دنیا بھر سے ایک اور طیارہ ’گم‘ ہوگیا

ٹیکنالوجی کے دور میں اگر کوئی یہ کہے کہ ایک طیارہ گم ہوگیا اوراسکی کوئی اطلاع نہیں ملی تو یہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔


عثمان فاروق December 29, 2014
ہمارے ہاں تو اسطرح چھوٹے بچے اپنی ربڑ گم نہیں کرتے جس طرح ملائشیا والے اپنے طیارے گم کرتے ہیں۔ کیا ملائشین طیاروں کا یہ روٹ نیا ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘بنتا جارہا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر کیونکر اِن کو ڈھونڈنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

لیجئے ملائشیا کا ایک اور طیارہ ''گم '' ہوگیا۔ ہمارے ہاں تو اسطرح چھوٹے بچے اپنی ربڑ گم نہیں کرتے جس طرح ملائشیا والے اپنے طیارے گم کرلیتے ہیں ۔میڈیا پر طیارے کے گم ہونے کی خبر ایسے دی گئی جسے وہ کوئی کپڑے سلائی کرنے والی سوئی ہو جو گم ہوگئی ہے اور جس کا گم ہونا ایک معمول کی بات ہے ۔

واقعات کے مطابق ملائشیا کی ائیر لائن ''ائیر ایشاء''کی پرواز QZ8501 نے انڈونیشیا کے شہر سورابیا سے سنگاپور کے لیے اڑان بھری وہاں کے مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے کلیمان تان اور جاوا کے جزیرے کے درمیان کنٹرول ٹاور سے طیارے کا رابطہ منقطع ہوگیا۔پرواز نے صبح آٹھ بجے سنگاپور پہنچنا تھالیکن درمیان میں طیارہ کہاں گیا کسی کو کچھ پتا نہ چلا۔

انڈونیشیا کی وزرات ٹرانسپورٹ کے مطابق طیارہ ایک بادل سے بچنے کے لیے روٹ سے ہٹ کر بلندی پر پرواز کررہا تھا طیارے میں 162 مسافر سوار تھے جن میں16 بچے بھی شامل تھے ۔اگر آپکو یاد ہو اس سے پہلے بھی 8 مارچ2014 میں ملائشیا کا ایک طیارہ فلائیٹ MH370 ''گم '' ہوچکی ہے ۔ جس میں 239 مسافر سوار تھے۔اسوقت اس طیارے کے بارے میں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر بہت شور اٹھا تھا اور وہ لوگ جن کو زندگی میں کبھی کسی نے حقیقی طیارے کے دس فٹ قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا تھا انہوں نے بھی اس طیارے کی گمشدگی پر ایسے'' ٹیکنیکل ''تبصرے اور تجزیے کیے تھے جنہیں پڑھ کر لگتا تھا کہ موصوف شاید کسی دور میں طیارے بھی اڑاتے رہے ہیں۔

حتٰی کہ طیارے کی گمشدگی کے چندہ ماہ بعد طیارے کے نام سے ہی ہالی وڈ کی ایک فلم بھی مارکیٹ میں آگئی تھی۔ ہالی وڈ کی فلم بننے میں دو تین سال کا عرصہ لگتا ہے لیکن جس طرح طیارے کی گمشدگی کے چند ماہ بعد ہی فلم مارکیٹ میں آگئی تھی ایسے لگ رہا تھا کہ فلم پہلے سے تیار تھی بس طیارے کی گمشدگی کا انتظار تھا ۔اسی طیارے کے بارے میں مارک ٖڈوگین نامی ایک سابقہ فرانسیسی ائیرلائن افسر نے انکشاف کیا تھا کہ اسے امریکی نیوی نے گرایا تھا لیکن حقائق پھر بھی سامنے نہ آسکے کہ یہ طیارہ کہاں گیا ؟کیونکہ مارک ڈوگین کے بارے میں یہ خبر بھی ملی تھی کہ موصوف چونکہ ناول نگار بھی واقع ہوئے ہیں اور انکے پاس اپنے دعوے کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے لہذا انکی بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا جبکہ مارک ڈو گین کو لازمی چاہیئے تھا کہ وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر چار گواہوں کا بندوبست لازمی کرتا تاکہ جیسے ہی امریکی نیوی طیارہ گرانے لگتی وہ انکی فوٹو بنا لیتے لیکن بہرحال ایسا نہ ہوسکا اور اس طیارے کی گتھی آج تک نہ سلجھ سکی اور ابھی اس سانحے کے خدوخال ذہن سے محو بھی نہ ہونے پائے تھے کہ دوسرے ملائشین طیارے کی خبر مل گئی ۔

کیا ملائشین طیاروں کا یہ روٹ ایک نیا ''برمودا ٹرائی اینگل'' بنتا جارہا ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل امریکہ کے قریب وہ سمندری علاقہ ہے کسی دور میں جس کے اوپر سے بھی گزرنے والے اکثر طیارے ''ملائشین ''طیاروں کی طرح ''گم '' ہوجاتے تھے جن کے بارے میں بے شمار افسانوی جناتی کہانیاں مشہو ر ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ ناسا کی طرف سے جب یہ خبر آتی ہے کہ مریخ کی فضا میں اتنے فیصد نائٹروجن ہے یا پھر چاند کی آب و ہوا میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے تو میرے جیسے بندے کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ جب دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ آپکو چاند اور مریخ تک کی خبروں کا علم ہوتا ہے تواپنے اس سیارہ زمین پر گم جانے والے طیاروں کا کچھ پتا کیوں نہیں چل رہا ؟ ہر ملک کا اپنا ایک ائیر ڈیفنس سسٹم ہوتا ہے ریڈار ہوتے ہیں جن کے ذریعے ملکی فضا کے چپے چپے کی نگرانی ہوتی ہے آسمان پر کوئی بھی چیز معمول سے ہٹ کر اڑ رہی ہو اسکی خبر ایک سکینڈ سے بھی پہلے مل جاتی ہے لیکن یہاں تو کمال ہی ہوجاتا ہے کہ سینکڑوں فٹ لمبا چوڑا طیارہ اپنے اندر 162مسافر لیے ''گم '' ہوجاتا ہے اور کسی کو کوئی پتا ہی نہیں چلتا۔

دوسری طرف ایک خبر یہ بھی ہے کہ روسی میڈیا کے مطابق طیارے کا ملبہ بیلٹنگ جزیرے سے مل گیا لیکن ملائشین حکام نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک اہم بات ہے کہ اگر واقعی طیارہ گر چکا ہے تو اسکے بارے میں میڈیا پر کیوں نہیں بتایا جارہا ۔حقائق چاہے جو بھی ہوں وہ سامنے آنے چائیے کیونکہ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی یہ کہے کہ ایک طیارہ تھا اس میں 162 مسافر سوار تھے اور وہ گم ہوگیا اور اسکے بارے میں کبھی پتا نہیں چل سکا کہ وہ کہاں گیا تو یہ نہ صرف مضحکہ خیز ہوگا بلکہ افسوس ناک بھی ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں