مذہبی اقلیتیں نئی سوچ اور فکر کی دعوت
عجیب بات یہ ہے کہ ہم آج 2014میں بیٹھ کر مذہبی اقلیتوں کی ملک سے محبت ، وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
ایک جمہوری ، فلاحی اور مسلم معاشرے کی بنیاد رواداری کے کلچر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کیونکہ جن معاشروں میں رواداری کا کلچر اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام اور مکالمے کو تقویت دینے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا ، وہ معاشرہ فکری طور پر بانجھ پن کا شکار ہوگا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے جہاں محض طاقت کے زور پر اپنی بات، خیالات، فکرا ور سوچ کو بالادست کرنے کا رجحان بڑھ جائے تو وہ پرتشدد معاشرے میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔اگرچہ ہم بطور مسلمان اور مسلم معاشرہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کی بنیاد رواداری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ، لیکن عملاً اس اصول پر عملدرآمد کی راہ میں سنگین مسائل بھی غالب نظر آتے ہیں ۔ بنیادی طور پر دیکھیں تو ہم بطور ریاست، حکومت ، سیاسی اشرافیہ اور معاشرہ diversityکے اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔
کیونکہ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر مذہب، رنگ، نسل ، گروہ ، فرقے کے لوگ موجود ہوں وہاں سب کے درمیان بنیادی نوعیت کے اختلافات یا فکری تضاد کے باوجود ایک دوسرے کی قبولیت کا کلچر سب سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے ۔معروف شاعر جون ایلیا کے بقول'' آو اختلافات پر ہم اتفاق کرلیں '' درس دیتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کے ساتھ پیار، محبت، رواداری ، خلوص اور اپنائیت کے ساتھ مل جل کر رہ سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ایسا کیونکر نہیں ہوسکا۔ مذہبی اقلیتیں کیوں اس بنیادی نقطہ پر زور دیتی ہیں کہ ان کے ساتھ ریاستی امور، اس کے قوانین ، حکومتی طرز عمل اور معاشرے کے مزاج اور خیالات میں تفریق کی جارہی ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ اس میں کتنی حقیقت یا محض فسانہ ہے ، لیکن اس نقطہ کو ہماری قومی سیاست کی بحث کا حصہ بننا چاہیے ۔
پاکستان میں خاصے عرصے سے مذہبی اقلیتیں اپنے آپ کو سیاسی تنہائی میں دیکھ رہی ہیں ، ان میں ایک طرح سے عدم تحفظ بھی پایا جاتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم آج 2014میں بیٹھ کر مذہبی اقلیتوں کی ملک سے محبت ، وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، جو مناسب رویہ نہیں ۔ہمارے دانشور د وست خورشید ندیم اور عبدالحفیظ '' ادارہ تعلیم و تحقیق''کے نام سے اسی بنیادی نقطہ پر توجہ دے کر علمی اور تحقیقی بنیادوں پر مختلف فریقین اور اداروں کے درمیان فکری راہنمائی کا کام کررہے ہیں ۔ خورشید ندیم ایک دانشور کی حیثیت سے پہلے ہی اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کی تحریروں کی بنیاد میں فکری پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ خورشید ندیم کے بقول ان کی کوشش ہے کہ پاکستان میں ایک ایسے کلچر کی بنیاد کو تقویت دیں جو مکالمہ ، پرامن بقائے باہمی ، آزادی فکراور تبادلہ خیال سمیت ایک دوسرے کی رائے کے احترام کو ایک فکر کی طاقت میں تبدیل کرے۔
خورشید ندیم جب یہ بات کرتے ہیں تو اپنے اندر ایک فہم بھی رکھتے ہیں کہ مسلم معاشرہ کسی کے بھی خیالات و افکار کو کسی تعصب کی بنیاد پر ،انھیں سوچے سمجھے بغیر رد کردینے کے بجائے انھیں فراخ دلی کے ساتھ زیر بحث لاتا ہے ، تاکہ اسلام کے آفاقی اصول ہر عہد میں بروئے کار آتے رہیں ۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر معاشرتی اور قومی اداروں کو حکمت عملی کی تشکیل کے لیے علمی اور فکری راہنمائی بھی فراہم کرتا ہے ۔میں ذاتی طور پر اس ادارے کے کام او ران کے اشاعتی مواد پر نظر رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کا کام کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ ادارے جو بالخصوص رواداری کے کلچر کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، انھیں اس ادارے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔اصل میں مسلم معاشروں میں اداروں کی تشکیل پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، خاص طور پر ایسے ادارے جو معاشرے کو فکری غذا فراہم کرتے ہیں، ان کی ریاستی و حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی کا پہلو موجود نہیں ۔ اول ریاست نے خود ایسے ادارے نہیں بنائے اوردوئم جن لوگوں نے انفرادی سطح پر ادارے بنائے ان کی بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے اہم اور فکری ادارے وہ مقام حاصل نہیں کرسکے ، جو مسلم معاشروں کی حقیقی ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں ۔
