گھگر پھاٹک گدر ریلوے اسٹیشن پر ٹرین حادثہ

ریلوے 56 ارب سے زاید کا مقروض ہوگیا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے دی گئی امدادی رقم بھی اعلان کے باوجود ادا نہیں کی گئی ہے

منظور رضی

KARACHI:
پاکستان ریلوے جہاں معاشی بحران کا شکار ہے، انجنوں کی شدید قلت ہے، پاور پلانٹ دستیاب نہیں ہیں، 8 ٹرینیں کراچی تا پشاور، لاہور، راولپنڈی، کوئٹہ اور ملتان تک بغیر بجلی، پنکھے نہ چلنے، باتھ روموں میں پانی تک دستیاب نہیں ہے۔

چاروں صوبوں سے گزرنے والی ٹرین خوش حال خٹک، کراچی تا راولپنڈی جانے والی پاکستان ایکسپریس، کراچی تا سیالکوٹ جانے والی علامہ اقبال ایکسپریس، کراچی تا کوئٹہ جانے والی بولان میل، کراچی سے لاہور جانے والی فرید ایکسپریس، کراچی تا ملتان جانے والی ذکریا ایکسپریس، کراچی تا سرگودھا جانے والی سپر ایکسپریس (جو اب بند کردی گئی ہے) گزشتہ ایک سال سے بغیر پاور پلانٹ اور اندھیرے میں سفر کررہی ہیں۔کاغذ کے ٹکڑے کے ذریعے ایک اسٹیشن تا دوسرے اسٹیشن تک کا لائن کلیئر دینا حتیٰ کہ پیپر لائن کلیئر (PLC) کے کاغذ بھی اسٹیشنوں پر دستیاب نہیں ہیں۔

ریلوے 56 ارب سے زاید کا مقروض ہوگیا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے دی گئی امدادی رقم بھی اعلان کے باوجود ادا نہیں کی گئی ہے صرف 6 ارب 10 کروڑ روپے کی رقم جو کہ 150 ریلوے انجنوں کی مرمت کرنے کے لیے دینے کا اعلان دسمبر 2010 میں کیا گیا تھا، پچھلے دو ماہ پہلے دی گئی ہے۔ جب کہ بجٹ 2011-2012 جون میں ساڑھے پندرہ ارب دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بعد میں بجٹ 2012-2013 کے موقع پر 20 ارب روپے کی رقم دینے کا اعلان کیا گیا جو اب تک ادا نہیں کی گئی ہے۔ کاریگر ورکشاپوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سامان (میٹریل) ملنے کا انتظار کررہے ہیں۔

بہترین کاریگر بہترین ورکشاپس کی مشینیں موجود ہیں مگر رقم نہیں دی جارہی ہے۔ سب کرپشن اور لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب کرپشن میں ڈوبی ہوئی ریلوے تباہی کی جانب رواں دواں ہے۔ خیر باتیں طویل ہوجائیں گی، ہم صرف گزشتہ دنوں 17 ستمبر کو گھگر پھاٹک پر دو ٹرینوں کے ٹکرانے کا ذکر کریں گے، جن میں 2 قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں، جن میں ایک ریلوے انچارج گارڈ ملت ایکسپریس اصغر علی اور ایک مسافر جاں بحق ہوئے جب کہ 25 سے زاید مسافر زخمی ہوگئے۔

یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ انجنوں کی کمی کی وجہ سے بعض دو دو ٹرینوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ایک انجن کے ذریعے عرصہ 6 ماہ سے چلایا جارہا ہے، جن میں ذکریا ایکسپریس اور فرید ایکسپریس، خوش حال خٹک اور بولان میل کو ایک انجن کے ذریعے لے جانے والی بدقسمت ٹرین نائٹ کوچ کراچی ایکسپریس اور ملت ایکسپریس ٹرین بھی شامل ہے۔ جب دونوں جڑواں ٹرینیں 16 گھنٹے کی تاخیر کے بعد کراچی بن قاسم اسٹیشن لائن کلیئر لینے کے بعد گدر اسٹیشن گھگر پھاٹک کے قریب کھڑی ہوئی تھیں، رات کی تاریکی صبح 3:25 پر پیچھے سے آنے والی شالیمار ایکسپریس جو کہ پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلائی جارہی تھی جس کو رات بارہ بجے کراچی کینٹ پہنچنا تھا۔


