پاکستان ایک نظر میں وہی ہوا جس کا تھا ڈر

ذکی لکھوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کا دہشت گردی کے خلاف حکومتی اعلان جنگ اور حالیہ اقدامات پر کیا اثر پڑے گا۔

ذکی لکھوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کا دہشت گردی کے خلاف حکومتی اعلان جنگ اور حالیہ اقدامات پر کیا اثر پڑے گا۔ فوٹو اے ایف پی

ہم دہشت گردی کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ظالموں کے دن گنے جاچکے ہیں۔ حکومت اور تمام ادارے دہشت گردی کے خلاف ایک ہو کر آگے بڑھیں گے اور انہیں عبرت ناک انجام سے دوچار کریں گے۔ ایسی بہت سی باتیں خصوصاً سانحہ پشاور کے بعد آپ نے ضرور سنی ہوں گی، لیکن ذکی لکھوی کی رہائی کا تازہ فیصلہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ کیا قانونی پیچیدگیاں دور کرنے اور دہشت گردی کے خلاف نئی اور مؤثر حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے فرشتے سر زمین پاک پر اتریں گے؟ یقیناًایسا نہیں ہو گا۔ یہ ہمیں ہی کرنا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کی تائید اور نئے قوانین پر عمل درآمد کے لیے ریاست کے ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

سانحہ پشاور کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردوں کا تعاقب کر کے انہیں بدترین انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں اہم اجلاسوں میں کئی فیصلے بھی کیے گئے۔ ملک میں پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع ہوا اور چند دہشت گردوں کو تختہ دار پر کھینچ بھی دیا گیا۔ یوں لگا کہ وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے اس عفریت کے خلاف جنگ جیتنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ سانحہ پشاور نے تو منظر کا منظر ہی بدل کر رکھ دیا۔ کراچی سے لے کر خیبر تک قوم ایک نظر آئی۔ سیاسی جماعتوں نے بھی وفاقی حکومت کے فیصلوں کی تائید اور اس محاذ پر ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی میاں نواز شریف کو فون پر اپنے جذبات سے آگاہ کیا اور کہا کہ پورا ہندوستان اس دکھ کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہے۔

یہ ایک بڑا موقع تھا کہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا جاتا کہ پاکستان کن مشکل حالات کا سامنا کررہا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں دنیا کو اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ ایسا کیا بھی گیا۔ حالیہ حکومتی فیصلے اور اقدامات اس کے گواہ ہیں، لیکن فقط قانون سازی دہشت گردوں کا صفایا نہیں کرسکتی بلکہ درجہ بہ درجہ مختلف اداروں کے ذریعے قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں منصف اور انصاف کا کٹہرا ہی تو آخری امید ہے۔ بدقسمتی سے حساس نوعیت کے بعض حکومتی فیصلے ہمارے عدالتی نظام کی وجہ سے مشکوک اور بے نتیجہ نظر آرہے ہیں۔ آلہ قتل، شواہد اور جانے کیسے کیسے ثبوت اور گواہوں کی عدم دستیابی یا اپنے فیصلے کے لئے انہیں ناکافی قرار دے کر حالیہ فیصلوں کو مشکوک اور غیرمعتبر بنایا جارہا ہے۔


اس کی ایک مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کا ممبئی حملہ کیس کے ملزم ذکی الرحمان لکھوی کی نظر بندی کے خلاف جاری ہونے والا حکم ہے۔ یاد رہے کہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 18 دسمبر کو ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت کی درخواست پر رہائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم اگلے ہی روز انہیں نقص امن کے خدشے کے پیش نظر اڈیالہ جیل میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ ممبئی حملہ کیس کا پہلا ملزم ہے، جس کی ضمانت منظور ہوئی تھی۔ ملزم کے وکیل کے مطابق چھے سال سے مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے اور اس دوران عدالت میں ان کے موکل کو مجرم ثابت کرتا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا، اس لیے انہیں رہا کیا جائے۔ ادھر سرکاری وکیل کا کہنا تھاکہ شہادتیں قلمبند ہو رہی ہیں اور ایسے شواہد عدالت کو دیے گئے ہیں جو ذکی لکھوی کو ممبئی حملوں کا سازشی ثابت کرتے ہیں، لیکن عدالت نے استغاثہ کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا۔ یہ بھی خیال رہے کہ ذکی لکھوی کے علاوہ بھی سات ملزمان پر فرد جْرم عائد کی جا چکی ہے اور تمام اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ یاد رہے کہ 26نومبر 2008 کو ممبئی کے کئی مقامات پر ایک ساتھ حملہ کیا گیا تھا اور اس میں 150 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

سانحہ پشاور کے بعد خارجہ اور سلامتی امور کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اس بدترین اور بزدلانہ عمل نے پورے معاشرے کو نہ صرف جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف نئی حکمت عملی اختیار کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ دہشت گردوں کا وجود مٹا کر رکھ دینے کے راستے میں کچھ قانونی رکاوٹیں بھی ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا درست ثابت ہوا۔

ذکی لکھوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کا دہشت گردی کے خلاف حکومتی اعلان جنگ اور حالیہ اقدامات پر کیا اثر پڑے گا۔ کیا دنیا کو یہ پیغام نہیں گیاکہ یہاں کوئی بھی ملزم قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے آسانی سے چھوٹ سکتا ہے۔ پھر بھارت جو ہم پر الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس عدالتی فیصلے پر عالمی برداری کے سامنے ہمیں نہیں گھسیٹے گا؟ ایسے عدالتی فیصلے ہمیں عالمی برادری کی ہم دردیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے تعاون سے محروم کرسکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عدالتی نظام کو بھی زیر بحث اصلاحات کی جائیں اور کم از کم مخصوص حالات میں فوری اور قومی مفاد میں فیصلوں کے قابل بنایا جائے۔ ابھی اڈیالہ جیل میں چند اور ملزمان موجود ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن کیا وہ بھی کسی قانونی پیچیدگی اور ناکافی شواہد کے سہارے چند سال بعد آزاد گھوم رہے ہوں گے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story