'' ادارہ تعلیم و تحقیق'' نے مسلم معاشرہ اور مذہبی اقلیتیں کے عنوان سے ایک مختصر کتابچہ بھی شایع کیا ہے ۔ یہ کتابچہ اور دیگر اشاعت مواد مجھے بھی ملا ہے ۔ اس کتابچہ میں ادارے نے بہت مختصر اور جامع تحریر کی مدد سے مسلم معاشرہ اور مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ یہ کتابچہ بہت عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ سب ہی اس سے آسان انداز میں استفادہ کرسکیں ۔بنیادی طور پر مسلم معاشروں میں سب انسانوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے ضمانت بھی دی جاتی ہے ۔ یہ ضمانت مسلم معاشرے میں محض مسلمانوں تک محدود نہیں ہوتی ، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی تحفظ دیا جاتا ہے ۔
اس کتابچہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلم ریاست کے شہریوں میں، دو طرح کے غیر مسلم ہوسکتے ہیں ۔ایک وہ جو اس وجہ سے ریاست کے شہری بنے ہوں کہ ان کا تعلق کسی مفتوع علاقہ سے تھا ۔ ان کا علاقہ فتح ہوا تو وہ اس کے نتیجے میں مسلمان ریاست کے شہری قرار پائے ۔ اسی طرح دوسرے غیر مسلم شہری وہ ہیں جو اپنی آزاد مرضی سے مسلمان ریاست کے شہری بنے ہیں ۔جیسے جب پاکستان قائم ہوا تو بہت سے غیر مسلموں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی قسم کے غیر مسلموں کو ذمی کہا جاتا ہے ۔ دوسری قسم کے غیر مسلم معاہد کہلاتے ہیں ، یعنی وہ جو ایک ماہدے کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے شہری قرار پائے ہیں ۔اسلام دونوں طرح کے غیر مسلموں کے حقوق کا تعین کرتا او ران کا درجہ مسلمان شہری کے مساوی رکھتا ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں جس طرح ایک مسلمان پر ظلم نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح غیر مسلم پر بھی ظلم روا رکھنا جائز نہیں ۔ اسلام جب ظلم کی مذمت کرتا ہے تو اس میں مذہب کا امتیاز روا نہیں رکھتا ۔
اصل میں ایک مسلمان معاشرے میں یہ ذمے داری جہاں ریاست او رحکومت کی بنتی ہے ، وہیں اس کی سیاسی اشرافیہ سمیت مذہبی علمائے کرام ، اسکالرز، دانشور اور سیاسی اشرافیہ سے وابستہ افراد او راداروں کی بھی بنتی ہے کہ وہ اس نقطہ کو اپنی سیاست ، سماجیات ، اخلاقیات سمیت مذہبی تعلیمات کا حصہ بنائیں کہ ایک دوسرے کے خیالات کے احترام میں ہمیں پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اختیار کرنا ہوگا ۔ بالخصوص ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں او رمساجد کے علمائے کرام کو اس عمل میں آگے بڑھ کر اپنا عملی کردار ادا کرکے ایسے کرداروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ، جو مذہبی منافرت پھیلا کر ایک دوسرے کے درمیان فاصلے اور نفرتیں پیدا کرتے ہیں ۔
ہمارے تعلیمی نصاب میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو او رجو ایک دوسرے کے درمیان سیاسی ، سماجی اور مذہبی تعصب سے گریز کرے ۔میں عمومی طور پر کہتا ہوں کہ ہمیں سیاست کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سماجی تحریک کی ضرورت ہے ، جس کی بنیاد علمی ا ور تحقیقی ہونی چاہیے ۔یہ تحریک معاشرے میں رہنے والے تمام افراد چاہے، ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ،جوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی قبولیت کے نظام کو تقویت دے۔ جو سماجی کلچر ہوتا ہے، وہی بنیادی طاقت بھی اختیار کرتا ہے ، جو آج ہماری سیاست میں گندگی ہے اس کی ایک وجہ ہم سماج کی تشکیل سے پیچھے ہٹ کر محض اقتدار کے حصول کی سیاست کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہماری سیاسی جماعتیں بھی وہ کچھ نہیں کررہیں ، جو ان کی حقیقی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔اس کام کو علم کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہیے ، اور اس میں کہیں بھی جذباتی رنگ یا سیاسی ومذہبی تعصب کی جھلک نہیں نظر آنی چاہیے ۔
ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسے علمی اداروں کی ضرور سرپرستی کرے جو مسلم معاشرے کی ایک بہتر، اچھی تصویر پیش کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ۔ '' ادارہ تعلیم و آگاہی '' جیسے اور ادارے بننے چاہیے ، کیونکہ ہمارے معاشرے کو اسی طرح کے اداروں کی مدد سے ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم یا اقلیتوں کے حقوق کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے انھیں ایک قومی سیاست کے دھارے او راس کی ترقی کے عمل میں شامل کرکے ہی ہم ان میں یہ احساس پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستانی بھی ہیں اور مسلم معاشرے کے لیے مقدم بھی ۔
کیونکہ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر مذہب، رنگ، نسل ، گروہ ، فرقے کے لوگ موجود ہوں وہاں سب کے درمیان بنیادی نوعیت کے اختلافات یا فکری تضاد کے باوجود ایک دوسرے کی قبولیت کا کلچر سب سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے ۔معروف شاعر جون ایلیا کے بقول'' آو اختلافات پر ہم اتفاق کرلیں '' درس دیتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کے ساتھ پیار، محبت، رواداری ، خلوص اور اپنائیت کے ساتھ مل جل کر رہ سکتے ہیں ۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ایسا کیونکر نہیں ہوسکا۔ مذہبی اقلیتیں کیوں اس بنیادی نقطہ پر زور دیتی ہیں کہ ان کے ساتھ ریاستی امور، اس کے قوانین ، حکومتی طرز عمل اور معاشرے کے مزاج اور خیالات میں تفریق کی جارہی ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ اس میں کتنی حقیقت یا محض فسانہ ہے ، لیکن اس نقطہ کو ہماری قومی سیاست کی بحث کا حصہ بننا چاہیے ۔
پاکستان میں خاصے عرصے سے مذہبی اقلیتیں اپنے آپ کو سیاسی تنہائی میں دیکھ رہی ہیں ، ان میں ایک طرح سے عدم تحفظ بھی پایا جاتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم آج 2014میں بیٹھ کر مذہبی اقلیتوں کی ملک سے محبت ، وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، جو مناسب رویہ نہیں ۔ہمارے دانشور د وست خورشید ندیم اور عبدالحفیظ '' ادارہ تعلیم و تحقیق''کے نام سے اسی بنیادی نقطہ پر توجہ دے کر علمی اور تحقیقی بنیادوں پر مختلف فریقین اور اداروں کے درمیان فکری راہنمائی کا کام کررہے ہیں ۔ خورشید ندیم ایک دانشور کی حیثیت سے پہلے ہی اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کی تحریروں کی بنیاد میں فکری پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ خورشید ندیم کے بقول ان کی کوشش ہے کہ پاکستان میں ایک ایسے کلچر کی بنیاد کو تقویت دیں جو مکالمہ ، پرامن بقائے باہمی ، آزادی فکراور تبادلہ خیال سمیت ایک دوسرے کی رائے کے احترام کو ایک فکر کی طاقت میں تبدیل کرے۔
خورشید ندیم جب یہ بات کرتے ہیں تو اپنے اندر ایک فہم بھی رکھتے ہیں کہ مسلم معاشرہ کسی کے بھی خیالات و افکار کو کسی تعصب کی بنیاد پر ،انھیں سوچے سمجھے بغیر رد کردینے کے بجائے انھیں فراخ دلی کے ساتھ زیر بحث لاتا ہے ، تاکہ اسلام کے آفاقی اصول ہر عہد میں بروئے کار آتے رہیں ۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر معاشرتی اور قومی اداروں کو حکمت عملی کی تشکیل کے لیے علمی اور فکری راہنمائی بھی فراہم کرتا ہے ۔میں ذاتی طور پر اس ادارے کے کام او ران کے اشاعتی مواد پر نظر رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کا کام کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ ادارے جو بالخصوص رواداری کے کلچر کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں، انھیں اس ادارے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔اصل میں مسلم معاشروں میں اداروں کی تشکیل پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، خاص طور پر ایسے ادارے جو معاشرے کو فکری غذا فراہم کرتے ہیں، ان کی ریاستی و حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی کا پہلو موجود نہیں ۔ اول ریاست نے خود ایسے ادارے نہیں بنائے اوردوئم جن لوگوں نے انفرادی سطح پر ادارے بنائے ان کی بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے اہم اور فکری ادارے وہ مقام حاصل نہیں کرسکے ، جو مسلم معاشروں کی حقیقی ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں ۔
