پاکستان ایک نظر میں سانحہ ٹمبر مارکیٹ اور حقائق

کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود بڑھتے ہوئے بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات قابل افسوس ہیں۔


محمد عمیر دبیر December 29, 2014
کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود بڑھتے ہوئے بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات قابل افسوس ہیں۔ فوٹو آئی این پی

گزشتہ روز ٹیلی ویژن پر ایک خبر چلتی دیکھی کہ ٹمبر مارکیٹ پرانا حاجی کیمپ مارکیٹ میں آگ لگ گئی ۔ یہ خبر سننے کے بعد میں اپنے کاموں میں مگن ہوگیا ، مگر جب رات ایک بجے دوبارہ ٹی وی دیکھا تو پتہ چلا کہ آگ نے شدت اختیار کر لی ہے ۔ فائر بریگیڈکا عملہ آگ بجھانے میں تاحال مصروف ہے ۔ آگ کی شدت دیکھ کر ایک عجیب خوف طاری ہوگیا ۔ میں نے اپنے ذرائع کو فون کرنا شروع کیا ، بلاآخر ایک دوست نے حامی بھر ی کہ وہ اپنی گاڑی لے کر آرہا ہے ۔ تقریبا رات دیڑھ بجے میں اپنے گھر سے روانہ ہوا ۔ میں دعائیں کرتا ہوا جارہا تھا۔

میرے خیال میں ٹمبر مارکیٹ میں بھتہ مافیا کا بہت اثر و رسوخ ہے، اور یہ کارروائی بھی کسی بھتہ گروپ کی کارستائی لگتی ہے، یہ بھتہ مافیا اولڈ سٹی ایریا ، کھارادر صرافہ بازار ، بولٹن مارکیٹ ، جوڑیا بازار اور پورے شیر شاہ کے کاروباری حضرات سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح پرانا حاجی کیمپ ٹمبر مارکیٹ سے ماہانہ اور 15روز پر بھتہ وصول کر نے کی ذمہ داری بھی ایک بھتہ مافیا گروپ کی ہے۔ لکڑی کا کام کرنے والے ایک تاجر کے پاس 15روز پہلے 40لاکھ روپے بھتے کی پرچی موصول ہوئی اور نہ ملنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ۔ حاجی رمضان نے متعلقہ تھانے کو آگاہ کیا تھا ۔ تاہم دوروز قبل ان کے گودام پر کریکر حملہ کیا گیا، جس کی خبر کچھ چینلز نے نشر کی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود بھتے کی مقررہ تاریخ پر ادائیگی نہ کرنے پر نامعلوم افراد نے بذریعہ کیمیکل حاجی رمضان کے کارخانے میں پڑی لکڑی میں آگ لگا دی۔ چونکہ اس روز بے نظیر کی شہادت پر چھٹی تھی ۔ کارخانہ اسی وجہ سے بند تھا۔

آدھے گھنٹے بعد رات دو بجے جائے حادثہ پہنچا ۔ سندھ حکومت کا کوئی ایک نمائندہ موجود نہیں تھا۔ چھوٹی گلیاں اور قریب گھروں کے باعث آگ کی شدت نے فلیٹس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں کام کرنے میں مصروف تھیں۔ بقیہ 6گاڑیا ں پانی ختم ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہی تھیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ فائر بریگیڈ کے ادارے کے پاس 2کروڑ کی اس آباد ی والے شہر میں صرف 35فائر بریگیڈیز کی گاڑیاں موجود ہیں ۔ تاہم صرف 20گاڑیاں روڑ پر چلنے کی حالت میں ہیں ۔ سانحہ کی جگہ سے صرف آدھا کلو میٹر دور فائر بریگیڈ کا آفس موجود تھا ۔ متاثرین نے وہاں پہنچ کر فریاد کی تو حکام کی جانب سے جواب موصول ہوا کہ 2 گاڑیاں موجود ہیں ۔ جن میں نہ پانی ہے اور نہ ڈیزل ۔ خیر سے آگ لگنے کے دو گھنٹے بعد فائر بریگیڈ کی گاڑیاں دیگر اسٹیشنز سے جائے حادثہ پر پہنچی ۔

میں نے جائے حادثہ پر ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا ۔ تاہم اس وقت تک حکومتی نمائندوں میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ اس سانحہپر وزیر اطلاعات (سندھ) نے ایک پریس کانفرنس کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ٹمبر مارکیٹ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا اور اس حوالے سے کمشنر کراچی کی سربراہی میں نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی۔ سندھ حکومت کے تحقیقات اور ازالہ کرنے کی باتیں صرف بیانات تک ہی محدود ہیں ، کیونکہ ماضی میں کراچی کے علاقے شیر شاہ اور بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگی آگ کے مثاترین آج تک امداد اور انصاف کے منتظر ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم کی جانب سے ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ پر حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔

کراچی کے مسائل سب کے ہیں ،مگر ان کے وسائل کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ پوری سندھ حکومت کی بشمول تمام اداروں کے اعلی حکام میں سے تقریبا کسی کا تعلق کراچی سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ساتھ ایسا سلوک برتا جاتا ہے ۔محض اس وجہ سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کروایا جاتا کہ شہر قائد کی ہر دور منتخب ہونیوالی جماعت نے ہر دور کے بلدیاتی انتخابات میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ شہر کو ترقی کی جانب گامزن بھی کیا۔اس وجہ سے بلدیاتی انتخابات نہ کرانا جمہوری دور میں جمہوری لوگوں کے ہاتھوں آمریت کی بدترین مثال ہے ۔

آخر میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، چیف جسٹس آف سندھ سے التماس ہے کہ شہر میں ہونے والے اس طرح کے سانحات کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ ایک سال سے زاہد عرصہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے باوجود بڑھتے ہوئے بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات قابل افسوس ہیں۔ اس طرح کے سانحے کے باوجود حکومت کی عدم توجہی جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ خدار ا جمہوریت کو مکمل کیجئے اور بلدیاتی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد کیجئے تاکہ کراچی کے شہری اپنے مسائل کے حل کے لئے منتخب نمائندوں کے پاس جائیں اور سندھ حکومت کی کرپشن کو لگام ملے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں