گھر بھی اور دفتر بھی

ملازمت کے ساتھ بچوں کو وقت دینا بھی ضروری ہے

ملازمت کے ساتھ بچوں کو وقت دینا بھی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور ایک پر آسائش زندگی کے حصول کی خاطر ہمارے یہاں اب مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی خاصی بڑی تعداد ملازمت کرتی ہیں، جب کہ مہنگائی بھی اس کا سب سے اہم سبب ہے۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور پرسکون زندگی دینے کی خاطر ماں، باپ دونوں نوکری کرتے ہیں۔

ایسے والدین جو نوکری کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو عموماً کسی ملازم یا آیا کے سپرد کر دیتے ہیں۔ پھر بچے ملازم کے رحم و کرم پر پلتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماں جیسی پرورش اور دیکھ بھال بچوں کی کوئی نہیں کر سکتا۔ بچے کی بہترین پرورش صرف والدین ہی کر سکتے ہیں، مگر جب وہ سارا دن گھر سے باہر اپنے کاموں میں مصروف رہیں گے اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داریوں سے نظریں چراتے رہیں گے، تو ایک دن وہ ان کے ہاتھوں ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھا سکتے ہیں۔

وہ بچے انتہائی پُراعتماد اور بھرپور شخصیت کے مالک ہوتے ہیں، جن کی پرورش و تربیت ان کی ماؤں کے زیرسایہ ہوتی ہے۔ پہلے کے دور میں چوں کہ مشترکہ خاندانی نظام تھا، تو ملازمت پیشہ والدین کے بچوں کی پرورش نانی، دادی، چچا، پھوپھی کے درمیان ہوتی تھی، جس کی بنا پر ایسے حادثات و نقصانات نہیں ہوتے تھے، جو اب دیکھنے اور سننے میں آرہے ہیں۔

ملازمت پیشہ والدین کو اپنے بچوں کی وجہ سے انتہائی پیچیدہ اور گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چوں کہ ایسے بچے سارا دن گھر میں اکیلے رہتے ہیں، لہٰذا والدین ان کی اکثر سرگرمیوں یک سر لاعلم رہتے ہیں۔ اگر کوئی ملازم بچوں کی نگرانی کے لیے رکھا جائے، تو وہ خود بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، کیوں کہ انہیں صرف اپنی تنخواہ سے مطلب ہوتا ہے یا پھر بچے ان کی نگاہوں سے چھپ کر اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ یوں بھی ملازم والدین کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں والدین کو اپنے بچوں کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کا جب علم ہوتا ہے، تو پانی سر سے اوپر ہو چکا ہوتا ہے، پھر سوائے پچھتاوے اور افسوس سے ہاتھ ملنے کے، ان کے پاس کچھ نہیں بچتا۔

بعض ملازمت پیشہ والدین اپنے پیشہ ورانہ امور میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ اگر کوئی تیسرا فریق انہیں ان کے بچوں کے بے ڈھب ہونے کی خبر دیتا ہے، تو وہ اس شخص کی بات کا ہی برا مان جاتے ہیں یا پھر بچوں کو واجبی سی ڈانٹ ڈپٹ کر کے اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں۔ اگر آپ اس طرح کی بے پرواہی برت رہی ہیں، تو یہ بات جان لیجیے کہ آپ اپنی اور اپنے بچوں کی تباہی و بربادی کو خود دعوت دے رہی ہیں۔

ایسی خواتین جو ضرورتاً یا شوقیہ ملازمت کر رہی ہیں، وہ اگر اپنی ملازمت کے امور بچے کی پرورش کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیں تو بہتر ہے۔ اس طرح آپ کے بچے ایک مکمل و بھرپور شخصیت کے مالک بن کر ان کے لیے فخر و انبساط کا باعث بنیں گے۔ اس کے لیے چند باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔




سب سے پہلے آپ اپنے بچوں کے دوستوں کی عادت و فطرت کو جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان کا تعلق کیسے گھروں سے ہے۔ ان کا رکھ رکھاؤ اور سرگرمیاں کیا ہیں، رجحانات کیسے ہیں۔ ان سب باتوں کا جاننا آپ کے لیے بے حد ضروری ہے، تاکہ آپ کے بچے آپ کی غیر موجودگی میں اچھے دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں، نہ کہ غلط صحبت اختیار کر کے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں۔ اگر آپ کے سسرال یا میکے میں کوئی بزرگ ہو تو اپنے بچوں کو ان کے حوالے کر کے جائیے یا پھر انہیں اپنے گھر میں بلا لیجیے، تاکہ وہ بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔

اپنے اطراف اور اردگرد کے ماحول پر بھی نظر رکھیے۔ اس بات کی مکمل آگاہی رکھیے کہ آپ کے آس پاس کے فلیٹوں میں کیسے لوگ رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے پڑوس اور علاقے کے ماحول سے اگر آپ مطمئن نہیں ہیں، تو اپنے بچوں کو ایسے پڑوسیوں کے گھر آنے جانے سے سختی سے منع کر دیجیے۔ گھر میں اگر کوئی ملازم ہے، تو کوشش کیجیے کہ وہ آپ کا واقف کار اور شناسا ہو، جس پر بھروسا کیا جا سکے۔ اسی طرح اگر آپ کی غیرموجودگی میں بچوں کے ٹیوٹر گھر پر آتے ہیں، تو ان کا بھی قابل بھروسا اور جانا مانا ہونا بہت ضروری ہے۔

دفتری اوقات میں بچوں سے رابطہ رکھیں اور ان کی مصروفیات سے آگاہ رہیں۔ دوران ملازمت جب بھی آپ کو موقع ملے، آپ گھر پر فون کیجیے۔ گھر واپسی پر بھی آپ اپنے سب کام چھوڑ کر بچوں کی دن بھر کی مصروفیات کی بابت جانیے، مگر یہ سب کرتے ہوئے اس بات کا خاص دھیان رکھیے کہ آپ کا رویہ سخت ہونے کے بہ جائے، انتہائی دوستانہ ہونا چاہیے۔

اپنے بچوں کے دل کے قریب ہو کر نرم خوئی سے ایک اچھے اور مخلص دوست کی طرح آپ بھی ان سے باتیں کیجیے اور ان کے معمولات کے بارے میں بھی جانیے۔ بچوں کا کمپیوٹر اور موبائل فون بھی اپنی نگاہ میں رکھیے اور ان کے دوستوں کے متعلق بھی بات چیت کر کے ان کے اور اپنے بچوں کی سرگرمیوں کو جاننے کی کوشش کیجیے۔

بے جا خواہشات پر قابو، تھوڑے پر قناعت اور جو میسر ہے، اس پر صبر و شکر بہت بڑی دولت ہے۔ اس لیے اگر اپنے بچوں کی خاطر کبھی پیشہ ورانہ طور پر کوئی قربانی دینا پڑے، تو اس سے گریزاں نہ ہوں، کیوں کہ ہماری اصل دولت تو ہمارے بچے ہیں، جو ہماری بھرپور توجہ کے طلب گار ہیں۔ اچھی مکمل اور بھرپور تربیت و توجہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کو کام یاب بنانے کے ساتھ ہمیں بھی سرخرو کر سکتی ہے۔ لہٰذا بچوں کی پرورش و تربیت میں کوتاہی ہر گز نہ برتیے۔
Load Next Story