ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے
ٹمبر مارکیٹ میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد الزامات کی سیاست شروع
KARACHI:
سندھ کی سیاست میں گذشتہ ہفتے اختلافات کا شور سنائی دیتا رہا۔ ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی میں مختلف ایشوز پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین کی رنجشیں اور پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔
اس کے ساتھ مختلف جماعتیں، خصوصاً مذہبی تنظیموں کی جانب سے بارہ ربیع الاول سے متعلق تیاریاں زورں پر ہیں۔ میلادِ مصطفیٰﷺ عقیدت و احترام سے منانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں کے بازار، گلیوں اور اہم عمارات کو جھنڈیوں اور برقی قمقوں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی اجتماعات، ریلیوں اور عیدِ میلاد النبیﷺ کی مناسبت سے پروگراموں کے روٹس اور دیگر متعلقہ امور پر مقامی انتظامیہ سے رابطے کیے جارہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔
گذشتہ دنوں ٹمبر مارکیٹ میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے مابین الزامات کی سیاست نے پھر زور پکڑ لیا ہے۔ الطاف حسین نے اس واقعہ کے فوری بعد افسوس کا اظہارکیا جب کہ حکومت سندھ اور متعلقہ اداروںسے اپیل کی کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس سانحے پر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمر منصور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کے نقصان پر حکومت سندھ کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کرنے کی مذمت کرتے ہیں، لوگ ساری رات اپنی املاک کو بچانے کے لیے ہاتھ پھیلا پھیلا کر امداد مانگتے رہے، لیکن وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزرا خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار، کامران فاروقی اور محمد دلاور کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر منصور نے کہا کراچی جلتا رہا، لیکن حکومت سوتی رہی۔
اسی طرح گذشتہ برس سائٹ ایریا کی فیکٹری میں کے سیکڑوں متاثرین بھی اب تک امداد کے منتظر ہیں، تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیاکہ ٹمبر مارکیٹ کے سانحہ پر صوبائی حکومت کی بے حسی کا نوٹس لیں۔ فاروق ستار نے کہاکہ کراچی لاوارثوں کا شہر ثابت ہو گیا۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن وزیراعلیٰ سمیت کوئی وزیر موقع پر نہیں پہنچا۔ انتظامیہ بھی الطاف حسین کی اپیل کے بعد حرکت میں آئی۔
ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کراچی کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ سندھ کے وزرا کو اس واقعے کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے۔ سب سے پہلے ایم کیو ایم کے راہ نما جائے حادثہ پر پہنچے جب کہ فائر بریگیڈ، واٹر بورڈ، کے ایم سی کے افسران، کمشنر کراچی اور شہری انتظامیہ کے دیگر حکام لاعلم اور غائب رہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم کی جانب سے پریس کانفرنس میں عائد کردہ الزامات کے جواب میں انہیں سراسر غلط قرار دیا اور کہاکہ فوٹو سیشن کے لیے کام نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی۔ آگ فاروق ستار کے حلقہ میں لگی اور وہ خود آگ بجھنے کے بعد پہنچے، ایسے افسوس ناک واقعات پر سیاست چمکانا ٹھیک نہیں۔ سب کا فرض تھا کہ امدادی کاموں اور آگ بجھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ میرے استعفی سے معاملات درست ہوتے ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں، لیکن کیا 12 مئی کے واقعے پر ایم کیو ایم کے وزیر نے استعفی دیا تھا؟
شرجیل میمن سمیت پی پی پی کے دیگر وزرا اور عہدے داروں کی جانب سے ایم کیو ایم کے الزامات اور تنقید کا جواب دینے سلسلہ جاری ہے جب کہ متأثرین تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں اعلانات اور متاثرین سے وعدوں کا آغاز تو کر دیا گیا ہے، لیکن متاثرین بے یقینی کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑسے ختم کرنے کے لیے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم پالیسی کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم، رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمر منصور نے پریس کانفرنس میں کہاکہ سانحۂ پشاور پاکستان کا نائن الیون ہے، ملٹری کورٹس کا قیام مسئلے کا مستقل حل نہیں، مقامی حکومتوں کے نظام، کمیونٹی پولیس سسٹم کے قیام اور چوکی داری نظام کے بغیر ملٹری کورٹس بھی غیر مؤثر ثابت ہوں گی۔
اس موقع پر اراکین اور راہ نما ڈاکٹر نصرت شوکت، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، سید حیدر عباس رضوی، غازی صلاح الدین، عارف خان ایڈووکیٹ، گلفراز خان خٹک، اسلم آفریدی، بیرسٹر فروغ نسیم، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد فاروق ستار، سید سردار احمد اور دیگر موجود تھے۔ قمر منصور نے کہاکہ امید ہے کہ حکومت ہماری سفارشات پر عمل درآمد کرے گی اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی کوشش کرے گی۔
