قومی مسائل
پاکستان کی 45 فیصد آبادی صحت، تعلیم اور معیار زندگی کے حوالے سے (ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی) غریب ہے۔
لاہور:
اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کرنیوالا ہمارا وطن عزیز پاکستان حالیہ گزشتہ عید قرباں میں سب سے زیادہ جانور ذبح کرنیوالے اسلامی ممالک میں سرفہرست رہا۔ 90 لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ جانور ذبح کیے گئے جن میں بکرے، دنبے،گائے اور اونٹ شامل تھے جن کی مالیت کئی کھرب روپے بنتی ہے۔ اسی طرح اربوں ڈالرز کی کھالیں برآمد کرنیوالے ممالک میں بھی صف اول میں ہے اس سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیں کہ پاکستان میں زیادہ تر امیر لوگ بستے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت اپنی انتہا پر ہے۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دو دہائی قبل بھارت میں بھوک و افلاس کا شکار افراد کی تعداد 21 کروڑ سے زائد تھی جو اب کم ہوکر 19 کروڑ پر آگئی ہے جب کہ اسی عرصے کے دوران پاکستان میں فاقہ کشی کا شکار ہونیوالے افراد کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ 2014 کے مطابق پاکستان کی 5.5 فیصد افرادی قوت بیروزگار ہے جب کہ 15 سال سے زائد عمر کے برسر روزگار افراد میں سے 57 فیصد کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے یعنی بمشکل 200 روپے ہے اس حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان کی 45 فیصد آبادی صحت، تعلیم اور معیار زندگی کے حوالے سے (ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی) غریب ہے جن کی تعداد 8 کروڑ 30 لاکھ ہے اور پاکستان کی 15 فیصد مزید آبادی غربت میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ان 10 قوموں میں شامل ہے جن کا عالمی غربت میں سب سے زیادہ حصہ ہے اور حکومت غریبوں سے لاتعلق ہے یعنی حکومت غربت کے معاملے کو نظرانداز کر رہی ہے۔ توانائی میں دی گئی سبسڈی سے خوشحال لوگوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ آبادی کا 12.4 فیصد یعنی دو کروڑ18 لاکھ افراد غریب ہیں۔ ترقیاتی امور سے متعلق برطانیہ کے ایک بڑے تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ بعنوان ''ایشیائی ممالک میں اجرتیں'' میں انکشاف کیا ہے کہ ایشیا کے تقریباً تمام ممالک میں دیہی علاقوں میں اجرتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دکانوں سمیت چھوٹے کاروبار سے وابستہ لاکھوں ورکرز حکومت کی جانب سے مقررہ کم ازکم تنخواہ سمیت محکمہ لیبر کی جانب سے مقرر کردہ سہولتوں سے محروم اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صنعتی ورکرز کے بعد سب سے زیادہ تعداد دکانوں و گھروں میں کام کرنیوالے افراد کی ہے جو روزانہ 10 سے 12 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن انھیں ماہانہ تنخواہ 6 سے 8 ہزار روپے ملتی ہے جس سے اس مہنگائی کے دور میں ان ورکرز کے لیے گزارا کرنا مشکل ہے جب کہ ورکرز کو شاپ اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1968 کے تحت سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی کی سہولتیں رجسٹریشن کے بعد حاصل نہیں لیکن دکانوں و دیگر چھوٹے کاروبار سے وابستہ مالکان نے اپنے ورکرز کو سوشل سیکیورٹی اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ میں رجسٹرڈ نہیں کرایا ہوا ہے نہ ہی انھیں حکومت کی جانب سے مقررہ کم ازکم ماہانہ تنخواہ 12 ہزار روپے ادا کر رہے ہیں۔
اف میرے خدایا! یہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر پوری نہیں تو کم ازکم آدھے پاکستانی شہری احساس محرومی، عدم تحفظ، غربت و افلاس، جنسی امتیاز، تہہ در تہہ ناانصافی، مایوسی، خوف اور گھبراہٹ، ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جب کہ کراچی میں 20 لاکھ سے زائد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر 2014 میں ملک بھر میں 163 افراد نے خود موت کو گلے لگا لیا، وجہ؟ معاشی بدحالی، بیروزگاری اور مہنگائی، خودکشی کرنیوالوں میں 113 مرد اور 50 خواتین شامل ہیں۔ موت کو گلے لگانے والوں میں پنجاب کے 92، سندھ کے 34، خیبرپختونخوا کے 30 اور بلوچستان کے 7 افراد شامل ہیں۔
خودکشی کرنیوالوں میں 15 سال سے لے کر 60 سال تک کے افراد شامل ہیں جب کہ خودکشی کی کوشش کرنیوالے 92 افراد کو بچالیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر معاشرے کے اکثر لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں، دماغی صحت کے مسائل سے جڑے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جس کی وجہ سے وہ خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے دین اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ مصیبت کے دن ہمیشہ نہیں رہتے۔ ہمت و صبر سے کام لے کر غموں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک کے نوجوان جنھیں قیمتی سرمایہ بھی کہا جاتا ہے جو ملک کی آبادی کا 60 فیصد ہے لاکھوں کی تعداد میں در بہ در روزگار کی تلاش میں سرگرداں یہی نوجوان مایوسی کے شکار ہیں۔ سرکاری نوکری تو ان کے لیے دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سرکاری ملازمتیں فروخت کرنے یا پھر من پسند لوگوں میں بانٹنے کی باتیں عام ہیں جس کی وجہ سے حق دار محروم رہ جاتا ہے اس لیے ملازمتوں میں بھرتی کا عمل صاف و شفاف ہوگا محض باتیں ہوتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اثر و رسوخ استعمال کرنے والے ملازمت کے اہل اور سفارش سے محروم بیروزگار نااہل قرار پاتے رہے ہیں۔ یہی دستور ہمارے یہاں مدتوں سے چلا آرہا ہے۔ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تو ہوچکا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی سرکاری کنٹرول نہیں ہے، قیمتوں میں منافع خور، تاجر روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ کر رہے ہیں جب کہ غریب عوام کے ذرایع آمدنی انتہائی محدود ہیں۔ ایسے میں ہر پاکستانی شہری ایک لاکھ ایک ہزار 338 روپے کا مقروض ہے جس کی ادائیگی کے لیے انھیں مزید مہنگائی کی خودکار چکی سے گزرنا ہوگا۔ کیا یہی ہے جمہوریت کا ثمر؟ عوام کے اس سوال پر ٹی وی اینکرز بحث کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ مسائل قومی نہیں ہیں؟
اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کرنیوالا ہمارا وطن عزیز پاکستان حالیہ گزشتہ عید قرباں میں سب سے زیادہ جانور ذبح کرنیوالے اسلامی ممالک میں سرفہرست رہا۔ 90 لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ جانور ذبح کیے گئے جن میں بکرے، دنبے،گائے اور اونٹ شامل تھے جن کی مالیت کئی کھرب روپے بنتی ہے۔ اسی طرح اربوں ڈالرز کی کھالیں برآمد کرنیوالے ممالک میں بھی صف اول میں ہے اس سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیں کہ پاکستان میں زیادہ تر امیر لوگ بستے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت اپنی انتہا پر ہے۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دو دہائی قبل بھارت میں بھوک و افلاس کا شکار افراد کی تعداد 21 کروڑ سے زائد تھی جو اب کم ہوکر 19 کروڑ پر آگئی ہے جب کہ اسی عرصے کے دوران پاکستان میں فاقہ کشی کا شکار ہونیوالے افراد کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ 2014 کے مطابق پاکستان کی 5.5 فیصد افرادی قوت بیروزگار ہے جب کہ 15 سال سے زائد عمر کے برسر روزگار افراد میں سے 57 فیصد کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے یعنی بمشکل 200 روپے ہے اس حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان کی 45 فیصد آبادی صحت، تعلیم اور معیار زندگی کے حوالے سے (ملٹی ڈائی مینشنل پاورٹی) غریب ہے جن کی تعداد 8 کروڑ 30 لاکھ ہے اور پاکستان کی 15 فیصد مزید آبادی غربت میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ان 10 قوموں میں شامل ہے جن کا عالمی غربت میں سب سے زیادہ حصہ ہے اور حکومت غریبوں سے لاتعلق ہے یعنی حکومت غربت کے معاملے کو نظرانداز کر رہی ہے۔ توانائی میں دی گئی سبسڈی سے خوشحال لوگوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ آبادی کا 12.4 فیصد یعنی دو کروڑ18 لاکھ افراد غریب ہیں۔ ترقیاتی امور سے متعلق برطانیہ کے ایک بڑے تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ بعنوان ''ایشیائی ممالک میں اجرتیں'' میں انکشاف کیا ہے کہ ایشیا کے تقریباً تمام ممالک میں دیہی علاقوں میں اجرتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دکانوں سمیت چھوٹے کاروبار سے وابستہ لاکھوں ورکرز حکومت کی جانب سے مقررہ کم ازکم تنخواہ سمیت محکمہ لیبر کی جانب سے مقرر کردہ سہولتوں سے محروم اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صنعتی ورکرز کے بعد سب سے زیادہ تعداد دکانوں و گھروں میں کام کرنیوالے افراد کی ہے جو روزانہ 10 سے 12 گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن انھیں ماہانہ تنخواہ 6 سے 8 ہزار روپے ملتی ہے جس سے اس مہنگائی کے دور میں ان ورکرز کے لیے گزارا کرنا مشکل ہے جب کہ ورکرز کو شاپ اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس 1968 کے تحت سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی کی سہولتیں رجسٹریشن کے بعد حاصل نہیں لیکن دکانوں و دیگر چھوٹے کاروبار سے وابستہ مالکان نے اپنے ورکرز کو سوشل سیکیورٹی اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ میں رجسٹرڈ نہیں کرایا ہوا ہے نہ ہی انھیں حکومت کی جانب سے مقررہ کم ازکم ماہانہ تنخواہ 12 ہزار روپے ادا کر رہے ہیں۔
اف میرے خدایا! یہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر پوری نہیں تو کم ازکم آدھے پاکستانی شہری احساس محرومی، عدم تحفظ، غربت و افلاس، جنسی امتیاز، تہہ در تہہ ناانصافی، مایوسی، خوف اور گھبراہٹ، ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جب کہ کراچی میں 20 لاکھ سے زائد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر 2014 میں ملک بھر میں 163 افراد نے خود موت کو گلے لگا لیا، وجہ؟ معاشی بدحالی، بیروزگاری اور مہنگائی، خودکشی کرنیوالوں میں 113 مرد اور 50 خواتین شامل ہیں۔ موت کو گلے لگانے والوں میں پنجاب کے 92، سندھ کے 34، خیبرپختونخوا کے 30 اور بلوچستان کے 7 افراد شامل ہیں۔
خودکشی کرنیوالوں میں 15 سال سے لے کر 60 سال تک کے افراد شامل ہیں جب کہ خودکشی کی کوشش کرنیوالے 92 افراد کو بچالیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر معاشرے کے اکثر لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں، دماغی صحت کے مسائل سے جڑے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جس کی وجہ سے وہ خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے دین اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ مصیبت کے دن ہمیشہ نہیں رہتے۔ ہمت و صبر سے کام لے کر غموں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک کے نوجوان جنھیں قیمتی سرمایہ بھی کہا جاتا ہے جو ملک کی آبادی کا 60 فیصد ہے لاکھوں کی تعداد میں در بہ در روزگار کی تلاش میں سرگرداں یہی نوجوان مایوسی کے شکار ہیں۔ سرکاری نوکری تو ان کے لیے دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ سرکاری ملازمتیں فروخت کرنے یا پھر من پسند لوگوں میں بانٹنے کی باتیں عام ہیں جس کی وجہ سے حق دار محروم رہ جاتا ہے اس لیے ملازمتوں میں بھرتی کا عمل صاف و شفاف ہوگا محض باتیں ہوتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اثر و رسوخ استعمال کرنے والے ملازمت کے اہل اور سفارش سے محروم بیروزگار نااہل قرار پاتے رہے ہیں۔ یہی دستور ہمارے یہاں مدتوں سے چلا آرہا ہے۔ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تو ہوچکا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی سرکاری کنٹرول نہیں ہے، قیمتوں میں منافع خور، تاجر روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ کر رہے ہیں جب کہ غریب عوام کے ذرایع آمدنی انتہائی محدود ہیں۔ ایسے میں ہر پاکستانی شہری ایک لاکھ ایک ہزار 338 روپے کا مقروض ہے جس کی ادائیگی کے لیے انھیں مزید مہنگائی کی خودکار چکی سے گزرنا ہوگا۔ کیا یہی ہے جمہوریت کا ثمر؟ عوام کے اس سوال پر ٹی وی اینکرز بحث کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ مسائل قومی نہیں ہیں؟