جب سیاست اور کرپشن کے رشتے کمزور تھے
اصل اور کھرے سیاستدانوں میں مال بنانے کا رواج ہی نہیں تھا بلکہ اقتدار کے ذریعے کرپشن کو بہت بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔
ISLAMABAD:
ہمارے قومی مسائل لاتعداد ہی نہیں انتہائی مشکل بھی ہیں اور وجہ بظاہر یہی ہے کہ مسئلے تو پیدا ہوتے رہے لیکن حکومت نے کوئی مسئلہ کبھی حل ہی نہیں کیا بلکہ یوں کہیں کہ کوئی حکومت کسی ٹھوس پروگرام اور نظریے کے تحت تھی ہی نہیں جو حکمران بھی آیا وہ ہیرا پھیری کر کے وقتی طور پر تخت نشین ہوا اور کچھ عرصے بعد اپنے جیسے کسی دوسرے ابن الوقت کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔
تقریباً ہر حکمران نے اپنے اپنے اقتدار کے دور میں ملک کو لوٹنے کے منصوبے ضرور بنائے اور اپنے اقتدار کے زور پر ان منصوبوں پر کامیابی کے ساتھ عمل بھی کیا حتیٰ کہ وہ بھی جو عارضی طور پر خانہ پری کے لیے لائے گئے انھوں نے بھی بہت کچھ بنا لیا جب کہ مستقل حکمرانوں نے تو اربوں کھربوں میں لوٹ مار کی، غیر ملکی بینکوں میں محفوظ ان کی دولت کے قصے مشہور ہیں مگر انھیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں، شرمندگی کیا وہ الٹے اپنی اس کامیابی پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں اور تو اور ہمارے ہاں روپے پیسے کے معاملے میں دیانت دار سمجھے جانے والے حکمران بھی اپنا دامن صاف نہیں رکھتے۔ ایک نیک نام سمجھے جانے والے حکمران کے دور میں شمالی پہاڑی علاقوں میں زلزلہ آیا، اس سانحہ پر غیر ملکی دوستوں نے ہماری مدد کی خصوصاً عرب ملکوں نے لیبیا کے کرنل قذافی اس حکمران کے خاص دوست تھے، انھوں نے امدادی چیک اپنے اس دوست کے نام بھیجا جو انھوں نے اپنے نام پر جمع کرا دیا اور اس کی بھاری رقم بھی اپنے پاس ہی رکھ لی۔ وہ نہ تو کسی بڑے کاروباری خاندان سے تھے اور نہ ہی بڑے جاگیردار تھے۔
زمیندار تھے مگر درمیانے درجے کے۔ ان کی اس خفیہ دولت کا پتہ ان کے انتقال کے بعد چلا جب اس دولت پر ان کے پسماندگان میں لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا اور یہ خاندانی تنازع اس قدر بڑھ گیا کہ وارثوں میں سے ایک بھائی کی کسی وجہ سے موت ہی واقع ہو گئی، قسمت کی بات ہے کہ ایک بار پھر اقتدار نے اس خاندان پر مہربانی کی اور وزارت عظمیٰ پھر اس خاندان میں آگئی۔ہمارے ایک مستند رپورٹر کا بیان ہے کہ ایک پریس کانفرنس میں جب وزیراعظم کے شوہر کی 'مال برداری' کا ذکر آ گیا تو وہ اسے ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی پریس کانفرنس سے واک آؤٹ کر گئیں۔ ان کی یہ عادت تھی کہ جب پریس کانفرنس میں ان سے کوئی ناخوشگوار سوال پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے کے بجائے اٹھ کر چلی جاتیں، اس کا میں خود بھی گواہ ہوں۔
اس ملک میں ایسے حکمران بہت کم بلکہ گنے چنے آئے ہیں جنہوں نے کوئی بڑا گھپلا نہیں کیا۔ پہلے مارشل لاء یعنی ایوب خان کی حکومت سے پہلے تک سیاستدان سیاسی معاملات میں کتنے ہی ہیرا پھیری کرنے والے رہے لیکن انھوں نے مال نہیں بنایا۔ اصل اور کھرے سیاستدانوں میں مال بنانے کا رواج ہی نہیں تھا بلکہ اقتدار کے ذریعے کرپشن کو بہت بڑا عیب سمجھا جاتا تھا اور اپنے خاندان کی سبکی تصور کی جاتی تھی اور تو اور سب سے بدنام حکمران اسکندر مرزا کو بھی جب پاکستان کے اقتدار سے نکالا گیا تو یہ اسکندر بھی خالی ہاتھ گیا اور لندن جا کر ایک ہوٹل میں ملازمت کرتا رہا۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا صرف ایک اعزازی جرنیلی تھی۔
حکمرانوں میں مال بنانے کی رسم بعد میں چلی جب باپ دادا والے نسلی اور خاندانی سیاستدانوں کا دور قریب قریب ختم ہوا اور کچھ حکمران ساز باز کر کے اقتدار پر مسلط ہونے لگے پھر بھی پرانے سیاستدان جب تک زندہ رہے اپنے مال پر زندہ رہے۔ میاں ممتاز دولتانہ برطانیہ میں سفیر بنا دیے گئے لیکن ایک سفیر کی مراعات ان کے اخراجات کے لیے کم تھیں چنانچہ وہ پاکستان میں اپنی زمین بیچتے رہے اور اس سے سفارت کاری کے اخراجات پورے کرتے رہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان آخری عمر میں تنگ آ کر حکومت میں کسی حد تک شامل ہو گئے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن گئے اور بعض دوسری ذمے داریاں بھی لے لیں لیکن جسے کرپشن کہتے ہیں وہ کبھی نہیں کی۔ ان کے لاہور کے مشہور سیاسی ڈیرے پر ان کے نیاز مندوں اور دوستوں کا جھمگٹا رہتا۔
یہ ڈیرہ بڑا سیاسی مرکز تھا اور قومی سطح کے لیڈروں کے اجلاس بھی ہوتے تھے ان کے علاوہ ان کے روز مرہ کے اخراجات بھی ٹھیک ٹھاک تھے لیکن یہ سب ان کی باقی رہ جانے والی زمینوں اور ایک باغ سے آتے تھے۔ مشرقی پاکستان سے آنے والے بعض لیڈروں کو واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی دینے پڑ جاتے تھے لیکن وہ سب کچھ خندہ پیشانی اور خوشی کے ساتھ برداشت کرتے تھے آخر کب تک مگر اس کے باوجود انھوں نے کسی حال میں بھی سیاست سے کچھ کمائی نہیں کی تھی۔ ایک مدت تک میرا سیاسی لوگوں سے قریبی رابطہ رہا اور کئی ایک کے حالات سے میں باخبر بھی رہا لیکن انھوں نے کبھی قرض تو لے لیا مگر چندہ نہیں لیا۔ چندے پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ مجلس احرار جو چندوں پر چلتی تھی اس جماعت کے لیڈر بھی بہت معمولی مالی حیثیت کے لوگ تھے اور جلسوں میں سرعام چندہ مانگا جاتا تھا۔
ایک بار سیالکوٹ کے جلسے میں خواجہ حسام الدین نے چندے کی اپیل کی تو ایک نوجوان نے اٹھ کر کہا کہ پہلے جو چندہ دیا تھا وہ کہاں گیا تو اس کے جواب میں خواجہ صاحب نے کہا کہ جس کسی کو چندے کا حساب مانگنا ہو وہ چندہ نہ دیا کرے۔ مسلم لیگ وغیرہ دولت مند اور صاحب ثروت لوگوں کی جماعتیں تھیں جن کے اخراجات لیڈر خود برداشت کرتے تھے، برسرعام چندہ نہیں مانگتے تھے۔ لیکن متوسط بلکہ نچلے درجے کے لوگوں کی ایک جماعت 'جماعت اسلامی' تھی وہ بھی چندے مانگا نہیں کرتی تھی اس کا جماعتی نظم خود سے اخراجات کا بندوبست کرتا تھا اور دفتر میں کام کرنے والوں کو تنخواہ ملتی تھی تا کہ وہ کسی مجبوری کی صورت میں کسی کے محتاج نہ رہیں۔
یہ تفصیل بہت طویل ہے کہ جماعتیوں نے اپنے اخراجات کیسے پورے کیے لیکن کرپشن قسم کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ سلسلہ ایوب خان کے بعد شروع ہوا جو اب عروج پر ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتیں صاف ستھری نہیں ہیں اور عوامی مسائل جوں کے توں ہیں لیکن اب پہلی بار ایک حکومت نے دہشت گردی کے عذاب الیم کے خلاف جہاد شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے پوری قوم پر امید ہے مگر یہ کام بہت ہی مشکل ہے اور اس کے پیچھے بہت کچھ ہے اگر قوم کو تیار کر لیا گیا ہو تو ہم اس عذاب کا مقابلہ کر لیں گے ورنہ شدید خطرہ ہے، ملک کی سلامتی اور بقا کو۔