'' ادارہ تعلیم و تحقیق'' نے مسلم معاشرہ اور مذہبی اقلیتیں کے عنوان سے ایک مختصر کتابچہ بھی شایع کیا ہے ۔ یہ کتابچہ اور دیگر اشاعت مواد مجھے بھی ملا ہے ۔ اس کتابچہ میں ادارے نے بہت مختصر اور جامع تحریر کی مدد سے مسلم معاشرہ اور مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ یہ کتابچہ بہت عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ سب ہی اس سے آسان انداز میں استفادہ کرسکیں ۔بنیادی طور پر مسلم معاشروں میں سب انسانوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے ضمانت بھی دی جاتی ہے ۔ یہ ضمانت مسلم معاشرے میں محض مسلمانوں تک محدود نہیں ہوتی ، بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی تحفظ دیا جاتا ہے ۔
اس کتابچہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلم ریاست کے شہریوں میں، دو طرح کے غیر مسلم ہوسکتے ہیں ۔ایک وہ جو اس وجہ سے ریاست کے شہری بنے ہوں کہ ان کا تعلق کسی مفتوع علاقہ سے تھا ۔ ان کا علاقہ فتح ہوا تو وہ اس کے نتیجے میں مسلمان ریاست کے شہری قرار پائے ۔ اسی طرح دوسرے غیر مسلم شہری وہ ہیں جو اپنی آزاد مرضی سے مسلمان ریاست کے شہری بنے ہیں ۔جیسے جب پاکستان قائم ہوا تو بہت سے غیر مسلموں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی قسم کے غیر مسلموں کو ذمی کہا جاتا ہے ۔ دوسری قسم کے غیر مسلم معاہد کہلاتے ہیں ، یعنی وہ جو ایک ماہدے کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے شہری قرار پائے ہیں ۔اسلام دونوں طرح کے غیر مسلموں کے حقوق کا تعین کرتا او ران کا درجہ مسلمان شہری کے مساوی رکھتا ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں جس طرح ایک مسلمان پر ظلم نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح غیر مسلم پر بھی ظلم روا رکھنا جائز نہیں ۔ اسلام جب ظلم کی مذمت کرتا ہے تو اس میں مذہب کا امتیاز روا نہیں رکھتا ۔
اصل میں ایک مسلمان معاشرے میں یہ ذمے داری جہاں ریاست او رحکومت کی بنتی ہے ، وہیں اس کی سیاسی اشرافیہ سمیت مذہبی علمائے کرام ، اسکالرز، دانشور اور سیاسی اشرافیہ سے وابستہ افراد او راداروں کی بھی بنتی ہے کہ وہ اس نقطہ کو اپنی سیاست ، سماجیات ، اخلاقیات سمیت مذہبی تعلیمات کا حصہ بنائیں کہ ایک دوسرے کے خیالات کے احترام میں ہمیں پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اختیار کرنا ہوگا ۔ بالخصوص ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں او رمساجد کے علمائے کرام کو اس عمل میں آگے بڑھ کر اپنا عملی کردار ادا کرکے ایسے کرداروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے ، جو مذہبی منافرت پھیلا کر ایک دوسرے کے درمیان فاصلے اور نفرتیں پیدا کرتے ہیں ۔
ہمارے تعلیمی نصاب میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو او رجو ایک دوسرے کے درمیان سیاسی ، سماجی اور مذہبی تعصب سے گریز کرے ۔میں عمومی طور پر کہتا ہوں کہ ہمیں سیاست کے ساتھ ساتھ ایک بڑی سماجی تحریک کی ضرورت ہے ، جس کی بنیاد علمی ا ور تحقیقی ہونی چاہیے ۔یہ تحریک معاشرے میں رہنے والے تمام افراد چاہے، ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ،جوڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کی قبولیت کے نظام کو تقویت دے۔ جو سماجی کلچر ہوتا ہے، وہی بنیادی طاقت بھی اختیار کرتا ہے ، جو آج ہماری سیاست میں گندگی ہے اس کی ایک وجہ ہم سماج کی تشکیل سے پیچھے ہٹ کر محض اقتدار کے حصول کی سیاست کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہماری سیاسی جماعتیں بھی وہ کچھ نہیں کررہیں ، جو ان کی حقیقی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔اس کام کو علم کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہیے ، اور اس میں کہیں بھی جذباتی رنگ یا سیاسی ومذہبی تعصب کی جھلک نہیں نظر آنی چاہیے ۔
ریاست اور حکومت سمیت بالادست طبقات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسے علمی اداروں کی ضرور سرپرستی کرے جو مسلم معاشرے کی ایک بہتر، اچھی تصویر پیش کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ۔ '' ادارہ تعلیم و آگاہی '' جیسے اور ادارے بننے چاہیے ، کیونکہ ہمارے معاشرے کو اسی طرح کے اداروں کی مدد سے ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم یا اقلیتوں کے حقوق کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے انھیں ایک قومی سیاست کے دھارے او راس کی ترقی کے عمل میں شامل کرکے ہی ہم ان میں یہ احساس پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستانی بھی ہیں اور مسلم معاشرے کے لیے مقدم بھی ۔