پاکستان ایک نظر میں شاید عادتیں بدلتی نہیں

قوم، ریاست، افواج، سرحدیں، دشمن، سیاست، انتخابی اصلاحات، کھیل، اور ہم صرف تب تک ہیں جب تک یہ پاکستان قائم و دائم ہے۔


جاہد احمد December 30, 2014
16 دسمبر کے بعد تو ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اب سیاسی جماعتیں کم از کم دہشتگردی کے خاتمے تک ایک دوسرے کا ساتھ دینگی۔ مگر ابھی تو آگ کی گرمی بھی کم نہ ہوئی کہ سب نے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ فوٹو: فائل

من حیث القوم یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ پاکستان کو لاحق سنگین ترین خطرات میں سرِفہرست دہشت گردی ہے۔ کسی بھی خطہ میں جاری دہشت گردی کے محرکات اس خطہ میں بسے افراد کی حساس نوعیت کے معاملات سے ذہنی و جذباتی وابستگی سے نمو پاتے ہیں۔

پاکستان جیسے رجعت پسند معاشرے میں دہشت گردی کی بنیاد مذہبی انتہا پسندی بھی ہوسکتی ہے ۔ اس معاشرے کے افراد کی مذہب سے حد درجہ ذہنی و جذباتی وابستگی کو ہر دور میں جس انداز سے ملک کے عسکری اور سیاسی حکمران طبقے نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اس کا پھل آج پوری پاکستانی قوم مزے لے لے کر کھا رہی ہے۔امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کے حصول کی خاطر اغیار کی Proxy Wars لڑنے کے لئے مذہبی جنونیت پیدا کرنے کی جو نرسریاں پاک سر زمیں پر کھولی گئیں ان کی پیداوار آج بے قابو عفریت بن کر ہمارے بچوں کا خون بہانے سے بھی گریزاں نہیں۔پر سوال تو یہ ہے کہ میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں!

16 دسمبر 2014 کی بربریت کے بعد اس متفرق قوم کی کم از کم دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جانے کی کچھ امید پیدا ہوئی ضرور تھی لیکن پھر دھاک کے وہی تین پات۔ایک طرف پھر وہی دہشت گرد حمایتی عناصر ہیں جنہوں نے ظلم کے جواز گھڑنے کے لئے سر اور آواز اٹھانے شروع کر دیے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اور عسکری طبقہ ہے جو اپنی اور عوام کی توجہ دہشت گردی کے خلاف موثر اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جانے پر مرکوز رکھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ضرورت تو اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی اور عسکری قیادت کی مشاورت سے جو قومی ایکشن پلان سامنے آیا ہے اس کی افادیت اور اثرات کو بڑھانے کے لئے فی الوقت ذاتی و سیاسی نوعیت کے معاملات کو بے شک کتنے ہی ضروری کیوں نہ ہوں پس پشت ڈال کر ہر قسم کے قومی وسائل اور صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف خیبر پختونخوا فرنٹ لائین صوبہ ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومتی جماعت ہونے کے ناطے پاکستان تحریکِ انصاف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی تمام تر توجہ صرف اور صرف دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہونے پر مرکوز رکھے۔ حضور انتخابی دھاندلی کے نام پر سیاست کرنے کے اور بہت سے مواقع بھی مستقبل میں میسر آئیں گے پر شرط پاکستان کی بقاء ہے۔ پاکستان رہے گا تو سیاست بھی ہو گی اور سیاستدان بھی بچے گا۔

16 دسمبر کے بعد تو ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اب ساری سیاسی جماعتیں کم از کم اُس وقت تو ایک دوسرے کا ساتھ دینگی جب تک ملک سے دہشتگردی کا صفایا نہیں ہوجاتا ۔۔۔۔ مگر ابھی تو آگ کی گرمی بھی کم نہ ہوئی کہ سب نے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔

ایک طرف تحریک انصاف ہے جس نے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں کہ اگر دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن نہ بنایا گیا تو احتجاج دوبارہ بھی شرو ع ہوسکتا ہے تو دوسری طرف ن لیگ ہے جو اپنے طے کیے گئے اُصولوں سے بھی پیچھے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی کہ سندھ کی صورتحال تو پہلے سے بھی گرم معلوم ہوتی ہے۔ آگ لگتی ہے ٹمبر مارکٹ میں، اصولن پہلے سب کو امدادی کام کرنا چاہیے تھا اور وہاں سے نمٹ جانے کے لیے سیاست پر توجہ رکھنی چاہیے تھی ، مگر جناب بھلا کیا یہاں ایسا ممکن ہے۔ ابھی تو آگ لگی تھی اور ایم کیو ایم کے رہنماوں نے موقع پر پہنچ کر شور مچانا شروع کردیا کہ حکومت لاپروا ہے، اِس شہر کو یتیم سمجھ لیا گیا ہے اور الزامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ پھر پیپلزپارٹی کہاں کسی کو چھورٹی ہے اُس نے بھی الزامات کے جواب میں الزامات داغ دیے۔ اور پھر یوں ملک میں ہم آہنگی کی فضا اُسی آگ میں راکھ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

میں تو سوچتا ہوں کہ ابھی محض 15 دن ہوئے ہیں اور اختلافات نے انگڑائی لینا شروع کردی ہے، خدشہ تو یہ ہے کہ اگلے 15 دن میں کیا ہوگا؟ کیا پھر اختلافات، الزامات کا کاروبار گرم ہوجائے گا یا پھر سب دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تھوڑا تھوڑا صبر کریں گے؟۔

امید واثق رکھنی چاہیے کہ قومی ایکشن پلان من و عن انتہائی موئثرطریقے سے ملک کے طول و عرض میں نافذالعمل ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے محرکات کے سدباب کے حوالے سے ایکشن پلان میں جو کافی حوصلہ بخش نقطے شامل کئے گئے ہیں ان کا صد فیصد اطلاق ہوا تو بلاشبہ مستقبل میں ایک معتدل امن و ترقی پسند معاشرے کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے ۔ قومی ایکشن پلان میں فی الحال واحد متنازع نقطہ فوری نوعیت کی فوجی عدالتوں کا قیام اور ان کی آئینی حیثیت ہے۔کیونکہ دودھ کا جلا چھاجھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے تو سیاستدان طبقے کی طرف سے اس نقطہ پر تحفظات کا اظہار کرنا نہ صرف قابلِ فہم بات ہے بلکہ ان عدالتوں کے قیام سے پہلے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث ہونا اور اس سے جڑے تمام آئینی پہلوؤں کا جائزہ لیا جانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

لیکن یہ بھی ایک قابلِ حل مسئلہ ہے جسے مل بیٹھ کر منطقی انجام تک پہنچانا پاکستان کے قانون سازوں کے لئے کوئی بہت بڑی بات نہیں ہونا چاہئے جبکہ کسی بھی مسئلے کے لئے متبادل حل بھی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔اس وقت ضرورت ہے تو محض اتحاد، ایمان اور تنظیم کی۔ آج بھی اس کڑے موقع پر ان اجزاء کو باہم استعمال نہ کر پائے تو اقوام کی تاریخ ہمیں کیا جگہ دے گی اس کا اندازہ محمد مصطفی خان مداح صاحب کے ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:
خدارا اس نزاع باہمی کو ختم فرما دو
ذرا سوچو کہ تم پر کس قدر الزام آتا ہے

قوم، ریاست،افواج، سرحدیں، دشمن، سیاست، نظام، انتخابی اصلاحات، معیشت، کھیل، فنکار، ہم اور ہماری اوقات صرف تب تک ہیں جب تک یہ پاکستان قائم و دائم ہے۔ پاکستان کو بچانا ہے تو مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ ہمیں اپنی اولین قومی ترجیحات کے طور پر اپنانا پڑے گا!!!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں