آنسوئوں کی آگ

جب ٹمبر مارکیٹ میں ایک مہینہ پہلے آگ لگی تو کسی کو ہوش نہیں آیا کہ دوسری دکانوں کو محفوظ بنانے کا انتظام کیا جائے۔

muhammad.anis@expressnews.tv

آگ آسمان کو چھو رہی تھی جسے بجھانے کے لیے حکومت کے پاس پانی نہیں تھا مگر ایک نظر بس ایک سچی نظر اُن آنکھوں پر ڈال دیتے جو سڑک پر اپنا گھر جلتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ اگر حکمرانوں کی آنکھوں میں شرم ہوتی تو فٹ پاتھ پر بیٹھی اُس ماں کی آنکھوں سے نکلتا ہوا آنسو دیکھ لیتی جس کے سامنے اُس کی بیٹی کا جہیز جل رہا تھا ۔

سیکڑوں آنکھوں سے نکلنے والا پانی بھی حکومت کو شرم نہ دلا سکے تو پھر اُس جلتی ہوئی آگ میں لکڑی کی جگہ کسے ڈال دینا چاہیے؟ میں نے اپنی آنکھوں سے قیامت کا منظر دیکھا ہے۔ میرے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی، میں شرم سے پانی پانی ہو گیا جب اُس آگ کے قریب سے گزرا اور سوچا کہ حکمران کیسے ہیں جو اس آگ کو دیکھتے ہوئے بھی دوزخ کی آگ کو بھول گئے ہیں ٹمبر مارکیٹ والوں کی ہمت اور صبر کو داد دیجیے جنھوں نے اپنے گھر اور دکانوں کو تباہ ہوتے دیکھا۔ آنسوؤں کا سلسلہ آنکھوں سے جاری تھا۔ مگر فوٹو سیشن کرانے کے لیے آنے والوں کو انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیں اگر وہ اس آگ میں لاپرواہی کرنے والی انتظامیہ کو ڈال دیتے تو کیا ہوتا؟ مگر وہ اپنے بچوں کی روٹی پر سیاست ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔

ہر طرف سے آذانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہر طرف ماتم تھا۔ ہر کوئی اپنے رشتے داروں کی تلاش میں تھا۔ کوئی اپنی زندگی بھر کی کمائی کو جلتا دیکھ کر اپنا دل پکڑ کر بیٹھا تھا تو اُس کے اردگرد موجود لوگ اُسے تسلی دے رہے تھے۔ صبح 4 بجے جب پورا پاکستان اور خصوصا ہمارے حکمران سو رہے تھے اُس وقت صدیق وہاب روڈ، نشتر روڈ اور سومرو گلی میں عورتیں چیخیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ روز کی بنیاد پر 500 روپے کمانے والے چھوٹے دکاندار حسرت بھری نگاہوں سے آگ بجھانے والے عملے کو دیکھ رہے تھے جو بہت دیر سے آیا۔ آگ لگنے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد تک صرف اور صر ف تین گاڑیاں آئی تھی۔

میں نے بھی فائر اسٹیشن فون کیا کہ براہِ مہربانی کچھ رحم کریں لیکن کسی نے نہ سُنی۔ یہ وہ ہی علاقہ ہے جس سے چند سو میٹر کے فاصلے پر فائر بریگیڈ کا سینٹرل آفس ہے جب اتنے فاصلے پر آگ بجھانے والا عملہ اتنی لاپرواہی کرتا ہے تو اس دو کروڑ کے شہر میں وہ کیا کارنامہ کرے گا۔ آگ لگتی رہے گی۔ لوگوں کا جانی مالی نقصان ہوتا رہے گا اور حکومت بس دلاسے دیتی رہی گی۔ زیادہ دور مت جائیں ابھی ایک مہینہ ہی نہیں گزرا کہ اسی علاقے میں چار گوداموں کو آگ لگی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آنکھیں بند رکھی گئیں۔ ایک بار پھر انتظار کیا گیا کہ جب تک سب کچھ جل کر خاک نہیں ہو جائے گا ہم کچھ نہیں کریں گے اور واقعی انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ اب کوئی مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے تو کوئی دلاسے کی باتیں کر رہا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو امداد دینے والی یہ مارکیٹ کے دکانداروں کو آج حکومت امداد اور بھیک دینے کی باتیں کر رہی ہے۔ ابھی آنکھیں خشک بھی نہیں ہوئیں کہ ایک دن کے فرق سے آگ نے اب لاہور کا رخ کیا۔ لمحوں میں یہ آگ 12 لوگوں کی جانوں کو نگل گئی۔

جب ٹمبر مارکیٹ میں ایک مہینہ پہلے آگ لگی تو کسی کو ہوش نہیں آیا کہ دوسری دکانوں کو محفوظ بنانے کا انتظام کیا جائے۔ اور جب پوری ٹمبر مارکیٹ جل گئی تو پورے ملک میں کسی کی نیند خراب نہیں ہوئی کہ اب کم سے کم اپنے گھروں کو محفوظ کر لیا جائے اور پھر لاہور میں سانحہ پیش آ گیا۔ کیا ہم سب اپنی تباہی اور اپنی بربادی کا انتظار کرتے ہیں؟ اُس سے پہلے کسی کو کوئی انتظام نہیں کرنا ہے۔ حکومت اور سیاست دان بس ہمارے جنازوں پر سیاست چمکانے کے لیے ہیں؟ قوانین اور انسانی حقوق کی جو باتیں ہماری کتابوں میں لکھی ہیں وہ بس کیا ایک سیاسی نعرہ ہے۔ کراچی میں جس مارکیٹ میں آگ لگی وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ کہلاتا ہے۔ یہ لیاری ہے۔ لیکن جب سب جل کر راکھ ہو گیا تو مارکیٹ کے دروازے پر ریلیف کیمپ لگا دیا گیا۔