بن قاسم اسٹیشن کے سگنل ریڈ تھے، ڈرائیور یا اسٹیٹ ڈرائیور نے ایمرجنسی بریک بھی لگائے مگر ٹرین کی رفتار تیز تھی چند کلومیٹر پر کراچی ایکسپریس ملت ایکسپریس کھڑی تھیں، شالیمار ایکسپریس زوردار دھماکے سے ان سے ٹکرا گئی، شالیمار کا انجن تباہ۔ ڈرائیور اور اسٹیٹ ڈرائیور چھلانگ لگا کر نیچے کود گئے جب کہ ملت ایکسپریس کے تین کوچز ٹریک سے نیچے گر کر الٹ گئے، انچارج گارڈ اصغر علی اور مسافر سمیت کئی ایک مسافر زخمی ہوگئے۔اس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو دیگر بڑے بڑے حادثوں کی طرح سرخ فیتہ یا سرد خانے کی نذر ہوجائے گی۔

ریلوے کا پورا نظام خراب ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، سگنل سسٹم خراب ہے، انجن خراب ہیں، کوچز کی حالت بہتر نہیں ہے، ریلوے میں کرپشن عام ہے، افسران اور حکومتی حکام عیش کررہے ہیں، حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی دو ٹرینیں بزنس ٹرین، شالیمار ایکسپریس کے مالکان معاہدے کے مطابق ریلوے کو رقم ادا نہیں کررہے ہیں اور ڈیفالٹر ہوگئے ہیں۔ ریلوے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر اپنی ذاتی ٹرینیں ہمارے ٹریک پر چلاتا اپنے انجن، اپنے کوچز، اپنا اسٹاف، اپنا ڈیزل تیل استعمال کرتا اور ہمیں اس کا کرایہ دیتا، مگر ملی بھگت کے ذریعے ہمارے انجن، ہماری کوچز، ہمارا اسٹاف، ہمارا ڈیزل تیل استعمال کررہا ہے اور صرف ٹکٹ بیچ کر کروڑوں روپے منافع کی شکل میں ہر ماہ کما رہا ہے۔ اب شالیمار ایکسپریس کے ٹھیکے دار سے تباہ ہونے والے انجن اور کوچز تباہ ہونے والے نقصان وصول کیا جائے۔

یہ نقصان ریلوے کیوں برداشت کرے، حکومت اور ریلوے اس کا فوری نوٹس لے۔ دوسری جانب حادثے کی انکوائری (FGIR) فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر خالد امین کی سربراہی میں 24 ستمبر تا 26 ستمبر سے کراچی D.S آفس میں ہوئی، جس میں لاہور سے 8 تا 10 ریلوے افسران 18، 19، 20 اسکیل افسران لاہور سے بذریعہ ریلوے سیلون اور جہاز میں کراچی آئے اور 50 کے قریب ریلوے انچارج ملازمین جو کہ لاہور، فیصل آباد، خانیوال، ملتان، روہڑی، حیدرآباد اور کراچی سے اس انکوائری میں رپورٹ کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔

یہ ریلوے پر ایک بوجھ ہے، ان کا تین چار دن کا T.A.D.A کھانا پینا، ناشتہ اور رہایش کا خرچہ جو لاکھوں میں تھا، ریلوے نے برداشت کیا جو سراسر ظلم ہے۔ افسران اعلیٰ درجے کا ناشتہ، لنچ، ڈنر کھاتے رہے۔ ہم یہ کہیں گے ریلوے معاشی بحران کا شکار ہے، لہٰذا افسران ٹی اے ڈی اے نہ لیں بلکہ اس رقم سے لائٹ کا بندوبست ٹرینوں میں کردیں۔ دوسری جانب حکومت خاص کر صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، وزیر ریلوے اور اعلیٰ افسران اپنے اخراجات میں کمی کرکے ریلوے کو تباہ ہونے سے بچانے میں خصوصی توجہ دیں۔
Load Next Story