مغرب کی معاشرتی ترقی
معاشرتی تباہی مغرب کا مقدر بن چکی ہے اور ہم ہیں کہ مغرب کے نقش قدم پر چل کر ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔
مجھ جیسے نہ جانے کتنے پاکستانی مغرب کی عصر حاضر کی تعمیر و ترقی کو حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور قوم مسلم کے لیے یہ خواب رکھتے ہیں کہ کاش ہم پاکستانی و مسلمان بھی ایسی ترقی کی منازل طے کریں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری یہ حسرت اور خواہش اپنی جگہ صد فی صد درست ہے؟
گزشتہ ہفتے میری ملاقاتیں ایک ایسے پاکستانی سے ہوئیں جو اقوام متحدہ کے ادارے میں ملازمت کے باعث برسوں سے دنیا بھر میں خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں وقت گزار چکے ہیں، ان ملکوں کی ترقی اور معاشرت کو قریب سے دیکھ چکے ہیں، آج کل جامعہ کراچی میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرانے کی تیاری کر رہے ہیں اس حوالے سے وہ اور ان کے کچھ دوست راقم کے پاس بھی صحبت کے لیے آ جاتے ہیں۔
میں نے ان صاحب کے مشاہدے اور تجربے کو دیکھتے ہوئے ایک سوال پوچھا کہ جناب مغرب کی مادی ترقی کی طرح کیا وہاں کا معاشرہ بھی مثالی اور ہمارے لیے بھی مثالی ہے؟ نیز کیا وہاں کے لوگ بھی اپنے معاشرے سے مطمئن ہیں؟
میرے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ''میں پہلے آپ کو ایک دو واقعات سناتا ہوں پھر جواب دوں گا تا کہ آپ جواب کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔''
میں نے اشتیاق سے کہا کہ ضرور سنائیے۔
یہ صاحب کہنے لگے کہ ہمارے اور مغربی معاشرے میں بڑا فرق ہے۔ ہم جب پاکستان میں اپنے دوستوں کی دعوت کرتے ہیں یا کسی کے گھر دعوت میں جاتے ہیں تو میزبان مختلف ڈشیں تیار کرتا ہے خاطر مدارت کرتا ہے لیکن مغربی معاشرے میں ایسا نہیں ہے وہاں جب ہم اپنے دوستوں یا جاننے والے کو دعوت پر مدعو کیا جاتا ہے تو جانے والے دوست از خود اپنا اپنا کھانا لے کر جاتے ہیں میزبان کھانے کا اہتمام نہیں کرتا ہے۔ راقم کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی لہٰذا دوبارہ دریافت کرنے پر بھی ان صاحب کا کہنا تھا کہ مغربی معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
بہرحال ایک اور واقعہ انھوں نے ایک خاتون کا سنایا۔ یہ خاتون ایک بزرگ خاتون تھی ان کے ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی برسوں پہلے ہو چکی تھی۔ ان خاتون نے بتایا کہ ان کی اپنے سگی اولاد سے کبھی کبھار ہی فون پہ بات ہوتی ہے اور آخری بار ان کی بات کوئی پندرہ سال قبل ہوئی تھی۔ ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب اس خاتون کو پتہ چلا کہ پاکستان میں لوگ صرف ماں باپ، بھائی بہن کے ساتھ ہی بیشتر وقت نہیں گزارتے بلکہ مختلف مواقعوں، تہواروں وغیرہ پر پھوپھی، نانی، دادا، دادی اور دیگر رشتے داروں کے گھر ملنے جاتے ہیں ۔
اس موقعے پر خصوصی طور پر پکوان تیار کیے جاتے ہیں، تو یہ خاتون انتہائی حیران ہوئی کہ پاکستانی لوگ اپنے رشتے داروں کو اس قدر زیادہ وقت دیتے ہیں۔ ایک روز اس خاتون نے ایک پاکستانی نوجوان کی گفتگو سن لی جو پاکستان میں اپنے کسی عزیز کو فون پر ہدایت دے رہا تھا کہ مہمانوں کے لیے دوپہر کے کھانے میں کیا کیا اور رات کے کھانے میں کیا کچھ تیار کرنا ہے۔ اس خاتون نے حیرت سے کہا کہ تم لوگ مہمان داری اور کھانے کی تیاری پر بہت وقت لگاتے ہو بڑی حیرت کی بات ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ہی رات کے کھانے کی تیاری کی باتیں کرنے لگتے ہو۔
بہرکیف ایسے ہی اور بھی بہت سے واقعات ہمیں اسی پاکستانی نوجوان نے سنائے اور مغربی اور پاکستانی معاشرے کے فرق کو پوری طرح ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا اور اس کے بعد کہا کہ اب میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ جیسا آپ نے سوال کیا بالکل ویسے ہی میں نے اس مغربی معاشرے کی خاتون سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ مغربی معاشرے کی موجودہ اقدار سے مطمئن ہے؟ اس خاتون کا جواب تھا کہ بالکل نہیں، دوسرا سوال اس خاتون سے پھر کیا کہ مغربی معاشرے کی اس خرابی کا ذمے دار کون ہے؟ اس خاتون کا جواب تھا کہ ہماری ترقی! اگر ہم یہ ترقی نہ کرتے تو ہمارا معاشرہ آج تباہی کے کنارے نہ پہنچتا۔
ان صاحب سے یہ داستان سننے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ جناب آپ مغربی معاشرے اور پاکستانی معاشرے میں سے کس کو بہتر سمجھتے ہیں؟ انھوں نے فوراً جواب دیا ہمارا معاشرہ مغرب سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
اس ساری گفتگو کے بعد اب میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر لازماً ہم جیسے غریب یا تیسری دنیا کے ممالک کے سیاستدان، رہنما اور لوگ جو اپنے اپنے ملکوں کو مغرب کا ہم پلہ بنانے ویسی ہی ترقی کرنے کا خواب دیکھتے یا دکھاتے ہیں اگر کبھی ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا تو ہمارے معاشرے کا کیا بنے گا؟ کیا ہمارا معاشرہ بھی ان صاحب اور مغربی خاتون کے کہنے کے مطابق اس قدر مادہ پرست اور کمرشل ہو جائے گا کہ والدین کو اولاد سے بات کرنے کے لیے پندرہ پندرہ سال انتظار کرنا پڑا کرے گا؟ اور رشتے دار تو دور کی بات بہن بھائیوں کے پاس بھی اس ترقی یافتہ کمرشل دنیا میں ایک دوسرے سے ملنے کا وقت نہ ہو گا؟ اور کبھی ایک دوسرے سے ملیں گے تو اپنا اپنا کھانا بھی ساتھ لے جانا پڑے گا؟
راقم نے ابھی تو مغربی معاشرے کی ان خرابیوں کا ذکر ہی نہیں کیا جو ذرایع ابلاغ کے توسط سے ہم تک پہنچ رہی ہیں ابھی تو صرف یہ بات ذہن میں ہتھوڑے برسا رہی ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ معاشرتی تباہی مغرب کا مقدر بن چکی ہے اور ہم ہیں کہ مغرب کے نقش قدم پر چل کر ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف زبان و انداز سے نہیں، لباس سے، سواری سے، طرز رہائش سے غرض ہر لحاظ سے مغرب کو قابل تقلید سمجھتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے تقلید کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ہمارے سیاستدان بھی مغرب کی مثالیں دے کر مستقبل کے خواب دکھلاتے ہیں حالانکہ یہی وہ وقت ہے کہ ہم مغرب کی اندھی نقالی کرنے کے بجائے ان کے تجربات سے استفادہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی کن خرابیوں نے یا کن راستوں نے مغربی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انسانی رشتوں کی اہمیت ہی کو ختم کر ڈالا ہے۔
ہم جو آج مغربی دنیا کو قابل تقلید سمجھتے ہیں تقلید کے اس انجام کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو اپنے معاشرے کو تباہ کرنے کی تیاری نہیں کر رہے ہیں؟ آئیے غور کریں۔
گزشتہ ہفتے میری ملاقاتیں ایک ایسے پاکستانی سے ہوئیں جو اقوام متحدہ کے ادارے میں ملازمت کے باعث برسوں سے دنیا بھر میں خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں اور یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں وقت گزار چکے ہیں، ان ملکوں کی ترقی اور معاشرت کو قریب سے دیکھ چکے ہیں، آج کل جامعہ کراچی میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرانے کی تیاری کر رہے ہیں اس حوالے سے وہ اور ان کے کچھ دوست راقم کے پاس بھی صحبت کے لیے آ جاتے ہیں۔
میں نے ان صاحب کے مشاہدے اور تجربے کو دیکھتے ہوئے ایک سوال پوچھا کہ جناب مغرب کی مادی ترقی کی طرح کیا وہاں کا معاشرہ بھی مثالی اور ہمارے لیے بھی مثالی ہے؟ نیز کیا وہاں کے لوگ بھی اپنے معاشرے سے مطمئن ہیں؟
میرے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ''میں پہلے آپ کو ایک دو واقعات سناتا ہوں پھر جواب دوں گا تا کہ آپ جواب کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔''
میں نے اشتیاق سے کہا کہ ضرور سنائیے۔
یہ صاحب کہنے لگے کہ ہمارے اور مغربی معاشرے میں بڑا فرق ہے۔ ہم جب پاکستان میں اپنے دوستوں کی دعوت کرتے ہیں یا کسی کے گھر دعوت میں جاتے ہیں تو میزبان مختلف ڈشیں تیار کرتا ہے خاطر مدارت کرتا ہے لیکن مغربی معاشرے میں ایسا نہیں ہے وہاں جب ہم اپنے دوستوں یا جاننے والے کو دعوت پر مدعو کیا جاتا ہے تو جانے والے دوست از خود اپنا اپنا کھانا لے کر جاتے ہیں میزبان کھانے کا اہتمام نہیں کرتا ہے۔ راقم کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی لہٰذا دوبارہ دریافت کرنے پر بھی ان صاحب کا کہنا تھا کہ مغربی معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
بہرحال ایک اور واقعہ انھوں نے ایک خاتون کا سنایا۔ یہ خاتون ایک بزرگ خاتون تھی ان کے ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی برسوں پہلے ہو چکی تھی۔ ان خاتون نے بتایا کہ ان کی اپنے سگی اولاد سے کبھی کبھار ہی فون پہ بات ہوتی ہے اور آخری بار ان کی بات کوئی پندرہ سال قبل ہوئی تھی۔ ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب اس خاتون کو پتہ چلا کہ پاکستان میں لوگ صرف ماں باپ، بھائی بہن کے ساتھ ہی بیشتر وقت نہیں گزارتے بلکہ مختلف مواقعوں، تہواروں وغیرہ پر پھوپھی، نانی، دادا، دادی اور دیگر رشتے داروں کے گھر ملنے جاتے ہیں ۔
اس موقعے پر خصوصی طور پر پکوان تیار کیے جاتے ہیں، تو یہ خاتون انتہائی حیران ہوئی کہ پاکستانی لوگ اپنے رشتے داروں کو اس قدر زیادہ وقت دیتے ہیں۔ ایک روز اس خاتون نے ایک پاکستانی نوجوان کی گفتگو سن لی جو پاکستان میں اپنے کسی عزیز کو فون پر ہدایت دے رہا تھا کہ مہمانوں کے لیے دوپہر کے کھانے میں کیا کیا اور رات کے کھانے میں کیا کچھ تیار کرنا ہے۔ اس خاتون نے حیرت سے کہا کہ تم لوگ مہمان داری اور کھانے کی تیاری پر بہت وقت لگاتے ہو بڑی حیرت کی بات ہے کہ دوپہر کے کھانے پر ہی رات کے کھانے کی تیاری کی باتیں کرنے لگتے ہو۔