سندھ کی سیاست میں گذشتہ ہفتے اختلافات کا شور سنائی دیتا رہا۔ ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی میں مختلف ایشوز پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین کی رنجشیں اور پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔
اس کے ساتھ مختلف جماعتیں، خصوصاً مذہبی تنظیموں کی جانب سے بارہ ربیع الاول سے متعلق تیاریاں زورں پر ہیں۔ میلادِ مصطفیٰﷺ عقیدت و احترام سے منانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں کے بازار، گلیوں اور اہم عمارات کو جھنڈیوں اور برقی قمقوں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی اجتماعات، ریلیوں اور عیدِ میلاد النبیﷺ کی مناسبت سے پروگراموں کے روٹس اور دیگر متعلقہ امور پر مقامی انتظامیہ سے رابطے کیے جارہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔
گذشتہ دنوں ٹمبر مارکیٹ میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے مابین الزامات کی سیاست نے پھر زور پکڑ لیا ہے۔ الطاف حسین نے اس واقعہ کے فوری بعد افسوس کا اظہارکیا جب کہ حکومت سندھ اور متعلقہ اداروںسے اپیل کی کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس سانحے پر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمر منصور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کے نقصان پر حکومت سندھ کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کرنے کی مذمت کرتے ہیں، لوگ ساری رات اپنی املاک کو بچانے کے لیے ہاتھ پھیلا پھیلا کر امداد مانگتے رہے، لیکن وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزرا خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار، کامران فاروقی اور محمد دلاور کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر منصور نے کہا کراچی جلتا رہا، لیکن حکومت سوتی رہی۔
اسی طرح گذشتہ برس سائٹ ایریا کی فیکٹری میں کے سیکڑوں متاثرین بھی اب تک امداد کے منتظر ہیں، تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیاکہ ٹمبر مارکیٹ کے سانحہ پر صوبائی حکومت کی بے حسی کا نوٹس لیں۔ فاروق ستار نے کہاکہ کراچی لاوارثوں کا شہر ثابت ہو گیا۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن وزیراعلیٰ سمیت کوئی وزیر موقع پر نہیں پہنچا۔ انتظامیہ بھی الطاف حسین کی اپیل کے بعد حرکت میں آئی۔
ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کراچی کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ سندھ کے وزرا کو اس واقعے کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے۔ سب سے پہلے ایم کیو ایم کے راہ نما جائے حادثہ پر پہنچے جب کہ فائر بریگیڈ، واٹر بورڈ، کے ایم سی کے افسران، کمشنر کراچی اور شہری انتظامیہ کے دیگر حکام لاعلم اور غائب رہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایم کیو ایم کی جانب سے پریس کانفرنس میں عائد کردہ الزامات کے جواب میں انہیں سراسر غلط قرار دیا اور کہاکہ فوٹو سیشن کے لیے کام نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی۔ آگ فاروق ستار کے حلقہ میں لگی اور وہ خود آگ بجھنے کے بعد پہنچے، ایسے افسوس ناک واقعات پر سیاست چمکانا ٹھیک نہیں۔ سب کا فرض تھا کہ امدادی کاموں اور آگ بجھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ میرے استعفی سے معاملات درست ہوتے ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں، لیکن کیا 12 مئی کے واقعے پر ایم کیو ایم کے وزیر نے استعفی دیا تھا؟
شرجیل میمن سمیت پی پی پی کے دیگر وزرا اور عہدے داروں کی جانب سے ایم کیو ایم کے الزامات اور تنقید کا جواب دینے سلسلہ جاری ہے جب کہ متأثرین تاحال امداد کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں اعلانات اور متاثرین سے وعدوں کا آغاز تو کر دیا گیا ہے، لیکن متاثرین بے یقینی کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑسے ختم کرنے کے لیے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم پالیسی کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم، رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمر منصور نے پریس کانفرنس میں کہاکہ سانحۂ پشاور پاکستان کا نائن الیون ہے، ملٹری کورٹس کا قیام مسئلے کا مستقل حل نہیں، مقامی حکومتوں کے نظام، کمیونٹی پولیس سسٹم کے قیام اور چوکی داری نظام کے بغیر ملٹری کورٹس بھی غیر مؤثر ثابت ہوں گی۔
اس موقع پر اراکین اور راہ نما ڈاکٹر نصرت شوکت، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، سید حیدر عباس رضوی، غازی صلاح الدین، عارف خان ایڈووکیٹ، گلفراز خان خٹک، اسلم آفریدی، بیرسٹر فروغ نسیم، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد فاروق ستار، سید سردار احمد اور دیگر موجود تھے۔ قمر منصور نے کہاکہ امید ہے کہ حکومت ہماری سفارشات پر عمل درآمد کرے گی اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی کوشش کرے گی۔