گورنر پنجاب کی مسلم لیگ ن کے خلاف تلخ نوائی
تین ترامیموں پر راتوں رات اکٹھا ہو جانے والی سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کے اس معاملے پر متفق ہونے کی بجائے۔۔۔
گورنری سنبھالنے کے بعد عرصہ تک سردار لطیف خان کھوسہ نے معتدل پالیسی اختیار کی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف بیانات داغتے ہوئے احتیاط اور دوراندیشی سے کام لیا۔
لیکن اب انہوں نے لیگی قیادت خصوصاً میاں صاحبان کے خلاف جارحانہ طرز تکلم اپنا لیا ہے اور آجکل ان کے بیانات اور لہجے کی تلخی مرحوم سلمان تاثیر کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ ہر وقت ٹوہ میں رہنے والے سیاسی حلقے اب اس کی چھان بین کر رہے ہیں کہ گورنر پنجاب کی تلخیاں شاہ سے وفاداری کی علامت ہیں یا شاہ کے اشارے پر سب ہو رہا ہے۔ ان میں سے کئی ذوالفقار مرزا اور فیصل رضا عابدی کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے اسے موجودہ پیپلزپارٹی کی حقیقی لائن آف ایکشن قرار دیتے ہیں اور ان کی نظر میں گورنر پنجاب سردارلطیف خان کھوسہ کو بھی لیگی قیادت کی سندھی محبت والی سیاست کا جواب دینے کے لئے میدان میں اتارا گیا ہے۔
گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ کبھی اپنے بیانات میں پنجاب حکومت اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے مطالبات کیا کرتے تھے اور کبھی کبھار تو اصلاح کی اپیل بھی کر جاتے تھے لیکن آج کل براہ راست دھمکیوں پر اترے ہوئے ہیں اور سیاسی بیان بازی کی ایسی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں جس کا مقصد بظاہر تو سخت لڑائی کے لئے اکسانا نظر آتا ہے۔ بعض سیانے تو کہتے ہیں کہ بیانات کی یہ تلخی نزدیکی انتخابات کے اشارے ہیں اور بعض اسے جوش دلوا کر غلطیاں کروانے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔
گزشتہ روز بھی گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ نے ڈیرہ غازی خان کی انتخابی سیاست کی مہم پر روانہ ہونے سے قبل ملتان ائرپورٹ پر پریس کانفرنس کی اور میاں صاحبان کو عوام کش' فراڈیے ، جنوبی پنجاب کے دشمن' ڈاکو سمیت جو دل میں آیا سب کہہ ڈالا اور براہ راست دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ وہ میاں برادران کو جنوبی پنجاب کی سیاست سے مٹا دیں گے اور پیپلز پارٹی ان سے جمہوریت کے ذریعے انتقام لے گی، پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستانی عوام کو بھی پیغام دیا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور عوام سے لئے گئے اس انتقام کو مد نظر رکھتے ہوئے اب مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو بھی کانپ جانا چاہئے۔
لیکن یوں لگتا ہے کہ شاید لیگی قیادت جنوبی پنجاب میں بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کئے بیٹھی ہے اور اس نے حالات کا سمجھ بوجھ اور حکمت عملی کے تحت مقابلہ کرنے کی بجائی خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کے نام پر سیاست ہو رہی ہے' پیپلزپارٹی خود کو ہواؤں میں بننے والے اس صوبے کا بانی قرار دے کر ڈس کریڈٹ ہو رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) اس معاملے پر ڈھکی چھپی اختلافی سیاست کر کے اپنی ساکھ کھو رہی ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان اس خطے میں بسنے والوں کا ہو رہاہے جن کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے اور جن کو سبز باغ دکھا کر ورغلایا جا رہا ہے۔
نئے صوبے کے لئے بنایا جانے والا کمیشن غیر فعال اور ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ قرار دادوں کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں اسمبلیوں میں بل لانے پر خاموش ہیں اور پھر بھی سب کو کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ بن جائے گا۔ گورنر پنجاب نے تو وعدہ کیا ہے کہ وہ صدر زرداری کو مشورہ دیں گے کہ صوبے کے بل کو سینٹ سے پاس کرایا جائے تاکہ مسلم لیگ (ن) عوام کے سامنے ایکسپوز ہو یہ کیسی سیاست ہے کہ عوام کے مستقبل کا معاملہ ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ایکسپوز کرنے پر لگی ہیں۔
تین ترامیموں پر راتوں رات اکٹھا ہو جانے والی سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کے اس معاملے پر متفق ہونے کی بجائے اختلافات کو کیوں ہوا دے رہی ہیں اور خطے کے لوگ اب صدر آصف علی زرداری سے بھی سوال پوچھتے ہیں کہ آخر اس معاملے میں ان کی مفاہمتی سیاست کہاں گئی۔ صوبائی خود مختاری اور این ایف سی جیسے دریا عبور کر جانے والے اس نالے پر کیوں رکے ہیں اور خطے کے عوام کو صبر' انتظار اور حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے۔ سیاست اور وہ بھی تاخیری سیاست کرکے ایک اور کالا باغ تشکیل دیا جا رہا ہے۔
دور بیٹھے حکمران شاید آج بھی 90 کی دہائی والی سیاست کے سراب میں گم ہیں اور حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہے ہیں۔ سنجیدہ سیاست میں شرارت کی سیاست عود کر آئے تو حالات تنزلی کی طرف جاتے ہیںاور ایسا سب کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔
ایسے ہی حالات میں گزشتہ ہفتے ملکی تاریخ میں وضع داری اور بردارشت کی سیاست کرنے والے عظیم شخص نوابزادہ نصر اللہ خان کی برسی منائی گئی۔ برسی کی یہ تقریب اس لئے نرالی تھی کہ اسے نوابزدہ نصر اللہ خان کے اختلافات میں گھرے صاحبزادوں نوابزدہ منصور احمد خان اور نوابزادہ افتخار احمد خان کی بجائے ان کے سخت سیاسی حریف اور جارحانہ سیاست کے باعث شہرت حاصل کرنے والے ایم این اے جمشید دستی نے منایا ۔
تقریب کی سادگی کو دیکھ کر ایک بڑے لیڈر کی یاد قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نواب خاندان کے سیاسی مخالفین کی طرف سے ایک کاری سیاسی ضرب تھی جس کا مقصد نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے صاحبزادوں کو جھنجھوڑنا تھا' جمشید دستی ایک دہائی کی سیاست میں مظفر گڑھ کے بڑے سیاسی خانوادوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے عوامی سیاست کے منفرد انداز سے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور لوگ حیران ہیں کہ نہ جانے وہ انتخابات تک کیا کچھ کر جائیں گے۔
لیکن اب انہوں نے لیگی قیادت خصوصاً میاں صاحبان کے خلاف جارحانہ طرز تکلم اپنا لیا ہے اور آجکل ان کے بیانات اور لہجے کی تلخی مرحوم سلمان تاثیر کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ ہر وقت ٹوہ میں رہنے والے سیاسی حلقے اب اس کی چھان بین کر رہے ہیں کہ گورنر پنجاب کی تلخیاں شاہ سے وفاداری کی علامت ہیں یا شاہ کے اشارے پر سب ہو رہا ہے۔ ان میں سے کئی ذوالفقار مرزا اور فیصل رضا عابدی کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے اسے موجودہ پیپلزپارٹی کی حقیقی لائن آف ایکشن قرار دیتے ہیں اور ان کی نظر میں گورنر پنجاب سردارلطیف خان کھوسہ کو بھی لیگی قیادت کی سندھی محبت والی سیاست کا جواب دینے کے لئے میدان میں اتارا گیا ہے۔
گورنر پنجاب لطیف خان کھوسہ کبھی اپنے بیانات میں پنجاب حکومت اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے مطالبات کیا کرتے تھے اور کبھی کبھار تو اصلاح کی اپیل بھی کر جاتے تھے لیکن آج کل براہ راست دھمکیوں پر اترے ہوئے ہیں اور سیاسی بیان بازی کی ایسی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں جس کا مقصد بظاہر تو سخت لڑائی کے لئے اکسانا نظر آتا ہے۔ بعض سیانے تو کہتے ہیں کہ بیانات کی یہ تلخی نزدیکی انتخابات کے اشارے ہیں اور بعض اسے جوش دلوا کر غلطیاں کروانے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔
گزشتہ روز بھی گورنر پنجاب سردار لطیف خان کھوسہ نے ڈیرہ غازی خان کی انتخابی سیاست کی مہم پر روانہ ہونے سے قبل ملتان ائرپورٹ پر پریس کانفرنس کی اور میاں صاحبان کو عوام کش' فراڈیے ، جنوبی پنجاب کے دشمن' ڈاکو سمیت جو دل میں آیا سب کہہ ڈالا اور براہ راست دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ وہ میاں برادران کو جنوبی پنجاب کی سیاست سے مٹا دیں گے اور پیپلز پارٹی ان سے جمہوریت کے ذریعے انتقام لے گی، پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستانی عوام کو بھی پیغام دیا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور عوام سے لئے گئے اس انتقام کو مد نظر رکھتے ہوئے اب مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو بھی کانپ جانا چاہئے۔
لیکن یوں لگتا ہے کہ شاید لیگی قیادت جنوبی پنجاب میں بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کئے بیٹھی ہے اور اس نے حالات کا سمجھ بوجھ اور حکمت عملی کے تحت مقابلہ کرنے کی بجائی خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کے نام پر سیاست ہو رہی ہے' پیپلزپارٹی خود کو ہواؤں میں بننے والے اس صوبے کا بانی قرار دے کر ڈس کریڈٹ ہو رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) اس معاملے پر ڈھکی چھپی اختلافی سیاست کر کے اپنی ساکھ کھو رہی ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان اس خطے میں بسنے والوں کا ہو رہاہے جن کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے اور جن کو سبز باغ دکھا کر ورغلایا جا رہا ہے۔
نئے صوبے کے لئے بنایا جانے والا کمیشن غیر فعال اور ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ قرار دادوں کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں اسمبلیوں میں بل لانے پر خاموش ہیں اور پھر بھی سب کو کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب صوبہ بن جائے گا۔ گورنر پنجاب نے تو وعدہ کیا ہے کہ وہ صدر زرداری کو مشورہ دیں گے کہ صوبے کے بل کو سینٹ سے پاس کرایا جائے تاکہ مسلم لیگ (ن) عوام کے سامنے ایکسپوز ہو یہ کیسی سیاست ہے کہ عوام کے مستقبل کا معاملہ ہے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ایکسپوز کرنے پر لگی ہیں۔
تین ترامیموں پر راتوں رات اکٹھا ہو جانے والی سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کے اس معاملے پر متفق ہونے کی بجائے اختلافات کو کیوں ہوا دے رہی ہیں اور خطے کے لوگ اب صدر آصف علی زرداری سے بھی سوال پوچھتے ہیں کہ آخر اس معاملے میں ان کی مفاہمتی سیاست کہاں گئی۔ صوبائی خود مختاری اور این ایف سی جیسے دریا عبور کر جانے والے اس نالے پر کیوں رکے ہیں اور خطے کے عوام کو صبر' انتظار اور حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے۔ سیاست اور وہ بھی تاخیری سیاست کرکے ایک اور کالا باغ تشکیل دیا جا رہا ہے۔
دور بیٹھے حکمران شاید آج بھی 90 کی دہائی والی سیاست کے سراب میں گم ہیں اور حالات کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہے ہیں۔ سنجیدہ سیاست میں شرارت کی سیاست عود کر آئے تو حالات تنزلی کی طرف جاتے ہیںاور ایسا سب کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔
ایسے ہی حالات میں گزشتہ ہفتے ملکی تاریخ میں وضع داری اور بردارشت کی سیاست کرنے والے عظیم شخص نوابزادہ نصر اللہ خان کی برسی منائی گئی۔ برسی کی یہ تقریب اس لئے نرالی تھی کہ اسے نوابزدہ نصر اللہ خان کے اختلافات میں گھرے صاحبزادوں نوابزدہ منصور احمد خان اور نوابزادہ افتخار احمد خان کی بجائے ان کے سخت سیاسی حریف اور جارحانہ سیاست کے باعث شہرت حاصل کرنے والے ایم این اے جمشید دستی نے منایا ۔
تقریب کی سادگی کو دیکھ کر ایک بڑے لیڈر کی یاد قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نواب خاندان کے سیاسی مخالفین کی طرف سے ایک کاری سیاسی ضرب تھی جس کا مقصد نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے صاحبزادوں کو جھنجھوڑنا تھا' جمشید دستی ایک دہائی کی سیاست میں مظفر گڑھ کے بڑے سیاسی خانوادوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے عوامی سیاست کے منفرد انداز سے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور لوگ حیران ہیں کہ نہ جانے وہ انتخابات تک کیا کچھ کر جائیں گے۔