آگ و خوں اور سیلِ بلا
خوف ناک بارشوں کی پیش گوئیوں اور وارننگ کے باوجود متعلقہ ادارے اور اہلکار قبل از وقت حرکت میں نہیں آتے
گزشتہ دنوں کراچی اور لاہور میں رونما ہونے والے آتشزدگی کے دو انتہائی الم انگیز، دردناک اور دل خراش سانحات میں تین سو سے زاید افراد کے لقمۂ اجل بن جانے پر پورے ملک میں سوگ کی فضا طاری رہی۔
مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کی سوختہ لاشوں کے جنازے اٹھائے گئے تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار تھا۔ لاہور کی ایک پس ماندہ بستی شفیق آباد میں جوتے کے کارخانے میں لگنے والی آگ سے فیکٹری کے مالک سمیت 20 سے زاید افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون حب ریور روڈ پر واقع تین منزلہ گارمنٹ فیکٹری علی انٹرپرائز میں آتش زدگی کا نہایت خوف ناک اور بدترین سانحہ رونما ہوا، جس میں وہاں کام کرنے والے جیتے جاگتے ڈھائی سو سے زاید مرد، عورتیں اور نوجوان چند گھنٹوں میں موت کے لپکتے شعلوں کی نذر ہو کر ابدی نیند سوگئے۔
جائے حادثے پر گویا قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ آگ کے بے رحم شعلوں نے کتنی مائوں کے لخت جگر نگل لیے، کتنی سہاگنوں کو بیوہ کردیا، کتنے پھول جیسے معصوم بچّوں کو یتیمی کی دلدل میں دھکیل دیا، سیکڑوں گھرانوں کے کفیل اور بوڑھے والدین کے واحد سہارے بھڑکتے شعلوں کا ایندھن بن کر اپنے لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔ صدر، وزیراعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ سمیت سیاسی و مذہبی رہنمائوں و اراکین اسمبلی نے مذکورہ دونوں واقعات پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔
صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے لواحقین کے لیے لاکھوں روپے کی امداد کا بھی اعلان کیا گیا اور اِن اندوہ ناک سانحات کی جامع تحقیقات کرانے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔ قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد میں لاہور و کراچی کے دل خراش واقعات کو ''قومی سانحہ'' قرار دینے اور ان کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اربابِ اختیار کی جانب سے اِن واقعات میں ملوث افراد اور غفلت کے مرتکب پائے جانے والے متعلقہ اداروں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے اور ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کی بھی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں جو بظاہر حوصلہ افزا بات ہے لیکن میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں بڑے بڑے ''قومی سانحے'' رونما ہوئے اور ملزموں کا کھوج لگانے کے لیے جامع تحقیقات بھی ہوئیں۔
کمیشن بھی بنائے گئے اور انکوائریوں کی خانہ پری بھی کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا۔ خدا کرے کہ تین سو بے گناہ مظلوموں کی سوختہ جانوں اور لواحقین کی آسمان کو چھوتی فریادوں کے صدقے میں اربابِ حل و عقد کی آنکھیں کھل جائیں اور آیندہ ایسے دل دہلا دینے والے سانحات سے بچنے کے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ لاہور اور کراچی میں جلنے والے دونوں آگ کے الائو اپنے پیچھے بہت سے سوالات تشنہ چھوڑ گئے ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
بدقسمتی سے اِن دنوں وطنِ عزیز میں ہونے والے پے درپے اندوہ ناک اور آگ و خون میں لتھڑے سانحات نے اہلِ وطن کو پریشان، اداس اور سوگوار کر رکھا ہے۔ ایک طرف بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کو خاک و خون میں نہلایا جارہا ہے اور کراچی تا خیبر امن و امان قائم کرنا اور اپنی رٹ کو یقینی بنانا حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے تو دوسری جانب زمینی و قدرتی آفات اور کبھی اچانک رونما ہونے والے واقعات سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی ملک بھر میں جاری بارشوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے سیکڑوں افراد اور مال مویشیوں کو نگل لیا ہے، میلوں تک پھیلے کھیت کے کھیت اور تیار فصلیں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ ملک کے چاروں صوبے اور گلگت بلتستان میں وقفے وقفے سے بارشوں کا ایک نیا سسٹم داخل ہوتا ہے اور تباہی و بربادی کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سندھ میں تو بارشوں کا 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ سیکڑوں دیہات زیرِ آب آچکے ہیں اور ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے پڑے امداد کے منتظر ہیں۔
بارشیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہر سال ہوتی ہیں۔ زلزلے، طوفان اور دیگر قدرتی و زمینی آفات بھی آتی رہتی ہیں لیکن وہاں امکانی خطرات سے نمٹنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرلیے جاتے ہیں تاکہ ہر طرح کے حادثات و سانحات کے ممکنہ اثرات و نقصانات سے عوام النّاس کو محفوظ رکھا جاسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایسا ملک ہے کہ یہاں سانحے کے رونما ہونے کے بعد ارباب اختیار خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کی جانب سے خوف ناک بارشوں کی پیش گوئیوں اور وارننگ کے باوجود متعلقہ ادارے اور اہلکار قبل از وقت حرکت میں نہیں آتے اور جب پانی سروں سے اونچا ہوجاتا ہے تو ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال طوفانی بارشوں سے ملک کے طول و عرض میں سیلابی ریلے خوف ناک تباہی پھیلاتے ہیں، جس سے نہ صرف لوگوں کی املاک، مال مویشی اور سیکڑوں انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے بلکہ ہماری زراعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوجاتا ہے اور قومی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہوجاتی ہے۔ کاش کہ ہم نے اپنے آبی نظام کو درست کرلیا ہوتا اور بارشوں کے اضافی پانیوں کو جمع کرنے کے لیے ڈیم بنالیتے تو ہر سال بھاری نقصانات نہ اٹھانے پڑتے اور لوگ سیلِ بلا سے محفوظ رہتے۔
ملک میں 2005 میں آنے والے خوف ناک زلزلے کے بعد قدرتی، زمینی، آسمانی و اتفاقی حادثات و سانحات سے نمٹنے کے لیے ایک نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن اپنے آغاز کے بعد سے یہ ادارہ کوئی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکا، نتیجتاً ہر سانحے و حادثے کے نقصانات عوام کو اٹھانا پڑتے ہیں لیکن ایک این ڈی ایم اے ہی کیا یہاں تو ہر ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور لاہور و کراچی میں آتش زدگی کے تازہ حادثات نے ذمے دار اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ماضی میں بھی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں آتش زدگی کے متعدد واقعات رونما ہوئے اور آگ کے بے رحم شعلوں نے نہ صرف سیکڑوں لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے بلکہ لاکھوں روپے مالیت کے نقصانات بھی ہوئے لیکن ہر واقعے کے بعد جذباتی اخباری بیانات، یقین دہانیاں، انکوائریاں، تحقیقات لیکن سب لاحاصل، وقت کی گردشوں میں سب کچھ دب کر رہ جاتا ہے۔ لوگ بھی بھول جاتے ہیں اور زندگی پھر سے رواں دواں ہوجاتی ہے۔
کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا اور لاہور اور بلدیہ ٹائون کے سوختہ جانوں کے لواحقین کی آہ و بکا بھی ارباب اختیار کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے میں ناکام رہیں گی یا لواحقین کی نالہ و فریاد ارباب اقتدار اور انصاف کے اعلیٰ ایوانوں تک بھی پہنچے گی اور ان بے چاروں کو انصاف مل سکے گا۔ مذکورہ واقعات کے ذمے داروں کو بلاامتیاز کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور متعلقہ اداروں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ صنعتی و فیکٹری قوانین پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ آیندہ انسانیت کے دشمنوں کو آگ و خون کے خوف ناک کھیل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔
مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کی سوختہ لاشوں کے جنازے اٹھائے گئے تو ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار تھا۔ لاہور کی ایک پس ماندہ بستی شفیق آباد میں جوتے کے کارخانے میں لگنے والی آگ سے فیکٹری کے مالک سمیت 20 سے زاید افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون حب ریور روڈ پر واقع تین منزلہ گارمنٹ فیکٹری علی انٹرپرائز میں آتش زدگی کا نہایت خوف ناک اور بدترین سانحہ رونما ہوا، جس میں وہاں کام کرنے والے جیتے جاگتے ڈھائی سو سے زاید مرد، عورتیں اور نوجوان چند گھنٹوں میں موت کے لپکتے شعلوں کی نذر ہو کر ابدی نیند سوگئے۔
جائے حادثے پر گویا قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ آگ کے بے رحم شعلوں نے کتنی مائوں کے لخت جگر نگل لیے، کتنی سہاگنوں کو بیوہ کردیا، کتنے پھول جیسے معصوم بچّوں کو یتیمی کی دلدل میں دھکیل دیا، سیکڑوں گھرانوں کے کفیل اور بوڑھے والدین کے واحد سہارے بھڑکتے شعلوں کا ایندھن بن کر اپنے لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔ صدر، وزیراعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ سمیت سیاسی و مذہبی رہنمائوں و اراکین اسمبلی نے مذکورہ دونوں واقعات پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔
صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے لواحقین کے لیے لاکھوں روپے کی امداد کا بھی اعلان کیا گیا اور اِن اندوہ ناک سانحات کی جامع تحقیقات کرانے کے احکامات بھی جاری کردیے گئے۔ قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد میں لاہور و کراچی کے دل خراش واقعات کو ''قومی سانحہ'' قرار دینے اور ان کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اربابِ اختیار کی جانب سے اِن واقعات میں ملوث افراد اور غفلت کے مرتکب پائے جانے والے متعلقہ اداروں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے اور ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کی بھی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں جو بظاہر حوصلہ افزا بات ہے لیکن میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں بڑے بڑے ''قومی سانحے'' رونما ہوئے اور ملزموں کا کھوج لگانے کے لیے جامع تحقیقات بھی ہوئیں۔
