پاکستانی خواتین کی امریکی امداد

پچھلے کچھ برسوں میں ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں پاکستانی خواتین نے ہر میدان میں ثابت کیا ہے کہ وہ مردوں سے کم نہیں ہیں


Wajahat Ali Abbasi October 03, 2012
[email protected]

کئی سال پہلے ہماری والدہ نیلوفر علیم عباسی کا ایک سیریل ''شہزوری'' پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہوا۔ یہ وہ ڈراما تھا جس نے کئی ٹرینڈ پاکستان میں شروع کیے۔

لوگوں کا بے صبری سے اگلی قسط کا انتظار کرنا، ڈراما نشر ہوتے وقت شہر کی سڑکوں کا خالی ہوجانا، گھروں، ریسٹورنٹس اور دعوتوں میں ''اگلی قسط میں کیا ہوگا؟'' پر باتیں کرنا، لوگوں کا ڈرامے کے کرداروں کی طرح فیشن کرنا اور سب سے بڑی بات پاکستان ٹی وی پر پراعتماد خواتین کا کردار دِکھانے کا ٹرینڈ، خواتین جو اپنے حق، اپنے مستقبل اور اپنی سوسائٹی سے اپنے دفاع کے لیے کھڑا ہونا اور لڑنا جانتی تھیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن پر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک بولڈ لڑکی اپنے حق کے لیے اپنے ظالم سسرال والوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادے۔ شہزوری کی وہ قسط نشر ہوئی جس میں شہزوری اپنے سسر کو گل دان کھینچ کر مارتی ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں سوال اٹھ گیا کہ کیا ایسی چیزیں ٹی وی پر دِکھانی چاہییں یا اس سیریل کو بیچ میں ہی روک دینا چاہیے۔ اسمبلی میں موجود سب ہی لوگ متفق تھے کہ بہو کا اِس طرح ساس سسر کو مارنا غلط ہے لیکن ساتھ میں انھیں یہ بھی یقین تھا کہ پاکستانی عورت ایک مقبول شخصیت کی مالک ہے اور اسے اپنے حق کے لیے کھڑا ہوتے دِکھانا درست ہے۔ شہزوری کی ساری قسطیں نشر ہوئیں اور آج تک اس کی یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

پچھلے کچھ برسوں میں ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں پاکستانی خواتین نے ہر میدان میں ثابت کیا ہے کہ وہ مردوں سے کم نہیں ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ 35 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے کم عمر پرائم منسٹر بنیں بلکہ وہ پہلی خاتون پرائم منسٹر بھی تھیں۔ 1970 میں نسرین قصوری نے اپنی سسرال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بچّوں کے لیے مونٹیسوری شروع کی اور آج وہ ایک نیشنل یونیورسٹی کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ آٹھ ملکوں میں اسکول چلا رہی ہیں۔ مختاراں مائی وہ ان پڑھ، دنیا کے حساب سے کمزور عورت ہے جس کے ساتھ ناانصافی کی گئی لیکن انھوں نے اپنی طاقت سے عورتوں کے لیے بہت بڑی آرگنائزیشن اور گائوں میں لڑکیوں کے لیے اسکول بھی بنایا ہے۔

بلقیس ایدھی پاکستان کی ایک ہائوس وائف اور سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لاکھوں یتیم بچوں کی ماں بھی ہیں۔ شرمین عبید چنائے جنھوں نے عورتوں پر ظلم کے خلاف نہ صرف ڈاکیومینٹری بنائی بلکہ اس پر آسکر ایوارڈ بھی جیتا۔ نمیرہ سلیم وہ پاکستانی جو خلا میں گئیں اور پہلی شخص قرار دی گئیں جو نارتھ اور سائوتھ پول بھی گئیں۔ خالدہ بروہی صرف 23 سال کی عمر میں کوئٹہ بلوچستان میں آنرکلنگ اور نابالغ بچوں کی شادی کے خلاف این جی او چلا رہی ہیں۔ اسماء جہانگیر پاکستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ہیڈ بنیں۔ پاکستان کی سب سے اہم ایمبیسڈر شیری رحمن اور پاکستان کی پہلی فارن منسٹر حنا ربانی کھر اور کم عمر ارفع کریم وہ کچھ مثالیں ہیں، جنھوں نے پاکستانی خواتین اور پاکستان کا نام ساری دنیا میں روشن کیا۔

پاکستانی خواتین کے کارہائے نمایاں پر بات ہو تو شاید پورا اخبار بھی کم پڑے گا، وہ خواتین جو اپنی ہمت سے زندگی میں بہت آگے بڑھ گئیں اور صرف وہی کیوں جنھوں نے نام کمایا۔ پاکستان کے ہر گھر میں موجود عورت مضبوط ہے، بڑے ملکوں جیسی خواتین جیسا سوشل سپورٹ سسٹم ان کے پاس نہیں ہے، پھر بھی وہ اپنا گھر اپنے گھر والوں کی زندگیاں بہتر بناتی ہیں۔ صبح سے لے کر رات دیر تک گھر میں کام کرتی ہے، سسرال والوں، میاں کو خوش رکھتی ہے، کم نیند اور بہت محنت کرکے اپنے بچوں کے ذریعے قوم کو ڈاکٹرز، انجینئر دیتی ہے، عام عورت یہ سب کچھ نہیں کرسکتی اگر وہ مضبوط نہیں ہوتی۔

پاکستان کی مدد کرنے کے لیے امریکا ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ بلین آف ڈالرز خرچ کرنے کے بعد انھیں یہ پتہ لگ گیا ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ نہیں۔ نہ بہتر سیکیورٹی کی، نہ ہی بہتر لاء اینڈ آرڈر کی، نہ بہتر تعلیم کی، نہ پرائس کنٹرول کی، نہ ہی غربت مٹانے کی اور نہ ہی بہتر جاب مارکیٹ کی، امریکا کے حساب سے پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت پاکستانی خواتین کے لیے کونسل قائم کرنے کی ہے جس سے پاکستانی خواتین مضبوط ہو پائیں گی، کچھ دن پہلے امریکی فارن منسٹر ہلیری کلنٹن کی زیر سرپرستی ویمن کونسل قائم کی گئی۔ یہ کونسل، امریکن کو آپریشن فائونڈیشن، یونیورسٹیز اور دوسرے ڈونرز کے ساتھ جڑے گی، جس کی مدد سے پاکستانی خواتین مختلف میدانوں میں کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرپائیں گی اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوپائیں گی۔

یو ایس ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ اور امریکن یونیورسٹی آف واشنگٹن نے مل کر یہ کونسل قائم کی ہے۔ یہ کونسل اپنی طرف سے کوئی رقم پاکستانی خواتین کو نہیں دے گی لیکن اس بروکر کی طرح کام کرے گی جو پاکستانی خواتین کو بزنسز کے لیے کانٹیکٹ میں لائے گی اور ان کے ذریعے پاکستانی خواتین کو سِکھایا جائے گا کہ اپنے پیروں پر کس طرح کھڑا ہوا جاتا ہے۔ ہلیری پاکستان کئی بار آچکی ہیں، انھیں یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ امریکا پاکستان کی وہ ساس ہے جو بہو سے کبھی خوش نہیں ہوتی، اتنا کچھ ہمارے بارے میں جاننے کے بعد بھی وہ یہ نہیں جان پائیں کہ پاکستانی خواتین کو کسی بھی مدد کی ضرورت نہیں، وہ تو خود اِس قابل ہیں کہ جو اپنی مدد آپ کے علاوہ دنیا کو بہتر کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔

جہاں تک مدد کی بات ہے اس کی پاکستانی خواتین کو نہیں خود ہلیری کو ضرورت ہے۔ بل کلنٹن کی پرانی گرل فرینڈ مونیکا لیونسکی اِس وقت 39 سال کی ہیں، صدر کلنٹن سے افیئر کے بعد مونیکا کو بدنامی کے باعث کوئی بھی نوکری نہ مل سکی، اِسی لیے 39 سال کی عمر میں وہ بِنا نوکری کے ڈپریشن کا شکار ہیں اور بک پبلشرز سے رابطے کررہی ہیں کہ ان کے وہ خطوط چھاپے جائیں جو بل کلنٹن کو انھوں نے افیئر کے دوران لکھے تھے جس کے عوض وہ پبلشر سے بارہ ملین ڈالرز چاہتی ہیں۔ وہ بارہ ملین ڈالرز جن کے مل جانے کے بعد وہ بل کلنٹن اور ساتھ ہلیری کو بھی شرمندہ کرنے والی ہیں دنیا کے سامنے۔

ہلیری کلنٹن کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ پاکستانی خواتین سے رجوع کریں۔ اپنے اِس مشکل وقت میں۔ ایک بات جو شاید ہلیری ہماری خواتین کے بارے میں نہیں جانتیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں خواتین سارا دن چلتے پھرتے اِس طرح کے ''میاں بیوی اور وہ'' والے ڈرامے دیکھتی رہتی ہیں اور جانتی ہیں کہ اِن مسئلوں سے اچھی طرح کیسے نمٹا جاتا ہے، ہلیری کو مضبوط ہونے کے لیے ہماری خواتین کی مدد چاہیے تو وہ حاضر ہیں، اِس کے لیے انھیں کوئی کونسل بنانے کی ضرورت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں