دہشت گردی سے نجات کا ایک ہی راستہ
ہمارے پیارے دین میں تو کفار کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی خواتین اور بچوں کے تحفظ کی تاکید کی گئی ہے۔
ISLAMABAD:
پشاورکے دل ہلا دینے والے سانحے کی گونج آج تک دنیا بھرکے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے۔ انسانیت حیران و پریشان ہے کہ بربریت کا ایسا بدترین مظاہرہ بھی دیکھنے میں آسکتا ہے۔ اس واقعے پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگ وار ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس وحشیانہ اور درندگی سے بھی بڑھ کر سفاکانہ کارروائی کی کن الفاظ میں مذمت کی جائے۔ جس عظیم الشان اور بے مثال دین کی بنیاد پر ہمارا یہ وطن عزیز معرض وجود میں آیا تھا اس میں تو ایک مسلمان بلکہ ایک انسان کے قتل کو بھی ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے پیارے دین میں تو کفار کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی خواتین اور بچوں کے تحفظ کی تاکید کی گئی ہے۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو معصوم کلیوں اور پھولوں کو کچلنے کی غیر انسانی اور حیوانوں سے بھی زیادہ سنگدلانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اس انسانیت سوز واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پھولوں کو کچلنے اور مسلنے کا یہ ہولناک سانحہ پشاور میں ہوا جو پھولوں کا شہر کہلاتا ہے۔ یوں تو اس انسانیت سوز واقعے کی دنیا کے ہر ملک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے لیکن اس پر ہمارے برادر ملک ترکی کا جو ردعمل دیکھنے میں آیا ہے وہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اس المناک واقعے کی خبر نے ترکی میں تہلکہ مچادیا۔ عوامی اور سرکاری دونوں ہی سطحوں پر اس سانحے کا بھرپور انداز میں نوٹس لیا گیا اور سب نے اجتماعی طور پر پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی اور بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جب کہ ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کے دوران اس عظیم سانحے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور پورے ترکی میں ایک روزہ سرکاری سوگ منانے اور تمام سرکاری اور نجی عمارتوں پر لہرانے والے ترکی کے پرچموں کو سر نگوں رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ پاک ترک ثقافتی انجمن کے چیئرمین اور پارلیمان میں پاک ترک پارلیمانی گروپ کے چیئرمین جناب برہان قایا ترک نے پارلیمانی گروپ کے دیگر ممبران کے ہمراہ پاکستانی سفارت خانے جاکر مہمانوں کے رجسٹر میں اپنے تاثرات بھی ریکارڈ کیے، اگلے روز ترکی کے نائب وزیر اعظم بھی پاکستانی سفارت خانے تشریف لے گئے اور انھوں نے بھی تاثرات کے رجسٹر میں اپنے دلی جذبات کو ان دل کو چھو لینے والے الفاظ میں قلم بند کیا ''میں ترکی کی حکومت کی جانب سے اس الم ناک اور سفاکانہ حملے میں، جس میں بچوں سمیت 141 افراد شہید ہوئے، اس کی شدید مذمت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ان معصوم انسانوں کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔''
چند برس قبل صوبہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری کے دفتر واقع کوئٹہ میں ایک وائلڈ لائف آفیسر کی زبانی سنا تھا۔ مختصراً یہ قصہ یوں تھا کہ ایک جنگلی بکری اپنے دودھ پیتے بچوں کو چھوڑ کر طویل علالت کے بعد انتقال کرگئی اور کوئی ان بے چاروں کا اس جنگل میں پرسان حال نہیں تھا۔ مگر وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ''دنیا میں نہیں جس کا کوئی اس کا خدا ہے'' اس کہاوت کے مصداق ایک جنگلی جانور کی مادہ نے بے ماں کے ان بچوں کو پھاڑ کھانے کے بجائے ان پر ترس کھا کر انھیں ماں بن کر اپنا دودھ پلایا۔
پشاور کے اس دل دوز سانحے پر پوری انسانی برادری مغموم اور رنجیدہ ہے۔ مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں ہزاروں کلومیٹر دور آباد ہر پاکستانی خاندان اور اس کا ہر فرد شدید کیفیت سے دوچار اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ رنج و الم کی طوفانی لہر نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ امریکا کے مختلف شہروں اور علاقوں میں نہ صرف اظہار تعزیت و یکجہتی کیا گیا بلکہ نیویارک کے کئی گرجا گھروں میں بھی پاکستانی نژاد مسیحی برادری نے معصوم جانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے پر پرزور احتجاج اور اظہار ہمدردی بھی کیا۔
سانحہ پشاور اگرچہ بظاہر ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے لیکن واقعتاً اسے اگر خیر مستور (Blessing in Disguise)کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ اس سانحے نے وہ کام کر دکھایا ہے جو بڑی سے بڑی منصوبہ بندی یا تدبیر سے ہونا مشکل تھا۔ اس نے قوم کو آناً فاناً پوری طرح متحد اور پرعزم کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری تمام سیاسی جماعتیں آپس کی رنجشیں اور اختلافات بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئی ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم اس مسئلے پر متحد ہوکر مسلح افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ وہی عمران خان جو چند روز قبل ''گو نواز گو'' کے نعرے بلند کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے برابر والی نشست پر دست تعاون دراز کرتے ہوئے نظر آئے۔
یہ کسی کے ہار ماننے یا سبکی والی بات نہیں بلکہ قومی یکجہتی کی ایک روشن اور واضح علامت ہے۔ عمران خان نے نہ صرف میاں نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملایا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بعض اہم تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے آٹھ نکات پر مبنی ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان سرحد کی سخت نگرانی کی جائے اور آمد و رفت کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ڈی پیز کے معاملے میں مالی معاونت کی جائے اور صوبے میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر کم و بیش 20 لاکھ افغان مہاجرین میں سے کم ازکم 5 لاکھ کو بلاتاخیر واپس بھیجا جائے۔ ان کی اس تجویز میں بھی بڑا وزن ہے کہ غیر قانونی موبائل فون سمیں بند کی جائیں اور خیبر پختونخوا پولیس کو فون کال ٹریس کرنے کی ٹیکنالوجی سمیت جدید آلات فراہم کیے جائیں۔ عمران خان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ ویزے تو روزانہ صرف پانچ سو کی تعداد میں جاری کیے جاتے ہیں مگر سرحد پار سے آنے والوں کی تعداد پندرہ تا بیس ہزار یومیہ ہوتی ہے جن کا ریکارڈ کسی کے پاس نہیں ہوتا اور کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ لوگ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ عزم لائق تحسین ہے کہ ''نتائج کچھ بھی ہوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کروں گا۔'' سول اور فوجی قیادت کا دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی جاری رکھنے پر مکمل اتفاق بھی ایک انتہائی نیک شگون اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ بدھ کو بلائی گئی پارلیمانی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں قومی ایکشن پلان کی منظوری انسداد دہشت گردی کی جانب اٹھایا جانے والا تاریخ ساز اور فیصلہ کن قدم ہے۔
سول اور فوجی اداروں میں مضبوط رابطے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل سیکیورٹی کے قیام سے بھی دہشت گردی کے جلد از جلد اور مکمل خاتمے میں بڑی مدد ملے گی۔ اس قسم کے جملہ اقدامات انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ایک اور خوش آیند پیش رفت یہ ہے کہ افغان آرمی نے افغانستان کے اندر پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ یہ اہم پیش رفت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے کابل کے حالیہ ہنگامی دورے کا مثبت نتیجہ ہے۔
ہمارے سامنے ہمارے دوست ملک سری لنکا کی مثال موجود ہے جہاں سول اور فوجی قیادت نے تامل ٹائیگرز کی عرصہ دراز سے جاری ہلاکت خیز دہشت گردی کو باہمی اشتراک کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کی اس فیصلہ کن جنگ میں سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج کی معاونت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستانی فوج سری لنکا میں دہشت گردی کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے تو بھلا وہ اپنے ہی وطن عزیز کو اس عفریت سے نجات کیوں نہیں دلا سکتی؟ یقینا پاکستانی فوج میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پرجوش اور پرعزم قیادت میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ملک کی سول قیادت اور پوری قوم اپنی عسکری قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی رہے۔ دہشت گردی سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے۔
پشاورکے دل ہلا دینے والے سانحے کی گونج آج تک دنیا بھرکے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے۔ انسانیت حیران و پریشان ہے کہ بربریت کا ایسا بدترین مظاہرہ بھی دیکھنے میں آسکتا ہے۔ اس واقعے پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگ وار ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس وحشیانہ اور درندگی سے بھی بڑھ کر سفاکانہ کارروائی کی کن الفاظ میں مذمت کی جائے۔ جس عظیم الشان اور بے مثال دین کی بنیاد پر ہمارا یہ وطن عزیز معرض وجود میں آیا تھا اس میں تو ایک مسلمان بلکہ ایک انسان کے قتل کو بھی ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے پیارے دین میں تو کفار کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی خواتین اور بچوں کے تحفظ کی تاکید کی گئی ہے۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جو معصوم کلیوں اور پھولوں کو کچلنے کی غیر انسانی اور حیوانوں سے بھی زیادہ سنگدلانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اس انسانیت سوز واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پھولوں کو کچلنے اور مسلنے کا یہ ہولناک سانحہ پشاور میں ہوا جو پھولوں کا شہر کہلاتا ہے۔ یوں تو اس انسانیت سوز واقعے کی دنیا کے ہر ملک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے لیکن اس پر ہمارے برادر ملک ترکی کا جو ردعمل دیکھنے میں آیا ہے وہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اس المناک واقعے کی خبر نے ترکی میں تہلکہ مچادیا۔ عوامی اور سرکاری دونوں ہی سطحوں پر اس سانحے کا بھرپور انداز میں نوٹس لیا گیا اور سب نے اجتماعی طور پر پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی اور بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جب کہ ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کے دوران اس عظیم سانحے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور پورے ترکی میں ایک روزہ سرکاری سوگ منانے اور تمام سرکاری اور نجی عمارتوں پر لہرانے والے ترکی کے پرچموں کو سر نگوں رکھنے کا اعلان بھی کیا۔ پاک ترک ثقافتی انجمن کے چیئرمین اور پارلیمان میں پاک ترک پارلیمانی گروپ کے چیئرمین جناب برہان قایا ترک نے پارلیمانی گروپ کے دیگر ممبران کے ہمراہ پاکستانی سفارت خانے جاکر مہمانوں کے رجسٹر میں اپنے تاثرات بھی ریکارڈ کیے، اگلے روز ترکی کے نائب وزیر اعظم بھی پاکستانی سفارت خانے تشریف لے گئے اور انھوں نے بھی تاثرات کے رجسٹر میں اپنے دلی جذبات کو ان دل کو چھو لینے والے الفاظ میں قلم بند کیا ''میں ترکی کی حکومت کی جانب سے اس الم ناک اور سفاکانہ حملے میں، جس میں بچوں سمیت 141 افراد شہید ہوئے، اس کی شدید مذمت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ان معصوم انسانوں کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔''
چند برس قبل صوبہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری کے دفتر واقع کوئٹہ میں ایک وائلڈ لائف آفیسر کی زبانی سنا تھا۔ مختصراً یہ قصہ یوں تھا کہ ایک جنگلی بکری اپنے دودھ پیتے بچوں کو چھوڑ کر طویل علالت کے بعد انتقال کرگئی اور کوئی ان بے چاروں کا اس جنگل میں پرسان حال نہیں تھا۔ مگر وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ''دنیا میں نہیں جس کا کوئی اس کا خدا ہے'' اس کہاوت کے مصداق ایک جنگلی جانور کی مادہ نے بے ماں کے ان بچوں کو پھاڑ کھانے کے بجائے ان پر ترس کھا کر انھیں ماں بن کر اپنا دودھ پلایا۔
پشاور کے اس دل دوز سانحے پر پوری انسانی برادری مغموم اور رنجیدہ ہے۔ مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں ہزاروں کلومیٹر دور آباد ہر پاکستانی خاندان اور اس کا ہر فرد شدید کیفیت سے دوچار اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ رنج و الم کی طوفانی لہر نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ امریکا کے مختلف شہروں اور علاقوں میں نہ صرف اظہار تعزیت و یکجہتی کیا گیا بلکہ نیویارک کے کئی گرجا گھروں میں بھی پاکستانی نژاد مسیحی برادری نے معصوم جانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے پر پرزور احتجاج اور اظہار ہمدردی بھی کیا۔
سانحہ پشاور اگرچہ بظاہر ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے لیکن واقعتاً اسے اگر خیر مستور (Blessing in Disguise)کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ اس سانحے نے وہ کام کر دکھایا ہے جو بڑی سے بڑی منصوبہ بندی یا تدبیر سے ہونا مشکل تھا۔ اس نے قوم کو آناً فاناً پوری طرح متحد اور پرعزم کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری تمام سیاسی جماعتیں آپس کی رنجشیں اور اختلافات بھلاکر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئی ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم اس مسئلے پر متحد ہوکر مسلح افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ وہی عمران خان جو چند روز قبل ''گو نواز گو'' کے نعرے بلند کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے برابر والی نشست پر دست تعاون دراز کرتے ہوئے نظر آئے۔
یہ کسی کے ہار ماننے یا سبکی والی بات نہیں بلکہ قومی یکجہتی کی ایک روشن اور واضح علامت ہے۔ عمران خان نے نہ صرف میاں نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملایا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بعض اہم تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے آٹھ نکات پر مبنی ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان سرحد کی سخت نگرانی کی جائے اور آمد و رفت کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ڈی پیز کے معاملے میں مالی معاونت کی جائے اور صوبے میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر کم و بیش 20 لاکھ افغان مہاجرین میں سے کم ازکم 5 لاکھ کو بلاتاخیر واپس بھیجا جائے۔ ان کی اس تجویز میں بھی بڑا وزن ہے کہ غیر قانونی موبائل فون سمیں بند کی جائیں اور خیبر پختونخوا پولیس کو فون کال ٹریس کرنے کی ٹیکنالوجی سمیت جدید آلات فراہم کیے جائیں۔ عمران خان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ ویزے تو روزانہ صرف پانچ سو کی تعداد میں جاری کیے جاتے ہیں مگر سرحد پار سے آنے والوں کی تعداد پندرہ تا بیس ہزار یومیہ ہوتی ہے جن کا ریکارڈ کسی کے پاس نہیں ہوتا اور کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ لوگ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ عزم لائق تحسین ہے کہ ''نتائج کچھ بھی ہوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کروں گا۔'' سول اور فوجی قیادت کا دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی جاری رکھنے پر مکمل اتفاق بھی ایک انتہائی نیک شگون اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ بدھ کو بلائی گئی پارلیمانی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں قومی ایکشن پلان کی منظوری انسداد دہشت گردی کی جانب اٹھایا جانے والا تاریخ ساز اور فیصلہ کن قدم ہے۔
سول اور فوجی اداروں میں مضبوط رابطے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل سیکیورٹی کے قیام سے بھی دہشت گردی کے جلد از جلد اور مکمل خاتمے میں بڑی مدد ملے گی۔ اس قسم کے جملہ اقدامات انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بہت معاون ثابت ہوں گے۔ ایک اور خوش آیند پیش رفت یہ ہے کہ افغان آرمی نے افغانستان کے اندر پاکستانی دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ یہ اہم پیش رفت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے کابل کے حالیہ ہنگامی دورے کا مثبت نتیجہ ہے۔
ہمارے سامنے ہمارے دوست ملک سری لنکا کی مثال موجود ہے جہاں سول اور فوجی قیادت نے تامل ٹائیگرز کی عرصہ دراز سے جاری ہلاکت خیز دہشت گردی کو باہمی اشتراک کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کی اس فیصلہ کن جنگ میں سری لنکا کی فوج کو پاکستانی فوج کی معاونت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستانی فوج سری لنکا میں دہشت گردی کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے تو بھلا وہ اپنے ہی وطن عزیز کو اس عفریت سے نجات کیوں نہیں دلا سکتی؟ یقینا پاکستانی فوج میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پرجوش اور پرعزم قیادت میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ملک کی سول قیادت اور پوری قوم اپنی عسکری قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی رہے۔ دہشت گردی سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے۔