پوری رات یہ کیمپ لگا کر سیاست کرنے والے کہا ں تھے جب عورتیں اپنے بچوں کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ لوگ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو تلاش کر رہے تھے۔ ایک جنریٹر تک کا انتظام پوری رات میںنہ ہو سکا۔ اب یہ ریلیف کیمپ کس کام کا تھا۔ بس حکومت کا کام یہ ہے کہ دہشت گردی ہو جائے اُس کے بعد صرف تصویریں کھنچانے کے لیے بیانات اور وعدے۔ کوئی سانحہ رونما ہو جائے اُس کے بعد ایک ریلیف کیمپ۔ اُس سے پہلے کا کوئی کام نہیں ہے۔ اُس سے پہلے لوگوں کو دہشت گردی سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ اُسے سے پہلے ٹمبر مارکیٹ اور انارکلی جیسے سانحات کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ حادثہ تھی اور وجہ جو بتائی جا رہی ہے وہاں بہت زیادہ بجلی کے کنڈے ہیں۔ تو یہ کنڈے ختم کرانا کس کی ذمے داری ہے؟ پیسے لے کر ان بجلی کے کنڈوں کو کون تحفظ فراہم کر رہا ہے؟ آگ لگنے کے گھنٹوں بعد کیوں انتظامیہ فعال ہوئی؟ کیا انتظامیہ کے پاس کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو فوری طور پر کسی حادثے سے نمٹ سکے۔ میں خود اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ آگ بجھانے والے کارکنان کے پاس ایسا لباس تک نہیں تھا جو وہ قریب جا کر آگ بجھا سکیں۔ ان کے پاس کوئی سہولت نہیں تھی۔

یہ وہ ہی علاقہ ہے جو انگریزوں کے زمانے سے آباد ہے یہ مارکیٹ نئی نہیں بلکہ اسے 100 سال ہو چکے ہیں۔ یہاں وہ آبادی رہتی ہے جنھوں نے کراچی آباد کیا۔ یہاں کی اکثریت کچھی ہے۔ جو سب سے پرانے کراچی کے باسی ہیں اور اسی علاقے میں انگریزوں نے زیر زمین ایک پانی کی لائن اس لیے بنائی تھی کہ اگر خدانخواستہ آگ لگ جائے تو اُسے بجھایا جا سکے۔ ایک عام محاورہ کراچی میں کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں سڑکیں دھُلا کرتی تھی۔ جب کہ کراچی کے پرانے شہریوں کے مطابق اصل میں ہر ہفتے انگریز سرکار اُن پانی کی لائنوں کی جانچ کرتی تھی جو ایمرجنسی آگ بجھانے کے لیے بچھائی گئی تھیں۔

مگر انگریزوں کا وہ نظام بھی تباہ کر دیا گیا۔ مان لیتے ہیں کہ گلیاں تنگ تھیں اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اندر نہیں جا سکتی تھیں۔ پہلی بات یہ کہ ہمارے یہاں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جس نے کسی علاقے کا اچھی طرح سروے کیا ہو اور اُسے معلوم ہو کہ کسی بھی حادثے کی صورتحال میں کیا کرنا ہے۔ آگ بجھانے والا عملہ 2 گھنٹے تک تو یہی سوچتا رہا ہے کہ اُسے کرنا کیا ہے۔ اتنی جگہ ضرور موجود تھی جہاں سے آگ پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ لیکن اپنی نااہلی، غفلت اور کوتاہی کو وہ وہاں کے دکانداروں کے سر پر ڈال کر اپنے ہاتھ جھاڑنا چاہتی ہے۔

ہونا کیا چاہیے۔ سب سے پہلے اُن دکانداروں اور رہائشی افراد کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پورے ملک میں سروے کیا جائے کہ کہاں کہاں کسی حادثے کی صورت میں کون کون سے انتطامات کیے جا سکتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔ اور اب خدا کے واسطے انتظامیہ کو بہتر کیا جائے۔ کراچی ہو یا لاہور یا پھر گوجرانوالہ وہاں کی آبادی کے مطابق وہاں کے ریسکیو کے نظام کو درست کیا جائے۔ میری ایک بات یاد رکھیے گا آج ان کے گھر اور دکانیں جلی ہیں۔ آج لاہور میں قیمتی جانیں گئیں ہیں۔ اور اس آگ نے عام شہریوں کو نقصان دیا ہے یہ لوگ براہ راست آج کے نمرود ہیں جو اپنی لاپرواہی، اور کوتاہی سے لوگوں کو آگ میں جلا رہے ہیں مگر قیامت کے دن ان معصوموں کی آنکھ سے نکلا ہوا آنسو ہولناک آگ کی صورت میں ہو گا جس میں آج کے تمام نمرود جل رہے ہوں گے اور یاد رکھیں وہاں آپ جیسے نمرودوں کے لیے ریلیف کیمپ بھی نہیں ہو گا۔
Load Next Story