر میں تبدیل نہیں ہوا۔ ایک طرف وہ دہشت گرد تھے جنھوں نے ہمارے بچوں کو موت کی دیوی کے آگے بے رحمانہ پھینک دیا، تو دوسری طرف ہم، اب بھی تھر کے پھولوں کو روز مرتا دیکھ رہے ہیں۔ اب یہاں کون سے دہشت گرد ہیں؟ جو کچھ ہی دیر میں درجنوں جانوں سے کھیل جائیں، تھر میں تو موت بچوں کی زندگی سے بڑے آرام کے ساتھ انھیں اور ان کی ماؤں کو تڑپا تڑپا کر کھیل رہی ہے۔
ہم کچھ نہیں کر سکتے تو سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کا دکھ محسوس کرتے ہوئے ان کی ماؤں کے کرب کا احساس کرتے ہوئے تھر کے بچوں کی جان تو بچا سکتے ہیں، تاکہ اب یہ موت کے ظالم ہاتھ تھر کے مزید بچوں کی جان نہ لے سکیں۔ غذا کی قلت وہاں کا سنگین مسئلہ ہے۔ اگر ہر شخص ان معصوم بچوں کا خیال کرے تو شاید ہم ان معصوموں کو بچا سکتے ہیں۔
اپنے مستقبل کے معماروں کا خیال کیجیے۔ حکومت کو تو کیا کرنا ہے، وہ جو کرے گی ہم نے دیکھ لیا۔ اب ہمیں آگے آنا ہوگا۔ کہیں بھی آپ اگر ایسے بچے دیکھیں جنھیں آپ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکتے ہیں تو ضرور دیجیے۔ ہمارے آئی ڈی پیز پریشان ہیں، ان کے بچے مصائب جھیل رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ لوگ اپنے بچوں سمیت اب بھی سردی میں گھروں سے محروم ہیں۔ بھیک مانگتے بچے شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں۔ ہم کچھ تو کرسکتے ہیں ان کے لیے۔ تھوڑی سی مدد تھوڑی سی امید۔
نیا سال آنے کو ہے، مگر خوشی کیسے منائی جائے۔ میں نے اپنی گیارہ سال کی بیٹی سے جب نئے سال کی خوشی میں نظم لکھنے کے لیے کہا، تو اس چھوٹی سے بچی کے خیالات اور نظم کے شروع کے دو مصرعوں نے میرے قلم کو آج یہ تحریر لکھنے پر مجبور کردیا۔
چاہیں آئیں جتنے سال، لائیں خوشیوں کے پیغام
یہ دکھ بھلا نہ پائیں گے، ملے گا نہ دل کو آرام
ہمارے مستقبل ہمارے بچے امید کھوچکے ہیں۔ انھیں دکھ ہے۔ جب وہ روز سنتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں اتنے بچے مارے گئے، تھر میں آج اتنے بچے موت کے منہ میں چلے گئے اور پشاور کے معصوم بچوں کی جب تصاویر ٹی وی اسکرین نے دکھائیں تو ہمارے بچے ٹوٹ گئے۔ ننھا معصوم ذہن کسی صورت اپنے دکھ کو بیان نہیں کرسکتا۔ ہمیں انھیں امید دینا ہوگی۔
دہشت گردوں کی کارروائیاں خون کے دریا بہاتی رہیں۔ ایک کے بعد ایک سانحہ، دل کو اطمینان نصیب ہی نہیں ہو پاتا۔ کبھی واہگہ بارڈر کا سانحہ رلا گیا، کبھی کوئٹہ میں چرچ پر دھاوا آنکھیں نم کرگیا، کبھی ہزارہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائی دل کو چیر گئی۔ ہر سانحہ پہلے ہونے والے سانحے کی شدت کو کم کردیتا اور یوں لگتا کہ شاید اس سے زیادہ اب نہیں ہوسکے گا۔ بس یہی قیامت ہے۔ لیکن ہمارے حصے میں تو نہ جانے اور کتنی قیامتیں باقی ہیں۔
اسی برس کنٹینرز کی سیاست سامنے آئی اور احتجاج کے انداز بدلے۔ جو عام آدمی اس انقلاب کی صدا پر کان نہ دھرتا تھا، وہ بھی اپنے حالات سے تنگ آکر انقلاب کے نعرے لگاتا سڑکوں پر نظر آیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا، جس میں بلاشبہ میڈیا کا ٹرائل عوام نے کیا اور سب کچھ سننے والے عوام نے یہ ثابت کردیا کے اب وہ باشعور ہوچکے ہیں اور اپنے اچھے برے کا فرق سمجھتے ہیں۔
