پاکستان ایک نظر میں 2014 میں پاکستان کے لیے یادگار نام
2014 پاکستانی ٹیلنٹ کےحوالے سے بے مثال رہا اور بہت سے نئے چہرے دنیاکے سامنےآئے اوردنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کیا۔
LONDON:
ایک اور سال گزرگیا ۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ۔صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور نجانے کتنی صدیوں تک مزید ہوتا رہے گا ۔ سال 2014 بہت سی تلخ وشیریں کھٹی میٹھی یادیں لیے ہم سے رخصت ہورہا ہے ۔ اس سال کے کئی لمحوں میں آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکے اورکچھ لمحوں نے چہروں پر مسکراہٹیں بھی بکھیریں ۔ کئی لوگوں کے گھر کے افراد کم ہوئے تو کئی خاندانوں کے گھر میں ایک نئے فرد کی آمد نے مرجھائے جسموں میں جان ڈال دی ۔ سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر رہی ۔ عمرا ن خان کے جارحانہ انداز ڈاکٹر طاہرالقادری کی انقلابی دھمکیاں اور سراج الحق صاحب کی مصالحت کی کوششیں بھی سال 2014 کی شاموں کا تذکرہ رہیں۔
سال 2014 پاکستانی ٹیلنٹ کے حوالے سے بھی بے مثال رہا اور بہت سے ایسے نئے پاکستانی چہرے دنیاکے سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا جن میں سے کچھ کا تذکرہ میں لازمی کرنا چاہوں گا۔
جی ہاں انہیں کون نہیں جانتا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں سوات سے تعلق رکھنے والی یہ کم عمر بچی اپنے اندر ایک چٹان حوصلہ رکھتی ہے جس نے نہ صرف نہایت کم عمری میں دہشتگردوں کے خلاف اپنے قلم سے آواز بلند کی بلکہ اسی پاداش میں جان لیوا حملے کا بھی شکار ہوئیں لیکن یہ چھوٹی بچی آج بھی اسی عزم کے ساتھ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں جس پر انکو ''امن کا نوبل انعام'' بھی دیا گیا اور یوں نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنیں بلکہ بین الااقوامی میڈیا میں بھی زیر بحث رہیں پورے پاکستان کو اپنی اس بچی پر فخر ہے ۔
یہ سات جنوری 2014 کا دن تھا جب ہنگو کے ایک سکول میں تقریبا دوہزار سے زائد بچے موجود تھے ۔ ایک خودکش حملہ آور خودکش جیکٹ پہنے سکول کو اڑانے کی نیت سے آگے بڑھتا ہے لیکن اسکول کے دروازے پر کھڑا پندرہ سالہ ''اعتزازاحسن '' اسکے آگے ایسی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے جو یہ خودکش حملہ آور کبھی پھلانگ نہیں سکتا تھا جس کے نتیجے میں خودکش حملہ آور خود کو دروازے پر ہی اڑانے پرمجبور ہوجاتا ہے ۔ اعتزاحسن خود تو شہید ہوجاتا ہے لیکن پوری دنیا میں پاکستانیوں کا سرفخر سے بلند کرتے ہوئے یہ پیغام دے جاتا ہے کہ اب پاکستان کا ایک پندرہ سالہ بچہ بھی دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کے سامنے آہنی دیوار بن چکا ہے ۔
جب پوری پاکستانی قوم سیاسی بے چینی اور ملکی حالات سے پریشان تھی ایسے وقت میں پولیو سے معذور ایک پاکستانی، کیلیفورنیا میں ہونے والے باڈی بلڈنگ مقابلے میں بنا کسی حکومتی مدد کے اپنا کلب اور موٹر سائیکل بیچ کر شرکت کرتا ہے ۔ یہ نوجوان نوید بٹ تھا جو 35ممالک کی ٹیموں کو پچھارتے ہوئے پاکستان کے لیے تین گولڈ میڈل حاصل کرتا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتا ہے ۔ پاکستان کے اس بیٹے پر قوم جتنا فخر کرے وہ کم ہے۔
جی ہاں چہرے پہ چلبلی سی مسکراہٹ رکھنے والا یہ وہ پاکستانی نوجوان ہے جسے دنیا کا دوسرا مزاحیہ ترین انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔سعد ہارون نے اسی سال امریکہ لاس ویگاس میں ہونے والے لاف فیکڑی چیلنج میں دوسری پوزیشن حاصل کی اس مقابلے میں دنیا بھر سے اسٹینڈ اپ کامیڈی کرنے والےافراد نے حصہ لیا تھا ۔ سعد ہارون کی کامیابی بلاشبہ پاکستانیوں کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے ۔
