2014 کے اہم ملکی واقعات
25 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے 20 نکات پر مشتمل قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا۔
سال 2014 میں جہاں قوم نے آئندہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا وہیں اس سال کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جس کے زخم برسوں تک تازہ رہیں گے۔ سال بھر رونما ہونے والے ایسے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جنہیں سال کے اہم ترین واقعات کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
19 اپریل کو دہشت گردوں نے صحافی حامد میر پر کراچی ایئرپورٹ سے دفتر جاتے ہوئے حملہ کردیا جس میں وہ بال بال بچ گئے جس کے بعد جیو نیوزنے اپنی اسکرین پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویردکھا کر حملے کا ذمہ دار انہیں قراردیا، چینل کی ملک دشمن پالیسی کے خلاف پورا ملک یک زبان ہوکر پاک فوج کی حمایت میں باہر نکل آیا۔
9 جون کو دہشتگردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا جس کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید جب کہ فورسز کی کارروائی کے دوران 10 دہشت گرد بھی مارے گئے جب کہ حملے کے نتیجے میں آئرلینڈ کرکٹ بورڈ نے نومبر میں اپنا طے شدہ دورہ پاکستان منسوخ کردیا۔
15 جون کو پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے آپریشن ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں باقاعدہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔
17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر پولیس اورمنہاج القرآن کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 14 کارکن جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے اس کارروائی پر صوبائی حکومت سمیت وفاقی حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں وزیرقانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔
3 نومبر کو دہشت گردی کا ایک اور المناک سانحہ پیش آیا اور واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب کے بعد شرکا جونہی باہر نکلے تو خودکش حملہ آور نے خود کو بارودی مواد سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 59 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بمبار کی شناخت حنیف اللہ کے نام سے ہوئی۔
دسمبر کے مہینے کو ملکی تاریخ میں اہم اہمیت حاصل ہے اور اس میں کئی نمایاں واقعات رونما ہوئے۔
19 دسمبر کو ملک میں 6 سال بعد ایک مرتبہ پھر سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد ہوا اور فوجی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کرنے والے مجرم عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور پرویز مشرف حملہ کیس کے مجرم ارشد محمود کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
19 اپریل کو دہشت گردوں نے صحافی حامد میر پر کراچی ایئرپورٹ سے دفتر جاتے ہوئے حملہ کردیا جس میں وہ بال بال بچ گئے جس کے بعد جیو نیوزنے اپنی اسکرین پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویردکھا کر حملے کا ذمہ دار انہیں قراردیا، چینل کی ملک دشمن پالیسی کے خلاف پورا ملک یک زبان ہوکر پاک فوج کی حمایت میں باہر نکل آیا۔
9 جون کو دہشتگردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا جس کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید جب کہ فورسز کی کارروائی کے دوران 10 دہشت گرد بھی مارے گئے جب کہ حملے کے نتیجے میں آئرلینڈ کرکٹ بورڈ نے نومبر میں اپنا طے شدہ دورہ پاکستان منسوخ کردیا۔
15 جون کو پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے آپریشن ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں باقاعدہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔
17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر پولیس اورمنہاج القرآن کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 14 کارکن جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے اس کارروائی پر صوبائی حکومت سمیت وفاقی حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں وزیرقانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔
3 نومبر کو دہشت گردی کا ایک اور المناک سانحہ پیش آیا اور واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب کے بعد شرکا جونہی باہر نکلے تو خودکش حملہ آور نے خود کو بارودی مواد سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 59 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بمبار کی شناخت حنیف اللہ کے نام سے ہوئی۔
دسمبر کے مہینے کو ملکی تاریخ میں اہم اہمیت حاصل ہے اور اس میں کئی نمایاں واقعات رونما ہوئے۔
19 دسمبر کو ملک میں 6 سال بعد ایک مرتبہ پھر سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد ہوا اور فوجی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کرنے والے مجرم عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور پرویز مشرف حملہ کیس کے مجرم ارشد محمود کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