میڈیا کی سیٹوں پر فخر کرنے والے بہت سے عوام کی طاقت کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ اسلام آباد کی سڑکوں نے وہ مناظر دیکھے جن کا تصور اس ریاست کے پاس نہ تھا۔ جمہوریت کا جاپ کرتے حکم راں نہتے عوام پر چڑھ دوڑے اور طاقت کا استعمال کرکے احتجاجی تحریک کو کچلنے کی غلطی کر بیٹھے۔ پاکستان کا دارالحکومت ساری دنیا کے سامنے تماشا بن کر رہ گیا۔
احتجاج، دہائیاں، آنسو، خون، مذمت، بیانات اور لاشوں کی سیاست کب تک اور کہاں تک؟ ہم کب تک لفظوں کے سہارے زندگی گزاریں گے۔ بحیثیت قوم ہم میں بے حسی جاگزیں ہوگئی ہے۔ ہم کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ اگر ایک روڈ پر گاڑی ایک آوارہ کتے کو کچل کر آگے نکل جائے تو لوگ اسے راستے سے ہٹا کر میونسپل والوں کو فون کرتے ہیں تاکہ مرے ہوئے کتے کو اٹھایا جاسکے، لیکن اگر کوئی انسان سڑک پر تڑپ رہا ہو یا کوئی ٹارگٹ کلر ایک جیتے جاگتے انسان کو گولیوں سے بھون کر چلا جائے تو نہ ہم تڑپتے آدمی کے قریب جاتے ہیں اور نہ ہی لاش دیکھ کر کسی ادارے کو فون کرتے ہیں۔
ایمبولنس آتی ہے اور لاش کو اٹھا کر چلی بھی جائے تو کچھ دیر بعد ہی انسانی خون پر گاڑیاں چلنے لگتی ہیں یا پیدل چلنے والے اس بات ہی سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے جوتوں تلے جو یہ لال سیال لگا ہے، یہ ایک انسان کا خون ہے، جسے کچھ دیر پہلے کوئی مار کر چلا گیا ہے۔ اُف خدایا! میں نہیں جانتی میں کیا لکھ رہی ہوں، لیکن جو لکھ رہی ہوں۔ وہی حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جسے میں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
ان حقائق سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سانحات اور المیے ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، سو ایک قیامت گزرتی ہے، اور اگلے ہی دن یا چند روز میں بھلادی جاتی ہے۔
لیکن یوں لگا کہ جیسے سال کے جاتے جاتے برپا ہونے والی قیامت نے بے حسی اور سرد مہری کی برف کو ایک آن میں پگھلا کر رکھ دیا۔ مگر پھر مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔
پشاور کا سانحہ ملک کی تاریخ کا بدترین المیہ ہے ۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ان بچوں کے خون کے دھبے ہم تمام پاکستانیوں کے چہرے پر ہیں۔ ہم اتنے بے حس ہوچکے تھے کہ ہم میں سے اکثریت ان لوگوں کو حق پر سمجھنے لگی تھی جو آج ان بچوں کی موت کی وجہ بنے۔ اور جو لوگ ان وحشی درندوں کو روز اول سے ہی غلط سمجھتے رہے وہ ان کے ڈر سے خاموش رہے، جو بولا اسے کافر کہہ دیا گیا۔
