ایک خطرناک موڑ

9/11 بذات خود دہشت گردی کی ایک اتنی بڑی واردات تھی جس نے ساری دنیا کو دہشت گردی سے واقف کرایا۔


Zaheer Akhter Bedari December 30, 2014
[email protected]

پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پہلی بار پوری قوم اس مسئلے پر متحد ہوگئی ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلی بار دہشت گردی کے خلاف ایک جامع اور مربوط آپریشن ہو رہا ہے۔ اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ حکمران طبقہ اور اپوزیشن کھل کر اور یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، فوج نے ضرب عضب آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ مزاحمتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں۔ اس آپریشن کے دوران اور اس سے پہلے فوج نے جانی قربانیاں دیں اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں پہلی بار مذہبی جماعتوں نے اپنے روایتی تحفظات سے باہر نکل کر غیر مشروط طور پر دہشت گردی کے خلاف اسٹینڈ لیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی عوام واقف ہیں، سانحہ پشاور کی وجہ سے ملک میں اس 67 سالہ ظلم کے نظام کے خلاف چلنے والی توانا تحریک کو معطل کردیا گیا ہے یہ بھی درست ہے۔لیکن جو سوال سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا فروغ کب سے شروع ہوا اور اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

پاکستان میں بیسیوں مذہبی جماعتیں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہیں، ان کا ایجنڈا بھی وہی ہے جو دہشت گردوں کا ہے لیکن پاکستان کی مذہبی جماعتیں جمہوری فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے ملک دہشت گردی کے کلچر سے بچا رہا۔ لیکن 9/11 کے سانحے نے صورت حال میں ایک مصنوعی تبدیلی پیدا کردی۔ امریکا کے سابق صدر بش جونیئرنے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی، اس کی اصل وجہ اس تضحیک کی نفی کرنا اور یہ ثابت کرنا تھا کہ دنیا کی واحد سپر پاور کاغذی شیر نہیں بلکہ اصلی شیر ہے لیکن اس جنگ کے شروع کرنے والوں کے پاس نہ کوئی وژن تھا نہ مناسب منصوبہ بندی نہ کوئی موثر حکمت عملی۔ جس کا نتیجہ ''کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا دس آنے'' کی شکل میں سامنے آیا۔

9/11 سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی خطرناک کلچر نہیں تھا۔ 9/11 بذات خود دہشت گردی کی ایک اتنی بڑی واردات تھی جس نے ساری دنیا کو دہشت گردی سے واقف کرایا۔ امریکی حکام نے اس واردات یا سانحے کے اسباب اور اس کا پس منظر سمجھنے اور ان اسباب کا خاتمہ کرنے کے بجائے جو 9/11 کے پیچھے تھے محض اپنی برتری دکھانے اور اپنی توہین کا ازالہ کرنے کے لیے ایک بے سمت و اینٹی دہشت گردی مہم کا آغاز کردیا۔ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار تھے صدر بش جونیئر نے جنرل پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم میں شامل ہوجائیں ورنہ۔۔۔۔ اسی نادر شاہی حکم کو ماننے کے علاوہ مشرف کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور اگر مشرف کے علاوہ پاکستان پر کسی اور کی حکومت بھی ہوتی تو وہ بھی وہی کرتی جو مشرف نے کیا۔ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ بھی اس مہم کی کامیابی کے لیے ضروری ملک تھا سو امریکا نے اسے فرنٹ لائن پر کھڑا کردیا۔

روس کو افغانستان سے نکالنے کی شاطرانہ جنگ کے آغاز کے لیے امریکا نے پاکستان میں جن دہشت گردوں کو پروان چڑھایا تھا اور دینی مدرسوں میں جن کی عسکری تربیت ہوئی تھی اب وہی دہشت گرد امریکا کے سامنے کھڑے تھے۔ افغانستان سے روس کو نکالنے میں پاکستان سمیت مختلف مسلم ملکوں کے جن دہشت گردوں نے کامیابی حاصل کی تھی 9/11 تک انھوں نے ساری دنیا میں اپنا نیٹ ورک پھیلالیا اور اسے مستحکم کرلیا تھا۔ وہ اس قدر پرعزم تھے کہ وہ دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ اسی یقین نے انھیں 9/11 جیسی بڑی کارروائی پر اکسایا تھا۔ دہشت گردوں کو جن کی قیادت اسامہ کر رہا تھا۔ امریکا کی اس جنگ میں پاکستان کی شمولیت پسند نہ تھی۔

اسامہ اینڈ کمپنی 9/11 کے بعد اس قدر پراعتماد ہوگئی تھی کہ اب ان کے سامنے صرف مسلمانوں خصوصاً فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوانا ہی نہیں تھا بلکہ وہ اب دنیا پر غالب آنے اور ساری دنیا پر اسلامی پرچم لہرانے کے خبط میں مبتلا ہوچکے تھے اور اسی مقصد کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔دہشت گردوں نے خودکش حملوں کا جو خطرناک ہتھیار تیار کرلیا تھا وہ اس قدر موثر تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی بھی اس ہتھیار کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ جہاں پرویز مشرف حکومت دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم کا حصہ بن گئے وہیں اس کا اینٹی تھیسس یہ آیا کہ پاکستان میں جو مذہبی جماعتیں نصف صدی تک جمہوریت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں اور ناکامی کا شکار ہوئیں، انھیں دہشت گردوں کی شکل میں ایک امید ہاتھ آگئی کہ ان کے مقصد کے حصول میں یہ دہشت گرد معاون ثابت ہوسکتے ہیں، اسی امید کے تحت پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت شروع کردی۔

اس حمایت کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ گئے۔اگر پاکستان کی مذہبی جماعتیں دہشت گردوں کے مقاصد اور ایجنڈے کو سمجھ لیتیں اور دہشت گردی کے خلاف کھڑی ہوتیں تو شاید صورتحال اس قدر خطرناک نہ ہوتی جو اب ہوگئی ہے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ ''بعد از خرابی بسیار خواجہ بیدار شد'' والا معاملہ ہوگیا۔

پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ متحد ہوکر اس بے لگام دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوجاتے لیکن افسوس کہ سیاسی مفادات نے انھیں اس قدر اندھا کردیا کہ 50 ہزار پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل، فوجی اور سول ہوائی اڈوں پر حملے، جی ایچ کیو جیسے اہم ادارے پر حملے وغیرہ کے باوجود ہمارے سیاستدان بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت کرتے رہے۔ نواز شریف اور عمران خان اس حوالے سے اس حد تک آگے چلے گئے کہ دہشت گردی کے مسئلے کا ان کے پاس واحد حل مذاکرات رہ گیا۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی سختی سے مخالفت کرتے رہے اور جو لوگ دہشت گردوں کے مقاصد کا اندازہ کرکے ان کے خلاف سخت آپریشن کی حمایت کر رہے تھے سیاسی اور مذہبی جماعتیں انھیں امریکا کے ایجنٹ کہنے لگیں۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کا المیہ یہ رہا کہ وہ بوجوہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ حفاظت بھی کرتی رہیں، اس غلطی یا حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد اس قدر بے لگام ہوگئے کہ آپریشن ضرب عضب کے جواب میں انھوں نے وہ حماقت کر ڈالی کہ ان کے پاکستانی سیاسی اور مذہبی حامیوں کے پاس ان کی حمایت کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔ 140 سے زیادہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کا بے دردانہ قتل خود دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہا ہے۔ آج سوائے مولوی عبدالعزیز اور اس کے چند حامیوں کے پاکستان کی کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت دہشت گردی اور دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرسکتی۔ اور ہر جماعت اور ہر رہنما انھیں حیوان اور بھیڑیے کے نام ہی سے یاد کررہا ہے۔

ہم نے کالم کے آغاز میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ کس طرح ہوا اور اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کا جواب ہم نے دینے کی کوشش کی ہے۔ آج ساری قوم سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں یہ بڑی اچھی اور حوصلہ افزا بات ہے لیکن جس عفریت کو ہم نے پالا پوسا ہے، اب بھی وہ اس قدر طاقتور ہے کہ حکومت اس کے دباؤ میں ہے۔ حکومت نے سزائے موت پانے والے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اور آخری دہشت گرد کی پھانسی تک جانے کے جس عزم کا اظہار کر رہی تھی اچانک یہ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے یا بہت سست رفتار ہوگیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد اب بھی اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ حکومت کے فیصلوں میں دخل اندازی کرسکتے ہیں۔ اس صورت حال کا ازالہ ضروری ہے ہم بحیثیت قوم ایک خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں، دیکھیے ہماری حکومت کیا کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