انقلاب کیوبا کی سالگرہ
یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سماج میں انقلاب کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرنے والوں کی زندگی میں بھی انقلاب نہ آئے۔
انقلاب نہ تو کسی کی فرمائش پر آتا ہے نہ ہی انقلاب باہر سے آتا ہے بلکہ کسی بھی سماج کے معروضی حالات و واقعات اس سماج میں انقلاب برپا ہونے کے وقت کا تعین کرتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انقلاب برپا ہونے میں پانچ دس یا پندرہ برس لگ جائیں یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سماج میں انقلاب کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرنے والوں کی زندگی میں بھی انقلاب نہ آئے مگر ایک سچے انقلابی کا اس امر پر پورا یقین ہوتا ہے کہ انقلاب آئے گا ضرور۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ زار شاہی روس میں چودہ لاکھ لوگ انقلاب برپا نہ کر سکے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 81 افراد انقلاب لانے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ چمتکار کیوبا میں ہوا یہی میری آج کی گفتگو کا موضوع ہے۔ یعنی انقلاب کیوبا یہ انقلاب برپا کرنے والے تھے فیڈل کاسٹرو۔ جو 13 اگست 1926ء کو کیوبا کے مشرقی صوبے اورینٹ کے علاقے بیرال میں پیدا ہوئے، چھ بہن بھائیوں میں فیڈل کاسٹرو کا تیسرا نمبر ہے ان کی تین بہنوں کے نام انجلینا، ایماء اور اکسٹینا۔ جب کہ ایک بھائی رامون ان سے 2 برس بڑے ہیں جب کہ راہل کاسٹرو کیوبا کے موجودہ صدر ان سے پانچ برس چھوٹے ہیں۔ فیڈل کاسٹرو سمیت پانچ بہن بھائی زندگی کی بہاریں دیکھ رہے ہیں جب کہ ایک بہن نجلینا 28 فروری 2012ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ وصال کے وقت انجلینا کی عمر 88 برس تھی۔
فیڈل کاسٹرو نے طبقاتی لڑائی کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور اپنے باپ کی زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں کی ہڑتال منظم کی کیونکہ فیڈل کاسٹرو کا باپ ان مزارعین کا استحصال کرتا تھا۔ اس وقت فیڈل کاسٹرو کی عمر فقط 18 برس تھی یہ ذکر 1944ء کا ہے جب کہ اگلے برس یعنی 1945ء میں 19 سالہ فیڈل کاسٹرو نے کیوبا میں انقلاب کے لیے کام کرنے والی قوتوں سے رابطے شروع کر دیے اور 1946ء میں ملک میں پھیلی بد عنوانی کے خلاف ایک یادگار تقریر کی اور اپنی شعلہ بیانی کا خوب مظاہرہ کیا۔ 1947ء وہ برس تھا جب فیڈل کاسٹرو نے نیو سوشلسٹ پارٹی و پاپولر سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اسی برس فیڈل کاسٹرو نے وینز ویلا پاناما اور کولمبیا کے انقلابی نوجوانوں سے رابطے کے لیے ان ممالک کے دورے کیے۔
1948ء میں 22 سالہ فیڈل کاسٹرو نے کارل مارکس اینگلس لینن کی انقلابی تحریروں کا خوب مطالعہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے کیونکہ کیوبا میں جاری جاگیرداری و سرمایہ داری نظام میں کیوبن عوام کے مسائل کا حل ممکن نہ تھا۔ 1948ء میں ہی اس وقت کی حکومت نے بسوں کے کرایوں میں اضافہ کر دیا جس کے خلاف فیڈل کاسٹرو نے اس احتجاج کی قیادت کی جو ملک بھر میں کیا جا رہا تھا۔ آنے والے پانچ برس فیڈل کاسٹرو نے ملک بھر میں انقلابی قوتوں کو یکجا کرنے میں گزارے۔ اب دور آتا ہے 1953ء کا جب 27 سالہ فیڈل کاسٹرو اپنے ارد گرد 165 انقلابی اکھٹے کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ فیڈل کاسٹرو نے اس امر کا پورا خیال رکھا تھا کہ ان کا کوئی بھی کامریڈ کسی بچے کا باپ نہ ہو ان انقلابیوں میں فیڈل کاسٹرو واحد انقلابی تھے جوکہ شادی شدہ بھی تھے اور صاحب اولاد بھی تھے۔
فیڈل کاسٹرو کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک صدی قبل کیوبا میں انقلابی عمل کا آغاز کرنے والے ایک انقلابی رہنما جوزے مارٹی کے جانشین ہیں۔ چنانچہ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ اس دعوے کا حق ادا کیا جاتا۔ طویل ترین بحث مباحثے و مشاورت کے بعد 26 جولائی 1953ء کو ایک مقام مونکاڈو میں فوجی بیرکوں پر حملے سے انقلاب کا آغاز کیا گیا جس میں فیڈل کاسٹرو کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مہم میں فیڈل کاسٹرو کی دونوں ٹانگیں بھی ٹوٹ گئیں اور وہ گرفتار بھی ہو چکے تھے جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت میں فیڈل کاسٹرو نے دیگر باتوں کے علاوہ ایک تاریخ ساز جملہ بھی ادا کیا کہ ''تاریخ مجھے بے قصور ثابت کرے گی۔'' بعد ازاں یہ جملہ سرکاری دستاویز کی شکل اختیار کر گیا اس مقدمے میں فیڈل کاسٹرو کو ایک برس اسیری کی زندگی بسر کرنا پڑی جب کہ ان کے دیگر ساتھی یا گرفتار ہو گئے یا روپوش ہو کر دیگر ممالک میں منتقل ہو گئے۔
چند ساتھی گوئٹے مالا بھی چلے گئے مگر ان سب میں ایک بات مشترک تھی یہ لوگ جہاں بھی رہتے کہلاتے 26 جولائی والے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ذکر آ چکا ہے ان لوگوں نے 26 جولائی 1953ء کو کیوبا میں انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ رہائی کے بعد فیڈل کاسٹرو نے جلاوطنی اختیار کی اور میکسیکو تشریف لے گئے۔ اس تمام عمل میں ان کا چھوٹا بھائی روہل کاسٹرو کیوبا کا موجودہ صدر فیڈل کاسٹرو کا ہم قدم رہا جب کہ 1955ء میں ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والا مشہور انقلابی ارنسٹو چی گویرا اپنی محبوبہ ہلڈ گوڈیہ کے ساتھ فیڈل کاسٹرو سے آ ملا یہ پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے، میکسیکو قیام کے دوران ہی ارنسٹو چی گویرا اور ہلڈ گوڈیہ کی شادی انجام پائی۔
فیڈل کاسٹرو نے چی گویرا کے سرپرست کے فرائض ادا کیے اب بقول ہلڈ گوڈیہ کے یہ لوگ پوری پوری شب انقلاب پر باتیں کرتے رہتے بالآخر طویل منصوبہ بندی و انقلاب کے لیے حکمت عملی طے کرنے کے بعد 25 نومبر 1956ء کو فیڈل کاسٹرو، روہل کاسٹرو، چی گویرا کے ساتھ ساتھ 78 دیگر انقلابی کیوبا کے لیے روانہ ہوئے ان لوگوں نے بذریعہ لانچ سمندری راستہ اختیار کیا۔ چی گویرا بہ حیثیت ڈاکٹر اس مہم میں شریک ہوا تھا یہ لوگ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ہر قسم کے خطرات سے بے نیاز آگے بڑھتے رہے اس سفر میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا چی گویرا کو کرنا پڑا کیوں کہ وہ دمے کا مریض تھا۔ تین مشین گنیں، 90 رائلفیں و دستی ٹینک شکن گنیں ان کے پاس تھیں۔ کیوبا میں داخل ہوتے ہی ان لوگوں نے گوریلا جنگ کا آغاز کر دیا۔ یہ لڑائی شہر شہر، گاؤں گاؤں، کھیتوں کھلیانوں، پہاڑوں، ملوں فیکٹریوں تک میں لڑی گئی یہ گوریلا جنگ تھی۔
جس کا جنرل بتستا کی فوجوں کو تجربہ نہ تھا۔ یہ جنگ دو برس پر محیط رہی اس جنگ کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب فیڈل کاسٹرو کے ہمراہ فقط 19 انقلابی موجود تھے باقی سب جنگ کی نذر ہو چکے تھے ممکن تھا کہ اس موقعے پر جنگ روک دی جاتی مگر اس موقعے پر چی گویرا کے ان الفاظ نے سب کا لہو گرما دیا کہ انقلاب جد وجہد میں فتح ہوتی ہے یا موت، انقلابیوں کا مقدر بنتی ہے جنگ جاری رہے گی۔ 1958ء کے دوسرے حصے میں سرکاری فوجوں نے ہتھیار ڈالنے کا عمل شروع کر دیا اور بالآخر 31 دسمبر 1958ء شب بتستا نے حکومت سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا۔ یوں جب 1959ء کا سورج طلوع ہوا تو کیوبا بھر میں انقلاب کی خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے۔ 1959ء میں فیڈل کاسٹرو نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ 1961ء میں فیڈل کاسٹرو نے کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا کے فرسٹ سیکریٹری کا منصب بھی سنبھال لیا۔ جب کہ 1976ء میں فیڈل کاسٹرو نے کیوبا کی صدارت بھی قبول کر لی۔ 49 برس تک اعلیٰ حکومتی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔
2008ء میں وزارت عظمیٰ و صدارت سے دست بردار ہو گئے۔ 2011ء میں پارٹی رکنیت بھی ختم کر لی۔ اب فیڈل کاسٹرو اپنے گاؤں میں سرگرم زندگی گزار رہے ہیں جب کہ انقلاب کے بعد جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ کیوبا اپنے تمام باشندوں کو بلا تفریق مفت تعلیم دیتا ہے تعلیم کے حصول کے دوران تمام قسم کی اسٹیشنری کتابیں و دوپہر کا کھانا مفت دیاجاتا ہے یہ تمام سہولیات بیرونی ممالک سے حصول تعلیم کے لیے آنے والوں کو بھی حاصل ہیں جن میں پاکستانی طلبا بھی شامل ہیں یہی سبب ہے کہ کیوبا میں شرح خواندگی 99.8 فی صد ہے یوں بھی کیوبا کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم کے حساب سے اولین ہیں تمام شہریوں کو علاج کی سہولیات دستیاب ہیں ۔
جس کے باعث کیوبن لوگوں کی اوسط عمر 78 برس ہے جب کہ ہر 1040 افراد پر ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ تمام شہریوں کو سرکاری اسٹور سے خور و نوش تمام اشیا کم داموں ملتی ہیں خوراک کے معاملے میں کیوبا خود کفیل ہے ٹماٹر، چاول، سبزیاں،گوشت وغیرہ کی خوب پیداوار ہوتی ہے کیوبا کی تیل کی ضروریات روس و وینزویلا سے پوری کی جاتی ہیں اس کے علاوہ کیوبن شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہر قسم کے ادارے قائم ہیں جو شب و روز مصروف عمل ہیں۔ یہ تمام ثمرات انقلاب کے مرہون منت ہیں۔