ہماری اس بے حسی اور خودغرضی نے یہ دن دکھایا۔ لیکن پھر بھی ہماری قوم سدھر نہ سکی۔ اپنے معصوم پھولوں کی کٹی ہوئی گردنیں بھی ہمیں کچھ نہ سکھا سکیں۔ کچھ دن بعد ہم سب کچھ بھول جائیں گے۔ یہ المیہ یاد رہے گا ،تو بس ان لوگوں کو جنھوں نے پاکستانی شہری ہونے کی سزا بھگتی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں قربان کرکے خالی ہاتھ ویران آنگن کے ساتھ نئے سال کا سورج دیکھیں گے۔ ہمیں شاید اس وقت ہوش آئے گا جب خدانخواستہ ہمارے اپنے گھر سے کوئی جنازہ اٹھے گا۔ ہم بس اُس وقت روئیں گے، چلائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ ہم اب بھی دکھ جھیلنے والوں کی تکلیف کا بس دور سے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں جاگنے کے لیے، کسی قیامت کا انتظار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تھر کے بچوں کو دوسال سے مرتا دیکھ رہے ہیں، لیکن انھیں بچانے اور حکمرانوں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی جذبہ پیدا ہوکر احتجاج کی لہر میں تبدیل نہیں ہوا۔ ایک طرف وہ دہشت گرد تھے جنھوں نے ہمارے بچوں کو موت کی دیوی کے آگے بے رحمانہ پھینک دیا، تو دوسری طرف ہم، اب بھی تھر کے پھولوں کو روز مرتا دیکھ رہے ہیں۔ اب یہاں کون سے دہشت گرد ہیں؟ جو کچھ ہی دیر میں درجنوں جانوں سے کھیل جائیں، تھر میں تو موت بچوں کی زندگی سے بڑے آرام کے ساتھ انھیں اور ان کی ماؤں کو تڑپا تڑپا کر کھیل رہی ہے۔
ہم کچھ نہیں کر سکتے تو سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کا دکھ محسوس کرتے ہوئے ان کی ماؤں کے کرب کا احساس کرتے ہوئے تھر کے بچوں کی جان تو بچا سکتے ہیں، تاکہ اب یہ موت کے ظالم ہاتھ تھر کے مزید بچوں کی جان نہ لے سکیں۔ غذا کی قلت وہاں کا سنگین مسئلہ ہے۔ اگر ہر شخص ان معصوم بچوں کا خیال کرے تو شاید ہم ان معصوموں کو بچا سکتے ہیں۔
اپنے مستقبل کے معماروں کا خیال کیجیے۔ حکومت کو تو کیا کرنا ہے، وہ جو کرے گی ہم نے دیکھ لیا۔ اب ہمیں آگے آنا ہوگا۔ کہیں بھی آپ اگر ایسے بچے دیکھیں جنھیں آپ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکتے ہیں تو ضرور دیجیے۔ ہمارے آئی ڈی پیز پریشان ہیں، ان کے بچے مصائب جھیل رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ لوگ اپنے بچوں سمیت اب بھی سردی میں گھروں سے محروم ہیں۔ بھیک مانگتے بچے شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں۔ ہم کچھ تو کرسکتے ہیں ان کے لیے۔ تھوڑی سی مدد تھوڑی سی امید۔
نیا سال آنے کو ہے، مگر خوشی کیسے منائی جائے۔ میں نے اپنی گیارہ سال کی بیٹی سے جب نئے سال کی خوشی میں نظم لکھنے کے لیے کہا، تو اس چھوٹی سے بچی کے خیالات اور نظم کے شروع کے دو مصرعوں نے میرے قلم کو آج یہ تحریر لکھنے پر مجبور کردیا۔
چاہیں آئیں جتنے سال، لائیں خوشیوں کے پیغام
یہ دکھ بھلا نہ پائیں گے، ملے گا نہ دل کو آرام
ہمارے مستقبل ہمارے بچے امید کھوچکے ہیں۔ انھیں دکھ ہے۔ جب وہ روز سنتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں اتنے بچے مارے گئے، تھر میں آج اتنے بچے موت کے منہ میں چلے گئے اور پشاور کے معصوم بچوں کی جب تصاویر ٹی وی اسکرین نے دکھائیں تو ہمارے بچے ٹوٹ گئے۔ ننھا معصوم ذہن کسی صورت اپنے دکھ کو بیان نہیں کرسکتا۔ ہمیں انھیں امید دینا ہوگی۔