بہرکیف ایسے ہی اور بھی بہت سے واقعات ہمیں اسی پاکستانی نوجوان نے سنائے اور مغربی اور پاکستانی معاشرے کے فرق کو پوری طرح ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا اور اس کے بعد کہا کہ اب میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ جیسا آپ نے سوال کیا بالکل ویسے ہی میں نے اس مغربی معاشرے کی خاتون سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ مغربی معاشرے کی موجودہ اقدار سے مطمئن ہے؟ اس خاتون کا جواب تھا کہ بالکل نہیں، دوسرا سوال اس خاتون سے پھر کیا کہ مغربی معاشرے کی اس خرابی کا ذمے دار کون ہے؟ اس خاتون کا جواب تھا کہ ہماری ترقی! اگر ہم یہ ترقی نہ کرتے تو ہمارا معاشرہ آج تباہی کے کنارے نہ پہنچتا۔
ان صاحب سے یہ داستان سننے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ جناب آپ مغربی معاشرے اور پاکستانی معاشرے میں سے کس کو بہتر سمجھتے ہیں؟ انھوں نے فوراً جواب دیا ہمارا معاشرہ مغرب سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
اس ساری گفتگو کے بعد اب میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر لازماً ہم جیسے غریب یا تیسری دنیا کے ممالک کے سیاستدان، رہنما اور لوگ جو اپنے اپنے ملکوں کو مغرب کا ہم پلہ بنانے ویسی ہی ترقی کرنے کا خواب دیکھتے یا دکھاتے ہیں اگر کبھی ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا تو ہمارے معاشرے کا کیا بنے گا؟ کیا ہمارا معاشرہ بھی ان صاحب اور مغربی خاتون کے کہنے کے مطابق اس قدر مادہ پرست اور کمرشل ہو جائے گا کہ والدین کو اولاد سے بات کرنے کے لیے پندرہ پندرہ سال انتظار کرنا پڑا کرے گا؟ اور رشتے دار تو دور کی بات بہن بھائیوں کے پاس بھی اس ترقی یافتہ کمرشل دنیا میں ایک دوسرے سے ملنے کا وقت نہ ہو گا؟ اور کبھی ایک دوسرے سے ملیں گے تو اپنا اپنا کھانا بھی ساتھ لے جانا پڑے گا؟
راقم نے ابھی تو مغربی معاشرے کی ان خرابیوں کا ذکر ہی نہیں کیا جو ذرایع ابلاغ کے توسط سے ہم تک پہنچ رہی ہیں ابھی تو صرف یہ بات ذہن میں ہتھوڑے برسا رہی ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ معاشرتی تباہی مغرب کا مقدر بن چکی ہے اور ہم ہیں کہ مغرب کے نقش قدم پر چل کر ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف زبان و انداز سے نہیں، لباس سے، سواری سے، طرز رہائش سے غرض ہر لحاظ سے مغرب کو قابل تقلید سمجھتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے تقلید کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ہمارے سیاستدان بھی مغرب کی مثالیں دے کر مستقبل کے خواب دکھلاتے ہیں حالانکہ یہی وہ وقت ہے کہ ہم مغرب کی اندھی نقالی کرنے کے بجائے ان کے تجربات سے استفادہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی کن خرابیوں نے یا کن راستوں نے مغربی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انسانی رشتوں کی اہمیت ہی کو ختم کر ڈالا ہے۔
ہم جو آج مغربی دنیا کو قابل تقلید سمجھتے ہیں تقلید کے اس انجام کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو اپنے معاشرے کو تباہ کرنے کی تیاری نہیں کر رہے ہیں؟ آئیے غور کریں۔