پاکستان ایک نظر میں دہشتگردی اور قومی ایکشن پلان
سیاسی جماعتوں نےجس طرح پہلی بارمتحد ہوکرکام کیا وہ لائق تحسین ہےافسوس صرف یہ کہ اِسکے لیے 132معصوم لاشوں کی ضرورت پڑی۔
ISLAMABAD:
سانحہ پشاور کے بعد بالآخر ایک قومی ایکشن پلان تشکیل دے دیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے حکومت اور ادارے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔
یورپی یونین، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود دہشت گردوں کی پھانسیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اِس بار شاید ہماری لیڈر شپ بیرونی دباؤ میں نہیں آئے گی اورعوامی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرے گی۔ پچھلی حکومت کی طرف سے پھانسیوں پرعائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ موجودہ حکومت کے لیے مشکل تھا لیکن سانحہ پشاور کے بعد عوام کا مطالبہ تھا کہ اِنسانیت کے دشمن دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ اِس لیے حکومت کے لیے یہ اہم ترین فیصلہ لینا آسان ہوگیا کہ اِس پر کم و بیش تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے ۔
دوسرا اہم ترین فیصلہ دو سال کی مدت کے لیے خصوصی عدالتوں (فوجی عدالتوں) کا قیام ہے، جسکے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ تحفظات کے باوجود، اس اقدام کی حمایت کافی پس و پیش کے بعد تمام جماعتوں نے کردی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہونے کے باوجود ان مقدمات کے وہ فیصلے نہیں ہوپاتے جو اِنصاف کے متقاضی ہیں اوراِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ اُن کو سزا ہو ہی نہیں سکتی اور نتیجتاً اُن کے حوصلے بلند رہتے ہیں ۔
اِن ملٹری کورٹس کا قیام ہمارے نظام کے نقائص اور قانونی سقم کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے، گواہوں اور ججز کے تحفظ کامناسب اِنتظام نا ہونے کے باعث خوف کی فضا میں نہ گواہی ہو پاتی ہے اور نہ منصفی۔ پھر دہشت گردی کی تشریح میں بھی ابہام ہے۔ اِن کورٹس کے قیام نے سوالیہ نشان بھی کھڑا کردیا ہے کہ عدالتیں سیاسی لیڈروں پر تو دہشت گردی کی دفعات لگا دیتی ہیں لیکن ثبوتوں کے باوجود خوف اور مصلحت کا شکار ہوکر دہشت گردوں کو با عزت بری کردیتیں ہیں یا پھر مقدمات طول پکڑ جاتے ہیں لہذا ایسے مقدمات کی تیز سماعت اور منطقی انجام کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا کیونکہ موجودہ نظام میں اصلاحات کے لیے جو وقت درکار ہے وہ صورتحال کے منافی ہے۔ اِس مسئلہ پر ماہرین منقسم ہیں اور سیاست دان بھی اسے کڑوا گھونٹ قرار دے رہے ہیں لیکن حکومتی فیصلہ اٹل ہے ۔
میرے نذدیک حکومت کا اصل اِمتحان سفارتی محاذ ہے لیکن حیرت کی بات یہ کہ قومی ایکشن پلان اِس محاذ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں اور پھر کوئی مانے نہ مانے، یہ ملک بھر میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے بیرون ملک سے ہی ملتے ہیں۔ لیکن اِس حقیقت کے باوجود اندرونی کمزوری سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دشمن کا تو کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، مگر اُس سازش سے کیسے نمٹا جائے یہی حکمرانوں اور دیگر کرتا دھرتاوں کا اصل کام ہوتا ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد آرمی چیف نے فوری طور پر افغانستان جا کر یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور افغانستان میں موجود بھارتی قونصلیٹ کی باتیں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں، ان کے رابطہ کار بیرون ملک موجود ہیں جنہیں ختم کیے بغیر ملک میں امن نہ ممکن ہے۔ مؤثر سفارت کے ذریعے اِن مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے ناکافی ثبوتوں کے باوجود پاکستان کے خلاف زبردست سفارتی محاذ بنایا، اب ہماری سولین قیادت کو بھی مبہم اِشاروں کے بجائے دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں نے جس طرح پہلی بار متحد ہو کر کام کیا وہ لائق تحسین ہے افسوس صرف یہ کہ اِسکے لیے 132 معصوم لاشوں کی ضرورت پڑی ۔
اب امید تو یہ ہے کہ مستقبل میں بھی سیاسی جماعتیں قومی مفاد کے لیے یوں ہی شانہ بشانہ کھڑی ہونگی اور ساتھ ساتھ جواعلانات ہوئے ہیں اُن پر عملدرآمد بھی کیا جائے کہ اعلانات تو اُس وقت سے ہورہے ہیں جب ہمارے آباواجداد یہاں رہا کرتے تھے، ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اِسی اُمید پر اپنی زندگی گزاردیں کہ اعلانا ت پرعملدرآمد ہوگا کہ اعلانات تو اُس وقت سے ہورہے ہیں جب ہمارے آباواجداد یہاں رہا کرتے تھے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد بالآخر ایک قومی ایکشن پلان تشکیل دے دیا گیا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے حکومت اور ادارے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔
یورپی یونین، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود دہشت گردوں کی پھانسیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اِس بار شاید ہماری لیڈر شپ بیرونی دباؤ میں نہیں آئے گی اورعوامی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرے گی۔ پچھلی حکومت کی طرف سے پھانسیوں پرعائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ موجودہ حکومت کے لیے مشکل تھا لیکن سانحہ پشاور کے بعد عوام کا مطالبہ تھا کہ اِنسانیت کے دشمن دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ اِس لیے حکومت کے لیے یہ اہم ترین فیصلہ لینا آسان ہوگیا کہ اِس پر کم و بیش تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے ۔
دوسرا اہم ترین فیصلہ دو سال کی مدت کے لیے خصوصی عدالتوں (فوجی عدالتوں) کا قیام ہے، جسکے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ تحفظات کے باوجود، اس اقدام کی حمایت کافی پس و پیش کے بعد تمام جماعتوں نے کردی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہونے کے باوجود ان مقدمات کے وہ فیصلے نہیں ہوپاتے جو اِنصاف کے متقاضی ہیں اوراِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ اُن کو سزا ہو ہی نہیں سکتی اور نتیجتاً اُن کے حوصلے بلند رہتے ہیں ۔
اِن ملٹری کورٹس کا قیام ہمارے نظام کے نقائص اور قانونی سقم کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے، گواہوں اور ججز کے تحفظ کامناسب اِنتظام نا ہونے کے باعث خوف کی فضا میں نہ گواہی ہو پاتی ہے اور نہ منصفی۔ پھر دہشت گردی کی تشریح میں بھی ابہام ہے۔ اِن کورٹس کے قیام نے سوالیہ نشان بھی کھڑا کردیا ہے کہ عدالتیں سیاسی لیڈروں پر تو دہشت گردی کی دفعات لگا دیتی ہیں لیکن ثبوتوں کے باوجود خوف اور مصلحت کا شکار ہوکر دہشت گردوں کو با عزت بری کردیتیں ہیں یا پھر مقدمات طول پکڑ جاتے ہیں لہذا ایسے مقدمات کی تیز سماعت اور منطقی انجام کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا کیونکہ موجودہ نظام میں اصلاحات کے لیے جو وقت درکار ہے وہ صورتحال کے منافی ہے۔ اِس مسئلہ پر ماہرین منقسم ہیں اور سیاست دان بھی اسے کڑوا گھونٹ قرار دے رہے ہیں لیکن حکومتی فیصلہ اٹل ہے ۔
میرے نذدیک حکومت کا اصل اِمتحان سفارتی محاذ ہے لیکن حیرت کی بات یہ کہ قومی ایکشن پلان اِس محاذ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں اور پھر کوئی مانے نہ مانے، یہ ملک بھر میں جاری دہشت گردی کے ڈانڈے بیرون ملک سے ہی ملتے ہیں۔ لیکن اِس حقیقت کے باوجود اندرونی کمزوری سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دشمن کا تو کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، مگر اُس سازش سے کیسے نمٹا جائے یہی حکمرانوں اور دیگر کرتا دھرتاوں کا اصل کام ہوتا ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد آرمی چیف نے فوری طور پر افغانستان جا کر یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور افغانستان میں موجود بھارتی قونصلیٹ کی باتیں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں، ان کے رابطہ کار بیرون ملک موجود ہیں جنہیں ختم کیے بغیر ملک میں امن نہ ممکن ہے۔ مؤثر سفارت کے ذریعے اِن مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے ناکافی ثبوتوں کے باوجود پاکستان کے خلاف زبردست سفارتی محاذ بنایا، اب ہماری سولین قیادت کو بھی مبہم اِشاروں کے بجائے دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے۔
سیاسی جماعتوں نے جس طرح پہلی بار متحد ہو کر کام کیا وہ لائق تحسین ہے افسوس صرف یہ کہ اِسکے لیے 132 معصوم لاشوں کی ضرورت پڑی ۔
اب امید تو یہ ہے کہ مستقبل میں بھی سیاسی جماعتیں قومی مفاد کے لیے یوں ہی شانہ بشانہ کھڑی ہونگی اور ساتھ ساتھ جواعلانات ہوئے ہیں اُن پر عملدرآمد بھی کیا جائے کہ اعلانات تو اُس وقت سے ہورہے ہیں جب ہمارے آباواجداد یہاں رہا کرتے تھے، ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اِسی اُمید پر اپنی زندگی گزاردیں کہ اعلانا ت پرعملدرآمد ہوگا کہ اعلانات تو اُس وقت سے ہورہے ہیں جب ہمارے آباواجداد یہاں رہا کرتے تھے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