بات کچھ اِدھر اُدھر کی 2014 کی بہترین فلمیں

اگرکوئی فلم دیکھنا رہ گئی ہے یا کسی فلم کو دیکھنےکے بارے میں آپ سوچ رہے ہیں تویہ بلاگ آپ کیلئے ضرورکارآمد ثابت ہوگا

اگرکوئی فلم دیکھنار ہ گئی ہے یا کسی فلم کو دیکھنے کے بارے میں آپ سوچ رہے ہیں تویہ بلاگ آپ کیلئے ضرورکارآمد ثابت ہوگا۔

ISLAMABAD:
سال نو 2014میں عوام کو تفریح فراہم کرنے کے لئے ویسے تو بہت سی فلمیں بنائی گئی ۔ مگر زیادہ تر فلمیں ایک دوسرے سے مماثلث رکھتی تھی۔ چاہئے ہالی ووڈ ہو، بالی ووڈ یا لالی ووڈ ہر جگہ ایک دوسرے کی کاپی کرنے کی روایت عام ہے۔ میں یہاں فلموں کے بارے میں کوئی تجزیہ کرنے نہیں بیٹھا بلکہ میں یہاں آپ کو اس سال کی بہترین فلموں سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہو، لہذا اگر کوئی فلم دیکھنا رہ گئی ہے یا کسی فلم کو دیکھنے کے بارے میں آپ سوچ رہے ہیں تو یہ بلاگ آپ کے لئے ضرور کارآمد ثابت ہوگا۔

اس سلسلے میں پاکستان نے 2014 میں 3 کامیاب ترین فلمیں اپنے ناظرین کے لئے پیش کی ہیں۔

نامعلوم افراد



6 اکتوبر کو نشر کی جانے والی فلم نامعلوم افراد کی کہانی نبیل قریشی اور فزاعلی مرزا نے لکھی ہے ۔ یہ کہانی تین غریب نوجوانوں کے اوپر فلمائی گئی ہے ۔ اپنی غربت سے تنگ آکر جدوجہد کرنے والے یہ تین لوگ ہر جگہ سے نا امید ہوکربلاآخر شہر میں دہشت پھیلاتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی شہر کراچی کے حالات کے گرد گھومتی ہے ۔ میری نظر میں یہ فلم کراچی کے حالات کا نقاضا ہے جو ایک بہت منفرد کاوش ہے۔ فلم کی ایڈیٹینگ ، ایکٹنگ ، سینماٹو گرافی بہت شاندار ہے ۔ فلم کی کہانی منفرد ، دہشت اور طنز و مزاح پر مشتمل ہے ۔




سلطنت



عید الفطر پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم سلطنت پاکستان کی تاریخ کی اب تک کی سب سے مہنگی ترین فلم ہے۔یہ ایک ایکشن اور رومانوی مووی ہے۔ اس فلم کی کہانی پاکستان کے نامور رائٹر پرویز کلیم نے لکھی ہے۔ جبکہ اسکرین پلے اور ڈائیلاگ کی ذمہ داری بھی انہوں نے اپنے سر لے کر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی۔اس فلم کو عید پر ریلیز کرنے کی سب سے بڑی وجہ اور گمان یہ تھا کہ حال ہی میں سلمان خان کی ریلیز ہونے والی فلم سے مقابلہ کیا جاسکے۔ فلم بینوں کی نظر میں ان دونوں فلموں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ کیونکہ پاکستانی ابھی فلمی دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ میرے خیال میں یہ فلم انڈر ورلڈ کی زندگی سے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی جو بری طرح ناکام رہی۔

دختر



یہ فلم بیٹی پر بنائی گئی ہے۔ عام طور پر اس نام کے ڈرامے اور فلموں میں ماں اور بیٹی کو مظلوم دکھایا گیا ہے۔ عورت پر ظلم و ستم کی کہانیاں زمانہ قدیم کی باتیں لگتی ہیں لیکن درحقیقت یہ کہانیاں آج کے دور میں بھی زندہ ہیں۔یہ فلم ایک 10سالہ بچی زینب ( صالحہ عارف ) کی ہے ، جس کا باپ صرف امن قائم کرنے کے لئے اس کا نکاح دوسرے قبیلے کے عمر رسیدہ سردار سے طے کر دیتا ہے اور زینب کی ماں اللہ رکھی (سمیعہ ممتاز) کو بھی اس بات سے آگاہ کردیتا ہے۔ لیکن دونوں ماں بیٹی نکاح سے پہلے گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ فلم آپ کو ایسے لوگوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردے گی جو آج بھی روایتوں میں جکڑے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس فلم کی ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس فلم میں مذہب، دہشت گردی اور انتہا پسندی کاحوالہ دینے سے گریز کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ فلم میں کسی خاص قبیلے کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ فلم کی پوری توجہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب رکھی گئی ہے ، اس سے متعلق اچھے اور برے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اور اس کے باجود فلم میں ہیپی اینڈنگ کی گئی ہے۔ میری نظر میں یہ ایک اچھی فلم تھی ۔




اب بات کرتے ہیں بالی ووڈ فلم انڈسٹری کی ۔ اس سال بھی بھارتی فلم انڈسٹری میں ہزاروں فلمیں بنی ہیں جن میں سے کچھ ہٹ جبکہ باقی بری طرح ناکام رہی۔ لیکن میری نظر میں صرف تین بھارتی فلمیں ایسی ہیں جو روایتی ٹاپ سے ہٹ کر ہیں۔

پی کے



حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم پی کے نے بھارتی فلم انڈسٹری میں صرف 4دن کے اندر تمام ریکارڈز توڑ دیئے۔ راج کمار ہیرانی کی ڈائریکشن اور عامر خان کی ایکٹنگ نے یہ بات ثابت کر دی کہ بالی ووڈ انڈرسٹری پر عامر خان کا راج انکی انتھک محنت کام اور پیشے سے مخلصی کے باعث ہے ۔ ویسے تو یپ یہ کے کی کہانی دیگر بھارتی فلموں سے ملتی جلتی ہے ، لیکن ٹائم گزرنے کے ساتھ ساتھ فلم مزید مزیدار ہوجاتی ہے۔ ۔ اس فلم میں بھارتی معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے کئی پیغام دئیے گئے ہیں۔ پی کے کی ٹیم کے تمام ممبران نے اپنی اتنھک محنت اور کوششوں سے عوام کو ایک اچھی تفریح مہیا کی ۔ میری نظر میں یہ سال کی بہترین فلم ہے۔



بوبی جاسوس




فلم بوبی جاسوس کی کہانی حیدرآباد مغلپورہ کے ایک گھر کی ہے۔ جس میں بوبی مسلمان اور متوسط طبقے کے گھر انے سے تعلق رکھتی ہے۔ فلم کی کہانی ہر گز دیگر فلموں کے طرز کی نہیں اس میں معاشرے میں موجود گھریلو مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت میسج دیا گیا ہے۔ سنیوختہ چاولہ شیخ کے لکھے اس سکرین پلے کو باریکیوں پر نظر رکھنے والے اور پہلی بار ڈائریکشن دینے والے ثمر شیخ نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ بوبی (بلقیس ) کو جاسوسی کے ناول پڑھ کر جاسوسی کرنے کا شوق انتہاء تک پہنچ جاتاہے، لیکن غربت کے باعث بوبی کسی ادارے سے ڈگری حاصل نہیں کر پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کوئی نوکری دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ لہذا بوبی اپنے شوق کو پروفیشن میں تبدیل کرنے کی خواہش لئے جاسوسی کے کام کو ازخود شروع کرکے کامیابیاں سمیٹتی چلی جاتی ہے۔ فلم کی کہانی بہت منفرد ہے ۔




دی شوقینز



فلم دی شوقینز تین ایسے ادھیڑ عمر افراد کی کہانی پر مشتمل ہے کہ جو جوانی کی آخری جبکہ بڑھاپے کی پہلی سیڑھی پر اپنے پائوں رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو کسی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے۔ آسان الفاظ میں اگر بولا جائے تو شوقینز کی کہانی ''بڈھے گھوڑے لال لگام'' ''جیسے محاورے کے گرد گھومتی ہے جو کہ حقیقت سے کافی حد تک قریب ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد خاص طور پر خواتین کو ایسی عمر کے افراد سے شدید تحفظات ہوجائینگے ۔ کہانی کا پلاٹ ، ڈائریکشن ، پروڈیکشن اور کردار سب بہت جاندار ہیں ۔ فلم کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی مگر میری نظر میں فلم بہت منفر قابل مستحق ہے ۔




اب کچھ بات کرتے ہیں ہالی ووڈ فلم انڈسٹری کی۔

انٹراسٹیلر



فلم کی کہانی زمین پر موجود انسانوں کے مسائل ، آب وہوا میں تبدیلی اور غذائی قلت کے سامنا دکھایا گیا ہے۔ زمین میں انسانیت کے خاتمے اور عدم تشدد کے حوالے سے اس فلم پر خاص طور پر فوکس کیا گیا ہے۔ دوسری طرف خلائی دنیا میں لگاتار نسل انسانی کو وسیع کرنے کے حوالے سے نت نئی خلائی دنیا کی دریافت کا عمل بھی کیا جاتا ہے ۔نئے سیاروں کی تلاش کے لئے نظام شمسی سے باہر جانا ضروری ہوتا ہے ۔ لہذا اس فلم میں نئے سیاروں کی کھوج کو فوکس کیا گیا ہے ۔ فوٹو اور ویڈیو گرافکس پر خاص توجہ دی گئی ہے ۔ میری نظر میں یہ ایک بہترین فلم ہے۔




ڈان آف دا ایپس



اس فلم نے یہ بات ثابت کر دکھائی کہ بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی دیکھنا فلم کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ اس فلم کی کہانی انسانوں اورایپس کے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے کے گرد گھومتی ہے جس کے بعض جذباتی مناظر نے سینما میں موجود فلم بینوں کو آنسو بہانے پر مجبورکردیا، اور لوگ فلم کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ فلم واقعی قابل تعریف ہے۔




بوائے ہڈ



فلم 'بوائے ہڈ' ایک لڑکے کی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی کہانی ہے۔فلم میکر رچرڈ لنک لیٹر نے انسانی جذبات اور ایک نوجوان کے تجربات کو اس خوبی اورمہارت سے پیش کیا کہ بقول فلم بین 'بوائے ہڈ' ایک ماسٹر پیس ہے اس نہ دیکھنا عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ لہذا میں بھی آپ سے یہی کہوں گا کہ اس فلم کو ضرور دیکھیں اور ساتھ ہی اپنے بچوں کو بھی دیکھائیں تاکہ آپ ان کی سوچ اور خیالات سے آگاہ ہوں۔



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story