لاوارث بچوں کی اس فٹ بال ٹیم نے عالمی سطح پر پاکستان کا خوب نام روشن کیا ۔پاکستان جدھر فٹ بال کے کھیل کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی وہاں سے بچوں کی ایک معمولی ٹیم کا اٹھنا اور برازیل میں بھارت اور کینیا جیسے ممالک کو شکست دینا پاکستانی قوم کے لیے 2014 کا ایک انمول تحفہ ثابت ہوا جسے بلاشبہ برسوں بھلایا نہ جاسکے گا۔پوری پاکستانی قوم کو اپنے ان بچوں پہ فخر ہے ۔
اسی سال ایک حیران کن خوشی کی خبر یہ بھی سننے کو ملی کہ فٹ بال کی عالمی جنگ میں پاکستانی ہتھیار استعمال ہوں گے ۔پاکستانی کھیلوں کا سامان بنانے والی کمپنی ''فارورڈ اسپورٹ''نے میگا ایونٹ کے لیے تقریبا تین ہزار میڈ اِن پاکستان فٹ بال سپلائی کیے جو کہ پاکستان کے لیے ایک فخر و اعزار کی بات تھی ۔
آپ نے وار فلم تو دیکھی ہوگی ۔ جی ہاں ایسی حیران کن پاکستانی فلم جس کے سامنے ہالی وڈ بھی ماند پڑ گیا اور برسوں سے ڈوبتی ہوئی فلم انڈسٹری کو سہارا ملا ۔یہ فلم بنانے والا ایک نوجوان تھاجس کا نام ''بلال لاشاری '' تھا جس نے وار جیسی بلاک بسٹر فلم بنا کر ثابت کردیا کہ پاکستان میں بھی اچھی فلمیں بن سکتیں ہیں اس پاکستانی فلم کی بازگشت پوری دنیا کی فلمی دنیا میں سنائی دی گئی اور ہر طرف سے اس فلم کے حوالے سے پاکستانی کام کو سراہا گیا ۔
شاید یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کے بارے میں منفی خیالات پروان چڑرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں اساتذہ کا اب وہ معیار نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا یا پھر اب ایک اُستاد اپنے طالبعلم کا اُس طرح خیال نہیں رکھتا کہ اُسے روحانی باپ تصور کیا جائے ۔ مگر نصراللہ شجیع نے شجاعت کا وہ عملی مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران اور پریشان رہ گئی کہ کیا ایک استاد طالبعلم کی جانب کو بچانے کےلیے ایسا بھی کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ شجیع بالاکوٹ میں دریا میں ڈوبنے والے بچے کو بچاتے ہوئے خود بھی ڈوب گئے۔ اگر وہ چاہتے تو حفاظی ذمہ دار پر معمور افراد کو آگاہ کرکے دعا کرسکتے تھے مگر ایسا ہر گز نہیں کیا کہ روحانی باپ ایسا کرنہیں سکتا۔ یقیناً یہ واقعہ اساتذہ کی عزت و منزلت کے بڑھاوے کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔
دہشتگردوں کی جانب سے پشاور اسکول پر حملے کے دوران معصوم بچوں کی شہادتوں کا سانحہ ایسا تھا جس نے پوری قوم کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ایسے میں طاہرہ قاضی پرنسپل پشاور اسکول نے جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے بچوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی اس نے نہ صرف پوری قوم کی آنکھوں کو نم کردیا بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بھی بلند کردیا ۔وہ اپنی جان بچا سکتیں تھیں لیکن انہوں نے کہا جب میرے بچے مصیبت میں ہیں تو میں کیسے بھاگ سکتی ہوں ۔طاہرہ قاضی پوری قوم کو آپ پہ فخر ہے ۔
جس نے صرف پانچ سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزار حاصل کیا ۔ایان نے برمنگھم یونیورسٹی سے یہ امتحان پاس کیا اور یوں پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنا۔اس سے پہلے پاکستانی بچی ارفع کریم مرحوم صرف نو سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرچکی ہیں۔
سرگودھا کے متوسط گھرانے اور گورنمنٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی آٹھ سالہ ماہ نور نے آسٹریلیا یونیورسٹی نیوساوتھ ویلز کے زیراہتمام ہونے والے ریاضی کے عالمی مقابلے میں ہندوستان سمیت 17 ممالک کو شکست دے کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
یہ نام یقیناً ہمارے لیے بہت جانا پہچانا ہرگز نہیں مگر جو اِس نے کام کیا ہے وہ یقیناً ہمارے کے لیے قابل فخر ہے۔ ہمیں افسوس رہتا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری تباہ ہورہی ہے لیکن اِس کی تباہی غلط فیصلوں کی وجہ ہے کیونکہ یہاں اِس قدر قابل لوگ ہیں اگر اُن کو موقع دیا جائے تو انڈسٹری زمین سے آسمان کو چھو سکتی ہے۔ ہالی ووڈ کی مشہور و معروف کارٹون فلم فروزن میں ویژول ایفیکٹ ٹیکنالوجی کے ماہر میر ظفر علی تیسری بار آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی پاکستانی بن گئے ہیں ۔ اگر ایسے ہونہار لوگوں کو یہاں موقع دیا جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
یہ تھے وہ چند پاکستانی جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا لوہا منوایا ۔ یہ بات بلاشبہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس ضرورت اس ٹیلنٹ کوکوئی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ہے ۔جس طرح پچھلے سال بہت سے پاکستانیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا، بس اُمید یہی ہے کہ آنے والے 2015 میں بھی یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ان کی تعداد میں دوگنا چوگنا اضافہ بھی ہوگا ۔ آخر میں تمام پڑھنے والو سے اپیل ہے کہ سال آتے ہیں گزرتے چلے جاتے ہیں ۔عمربیت جاتی ہے اور موت قریب آجاتی ہے ۔ قبر کی خاک میں خاک بننے سے پہلے دنیا میں ایسا کوئی کام ضرور کر جائیں جس پر آپکا ملک وقوم فخر کرسکے اور آپکو یاد رکھے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک اور سال گزرگیا ۔یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ۔صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور نجانے کتنی صدیوں تک مزید ہوتا رہے گا ۔ سال 2014 بہت سی تلخ وشیریں کھٹی میٹھی یادیں لیے ہم سے رخصت ہورہا ہے ۔ اس سال کے کئی لمحوں میں آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکے اورکچھ لمحوں نے چہروں پر مسکراہٹیں بھی بکھیریں ۔ کئی لوگوں کے گھر کے افراد کم ہوئے تو کئی خاندانوں کے گھر میں ایک نئے فرد کی آمد نے مرجھائے جسموں میں جان ڈال دی ۔ سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر رہی ۔ عمرا ن خان کے جارحانہ انداز ڈاکٹر طاہرالقادری کی انقلابی دھمکیاں اور سراج الحق صاحب کی مصالحت کی کوششیں بھی سال 2014 کی شاموں کا تذکرہ رہیں۔
سال 2014 پاکستانی ٹیلنٹ کے حوالے سے بھی بے مثال رہا اور بہت سے ایسے نئے پاکستانی چہرے دنیاکے سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا جن میں سے کچھ کا تذکرہ میں لازمی کرنا چاہوں گا۔
ملالہ یوسفزئی
جی ہاں انہیں کون نہیں جانتا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں سوات سے تعلق رکھنے والی یہ کم عمر بچی اپنے اندر ایک چٹان حوصلہ رکھتی ہے جس نے نہ صرف نہایت کم عمری میں دہشتگردوں کے خلاف اپنے قلم سے آواز بلند کی بلکہ اسی پاداش میں جان لیوا حملے کا بھی شکار ہوئیں لیکن یہ چھوٹی بچی آج بھی اسی عزم کے ساتھ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں جس پر انکو ''امن کا نوبل انعام'' بھی دیا گیا اور یوں نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنیں بلکہ بین الااقوامی میڈیا میں بھی زیر بحث رہیں پورے پاکستان کو اپنی اس بچی پر فخر ہے ۔
اعتزاز احسن
یہ سات جنوری 2014 کا دن تھا جب ہنگو کے ایک سکول میں تقریبا دوہزار سے زائد بچے موجود تھے ۔ ایک خودکش حملہ آور خودکش جیکٹ پہنے سکول کو اڑانے کی نیت سے آگے بڑھتا ہے لیکن اسکول کے دروازے پر کھڑا پندرہ سالہ ''اعتزازاحسن '' اسکے آگے ایسی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے جو یہ خودکش حملہ آور کبھی پھلانگ نہیں سکتا تھا جس کے نتیجے میں خودکش حملہ آور خود کو دروازے پر ہی اڑانے پرمجبور ہوجاتا ہے ۔ اعتزاحسن خود تو شہید ہوجاتا ہے لیکن پوری دنیا میں پاکستانیوں کا سرفخر سے بلند کرتے ہوئے یہ پیغام دے جاتا ہے کہ اب پاکستان کا ایک پندرہ سالہ بچہ بھی دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کے سامنے آہنی دیوار بن چکا ہے ۔
نوید بٹ
جب پوری پاکستانی قوم سیاسی بے چینی اور ملکی حالات سے پریشان تھی ایسے وقت میں پولیو سے معذور ایک پاکستانی، کیلیفورنیا میں ہونے والے باڈی بلڈنگ مقابلے میں بنا کسی حکومتی مدد کے اپنا کلب اور موٹر سائیکل بیچ کر شرکت کرتا ہے ۔ یہ نوجوان نوید بٹ تھا جو 35ممالک کی ٹیموں کو پچھارتے ہوئے پاکستان کے لیے تین گولڈ میڈل حاصل کرتا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتا ہے ۔ پاکستان کے اس بیٹے پر قوم جتنا فخر کرے وہ کم ہے۔
سعد ہارون
جی ہاں چہرے پہ چلبلی سی مسکراہٹ رکھنے والا یہ وہ پاکستانی نوجوان ہے جسے دنیا کا دوسرا مزاحیہ ترین انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔سعد ہارون نے اسی سال امریکہ لاس ویگاس میں ہونے والے لاف فیکڑی چیلنج میں دوسری پوزیشن حاصل کی اس مقابلے میں دنیا بھر سے اسٹینڈ اپ کامیڈی کرنے والےافراد نے حصہ لیا تھا ۔ سعد ہارون کی کامیابی بلاشبہ پاکستانیوں کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے ۔
پاکستانی اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ٹیم
لاوارث بچوں کی اس فٹ بال ٹیم نے عالمی سطح پر پاکستان کا خوب نام روشن کیا ۔پاکستان جدھر فٹ بال کے کھیل کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی وہاں سے بچوں کی ایک معمولی ٹیم کا اٹھنا اور برازیل میں بھارت اور کینیا جیسے ممالک کو شکست دینا پاکستانی قوم کے لیے 2014 کا ایک انمول تحفہ ثابت ہوا جسے بلاشبہ برسوں بھلایا نہ جاسکے گا۔پوری پاکستانی قوم کو اپنے ان بچوں پہ فخر ہے ۔
فارورڈ اسپورٹ
اسی سال ایک حیران کن خوشی کی خبر یہ بھی سننے کو ملی کہ فٹ بال کی عالمی جنگ میں پاکستانی ہتھیار استعمال ہوں گے ۔پاکستانی کھیلوں کا سامان بنانے والی کمپنی ''فارورڈ اسپورٹ''نے میگا ایونٹ کے لیے تقریبا تین ہزار میڈ اِن پاکستان فٹ بال سپلائی کیے جو کہ پاکستان کے لیے ایک فخر و اعزار کی بات تھی ۔
بلال لاشاری
آپ نے وار فلم تو دیکھی ہوگی ۔ جی ہاں ایسی حیران کن پاکستانی فلم جس کے سامنے ہالی وڈ بھی ماند پڑ گیا اور برسوں سے ڈوبتی ہوئی فلم انڈسٹری کو سہارا ملا ۔یہ فلم بنانے والا ایک نوجوان تھاجس کا نام ''بلال لاشاری '' تھا جس نے وار جیسی بلاک بسٹر فلم بنا کر ثابت کردیا کہ پاکستان میں بھی اچھی فلمیں بن سکتیں ہیں اس پاکستانی فلم کی بازگشت پوری دنیا کی فلمی دنیا میں سنائی دی گئی اور ہر طرف سے اس فلم کے حوالے سے پاکستانی کام کو سراہا گیا ۔
نصراللہ شجیع
شاید یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کے بارے میں منفی خیالات پروان چڑرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں اساتذہ کا اب وہ معیار نہیں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا یا پھر اب ایک اُستاد اپنے طالبعلم کا اُس طرح خیال نہیں رکھتا کہ اُسے روحانی باپ تصور کیا جائے ۔ مگر نصراللہ شجیع نے شجاعت کا وہ عملی مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران اور پریشان رہ گئی کہ کیا ایک استاد طالبعلم کی جانب کو بچانے کےلیے ایسا بھی کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ شجیع بالاکوٹ میں دریا میں ڈوبنے والے بچے کو بچاتے ہوئے خود بھی ڈوب گئے۔ اگر وہ چاہتے تو حفاظی ذمہ دار پر معمور افراد کو آگاہ کرکے دعا کرسکتے تھے مگر ایسا ہر گز نہیں کیا کہ روحانی باپ ایسا کرنہیں سکتا۔ یقیناً یہ واقعہ اساتذہ کی عزت و منزلت کے بڑھاوے کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔
پشاور اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی
دہشتگردوں کی جانب سے پشاور اسکول پر حملے کے دوران معصوم بچوں کی شہادتوں کا سانحہ ایسا تھا جس نے پوری قوم کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ایسے میں طاہرہ قاضی پرنسپل پشاور اسکول نے جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے بچوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی اس نے نہ صرف پوری قوم کی آنکھوں کو نم کردیا بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بھی بلند کردیا ۔وہ اپنی جان بچا سکتیں تھیں لیکن انہوں نے کہا جب میرے بچے مصیبت میں ہیں تو میں کیسے بھاگ سکتی ہوں ۔طاہرہ قاضی پوری قوم کو آپ پہ فخر ہے ۔
ایان قریشی
جس نے صرف پانچ سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزار حاصل کیا ۔ایان نے برمنگھم یونیورسٹی سے یہ امتحان پاس کیا اور یوں پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنا۔اس سے پہلے پاکستانی بچی ارفع کریم مرحوم صرف نو سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرچکی ہیں۔
ماہ نور
سرگودھا کے متوسط گھرانے اور گورنمنٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی آٹھ سالہ ماہ نور نے آسٹریلیا یونیورسٹی نیوساوتھ ویلز کے زیراہتمام ہونے والے ریاضی کے عالمی مقابلے میں ہندوستان سمیت 17 ممالک کو شکست دے کر پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
میر ظفر علی
یہ نام یقیناً ہمارے لیے بہت جانا پہچانا ہرگز نہیں مگر جو اِس نے کام کیا ہے وہ یقیناً ہمارے کے لیے قابل فخر ہے۔ ہمیں افسوس رہتا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری تباہ ہورہی ہے لیکن اِس کی تباہی غلط فیصلوں کی وجہ ہے کیونکہ یہاں اِس قدر قابل لوگ ہیں اگر اُن کو موقع دیا جائے تو انڈسٹری زمین سے آسمان کو چھو سکتی ہے۔ ہالی ووڈ کی مشہور و معروف کارٹون فلم فروزن میں ویژول ایفیکٹ ٹیکنالوجی کے ماہر میر ظفر علی تیسری بار آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی پاکستانی بن گئے ہیں ۔ اگر ایسے ہونہار لوگوں کو یہاں موقع دیا جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
یہ تھے وہ چند پاکستانی جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا لوہا منوایا ۔ یہ بات بلاشبہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس ضرورت اس ٹیلنٹ کوکوئی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ہے ۔جس طرح پچھلے سال بہت سے پاکستانیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا، بس اُمید یہی ہے کہ آنے والے 2015 میں بھی یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ان کی تعداد میں دوگنا چوگنا اضافہ بھی ہوگا ۔ آخر میں تمام پڑھنے والو سے اپیل ہے کہ سال آتے ہیں گزرتے چلے جاتے ہیں ۔عمربیت جاتی ہے اور موت قریب آجاتی ہے ۔ قبر کی خاک میں خاک بننے سے پہلے دنیا میں ایسا کوئی کام ضرور کر جائیں جس پر آپکا ملک وقوم فخر کرسکے اور آپکو یاد رکھے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