کمیشن بھی بنائے گئے اور انکوائریوں کی خانہ پری بھی کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا۔ خدا کرے کہ تین سو بے گناہ مظلوموں کی سوختہ جانوں اور لواحقین کی آسمان کو چھوتی فریادوں کے صدقے میں اربابِ حل و عقد کی آنکھیں کھل جائیں اور آیندہ ایسے دل دہلا دینے والے سانحات سے بچنے کے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ لاہور اور کراچی میں جلنے والے دونوں آگ کے الائو اپنے پیچھے بہت سے سوالات تشنہ چھوڑ گئے ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
بدقسمتی سے اِن دنوں وطنِ عزیز میں ہونے والے پے درپے اندوہ ناک اور آگ و خون میں لتھڑے سانحات نے اہلِ وطن کو پریشان، اداس اور سوگوار کر رکھا ہے۔ ایک طرف بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کو خاک و خون میں نہلایا جارہا ہے اور کراچی تا خیبر امن و امان قائم کرنا اور اپنی رٹ کو یقینی بنانا حکومت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے تو دوسری جانب زمینی و قدرتی آفات اور کبھی اچانک رونما ہونے والے واقعات سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی ملک بھر میں جاری بارشوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے سیکڑوں افراد اور مال مویشیوں کو نگل لیا ہے، میلوں تک پھیلے کھیت کے کھیت اور تیار فصلیں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ ملک کے چاروں صوبے اور گلگت بلتستان میں وقفے وقفے سے بارشوں کا ایک نیا سسٹم داخل ہوتا ہے اور تباہی و بربادی کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سندھ میں تو بارشوں کا 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ سیکڑوں دیہات زیرِ آب آچکے ہیں اور ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے پڑے امداد کے منتظر ہیں۔
بارشیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہر سال ہوتی ہیں۔ زلزلے، طوفان اور دیگر قدرتی و زمینی آفات بھی آتی رہتی ہیں لیکن وہاں امکانی خطرات سے نمٹنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرلیے جاتے ہیں تاکہ ہر طرح کے حادثات و سانحات کے ممکنہ اثرات و نقصانات سے عوام النّاس کو محفوظ رکھا جاسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایسا ملک ہے کہ یہاں سانحے کے رونما ہونے کے بعد ارباب اختیار خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کی جانب سے خوف ناک بارشوں کی پیش گوئیوں اور وارننگ کے باوجود متعلقہ ادارے اور اہلکار قبل از وقت حرکت میں نہیں آتے اور جب پانی سروں سے اونچا ہوجاتا ہے تو ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال طوفانی بارشوں سے ملک کے طول و عرض میں سیلابی ریلے خوف ناک تباہی پھیلاتے ہیں، جس سے نہ صرف لوگوں کی املاک، مال مویشی اور سیکڑوں انسانی جانوں کا اتلاف ہوتا ہے بلکہ ہماری زراعت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوجاتا ہے اور قومی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہوجاتی ہے۔ کاش کہ ہم نے اپنے آبی نظام کو درست کرلیا ہوتا اور بارشوں کے اضافی پانیوں کو جمع کرنے کے لیے ڈیم بنالیتے تو ہر سال بھاری نقصانات نہ اٹھانے پڑتے اور لوگ سیلِ بلا سے محفوظ رہتے۔
ملک میں 2005 میں آنے والے خوف ناک زلزلے کے بعد قدرتی، زمینی، آسمانی و اتفاقی حادثات و سانحات سے نمٹنے کے لیے ایک نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن اپنے آغاز کے بعد سے یہ ادارہ کوئی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکا، نتیجتاً ہر سانحے و حادثے کے نقصانات عوام کو اٹھانا پڑتے ہیں لیکن ایک این ڈی ایم اے ہی کیا یہاں تو ہر ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے اور لاہور و کراچی میں آتش زدگی کے تازہ حادثات نے ذمے دار اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ماضی میں بھی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں آتش زدگی کے متعدد واقعات رونما ہوئے اور آگ کے بے رحم شعلوں نے نہ صرف سیکڑوں لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے بلکہ لاکھوں روپے مالیت کے نقصانات بھی ہوئے لیکن ہر واقعے کے بعد جذباتی اخباری بیانات، یقین دہانیاں، انکوائریاں، تحقیقات لیکن سب لاحاصل، وقت کی گردشوں میں سب کچھ دب کر رہ جاتا ہے۔ لوگ بھی بھول جاتے ہیں اور زندگی پھر سے رواں دواں ہوجاتی ہے۔
کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا اور لاہور اور بلدیہ ٹائون کے سوختہ جانوں کے لواحقین کی آہ و بکا بھی ارباب اختیار کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے میں ناکام رہیں گی یا لواحقین کی نالہ و فریاد ارباب اقتدار اور انصاف کے اعلیٰ ایوانوں تک بھی پہنچے گی اور ان بے چاروں کو انصاف مل سکے گا۔ مذکورہ واقعات کے ذمے داروں کو بلاامتیاز کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور متعلقہ اداروں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ صنعتی و فیکٹری قوانین پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ آیندہ انسانیت کے دشمنوں کو آگ و خون کے خوف ناک کھیل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