2014 کے اہم ملکی واقعات

25 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے 20 نکات پر مشتمل قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا۔


کاشف اعوان/ December 28, 2014
2014 کا سب سے افسوسناک واقعہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشتگردوں کا حملہ تھا جس میں 132 بچوں سمیت 146 افراد شہید ہوئے۔ فوٹو؛فائل

سال 2014 میں جہاں قوم نے آئندہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا وہیں اس سال کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جس کے زخم برسوں تک تازہ رہیں گے۔ سال بھر رونما ہونے والے ایسے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں جنہیں سال کے اہم ترین واقعات کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔



سال نو کا آغاز ہی قوم کے لئے تکلیف دہ رہا اور 9 جنوری کو دہشت گردوں نے کراچی میں عیسیٰ نگری کے قریب ایکسپریس وے پر ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں چوہدری اسلم سمیت 3 اہلکار شہید ہوگئے۔ چوہدری اسلم کو سی آئی ڈی پولیس میں ایک دبنگ افسر سمجھا جاتا تھا جن کی کمی سی آئی ڈی پولیس میں آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔



تھر میں رواں سال کی ابتدا سے ہی غذائی قلت اور بیماریوں کے شکار کمسن بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اکتوبر اور نومبر میں بڑھ کر کئی گنا بڑھ گیا اور سال بھر حکومتی غفلت کے باعث ہلاک بچوں کی تعداد 600 سے تجاوز کرگئی۔

19 اپریل کو دہشت گردوں نے صحافی حامد میر پر کراچی ایئرپورٹ سے دفتر جاتے ہوئے حملہ کردیا جس میں وہ بال بال بچ گئے جس کے بعد جیو نیوزنے اپنی اسکرین پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویردکھا کر حملے کا ذمہ دار انہیں قراردیا، چینل کی ملک دشمن پالیسی کے خلاف پورا ملک یک زبان ہوکر پاک فوج کی حمایت میں باہر نکل آیا۔



9 جون کو دہشتگردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا جس کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید جب کہ فورسز کی کارروائی کے دوران 10 دہشت گرد بھی مارے گئے جب کہ حملے کے نتیجے میں آئرلینڈ کرکٹ بورڈ نے نومبر میں اپنا طے شدہ دورہ پاکستان منسوخ کردیا۔



15 جون کو پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے آپریشن ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا گیا اور شمالی وزیرستان میں باقاعدہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا۔



17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر پولیس اورمنہاج القرآن کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 14 کارکن جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے اس کارروائی پر صوبائی حکومت سمیت وفاقی حکومت کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں وزیرقانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔



14 اگست کو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی گئی اور اسلام آباد میں طویل مدتی دھرنا دیا گیا، تحریک انصاف کی جانب سے دیا جانے والا دھرنا 126 دن کے بعد اختتام پذیر ہوا جسے پاکستان سمیت دنیا کا طویل ترین دھرنا کہا جاسکتا ہے۔

3 نومبر کو دہشت گردی کا ایک اور المناک سانحہ پیش آیا اور واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب کے بعد شرکا جونہی باہر نکلے تو خودکش حملہ آور نے خود کو بارودی مواد سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 59 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بمبار کی شناخت حنیف اللہ کے نام سے ہوئی۔

دسمبر کے مہینے کو ملکی تاریخ میں اہم اہمیت حاصل ہے اور اس میں کئی نمایاں واقعات رونما ہوئے۔



16 دسمبر کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا جس کے دوران 132 بچوں سمیت 146 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جس کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت یک زباں ہوئی اور دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کا فیصلہ ہوا۔



19 دسمبر کو ملک میں 6 سال بعد ایک مرتبہ پھر سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد ہوا اور فوجی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کرنے والے مجرم عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور پرویز مشرف حملہ کیس کے مجرم ارشد محمود کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔



25 دسمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے 20 نکات پر مشتمل قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا جس پر تمام پارلیمانی جماعتوں اور عسکری قیادت نے اتفاق رائے کا اظہار کیا جس کے مطابق ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے نیکٹا کو فعال اور فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