غیر معمولی حالات غیر معمولی فیصلے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ خصوصی عدالتوں کے ذریعے دہشتگردوں کو سزائیں دلوائیں گے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ خصوصی عدالتوں کے ذریعے دہشتگردوں کو سزائیں دلوائیں گے اور سنگین جرائم کے مجرموں، معصوم بچوں، شہریوں اور فوجی جوانوں کے قتل کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں گے لیکن مقدمات کو خصوصی عدالتوں میں بھیجنے سے قبل مکمل جانچ پڑتال ہوگی۔
قومی سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا خصوصی عدالتیں نیشنل پلان کا حصہ اور غیر معمولی مسئلے کا غیرمعمولی حل ہیں۔ 6گھنٹے طویل اجلاس میں وفاقی وزرأ خواجہ آصف، اسحاق ڈار، پرویز رشید، چوہدری نثار، احسن اقبال، عبدالقادر بلوچ، سرتاج عزیز، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈی جی ملٹری آپریشنز سمیت دیگر سینئر حکام نے شرکت کی ۔
ملک کو ہلاکت خیز دہشتگردی اور اس کے نیٹ ورک سے منسلک عفریت نما تنظیموں اور انتہا پسند تحریکوں سے نجات دلانے کے لیے بلاشبہ تاریخ نے حکمرانوں کو سخت آزمائش اور دانشمندی و تدبر کے غیر معمولی امتحان میں ڈالا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے جس جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ایک بحث جاری ہے وہ اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں سیاسی اور آئینی ماہرین اس بارے میں بعض ایسے تحفظات اور خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔حکومت 20 نکاتی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا پختہ تہیہ کے ہوئے ہے، جب کہ بعض سیاسی رہنما اور سینیٹرز کا انداز نظر یہ ہے کہ فوجی عدالتیں بنانے کے لیے حالات مجبور کر رہے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے بارے میں سب سیاسی جماعتوں کے تحفظات تھے مگر سب نے اس پر اتفاق کیا تھا ۔تاہم یہ بہت حساس اوراہم معاملہ ہے ۔ مگر اس استدلال کے جواب میں کہ فوجی عدالتیں اس وجہ سے بنائی جا رہی ہیں کیونکہ ہماری عدالتیں ڈلیور نہیں کر سکیں ، ہم حالت جنگ میں ہیں اس وقت اسپیڈی کورٹس بنانا بہت ضروری ہے ، بعض آئینی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کی رائے یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا اقدام جمہوری روح اور آئین کے بنیادی ڈھانچہ سے ہرگز متصادم نہ ہو ۔ مزید برآں حکمرانوں کو پھانسی کیسز پر عملدرآمد کے ضمن میں سختی سے قائم رہنے اور اقوام متحدہ کی اپیل کو مسترد کرنے کے عالمی مضمرات کا بھی ادراک کرنا چاہیے۔
بعض تجزیہ کار فوجی عدالت یا اسپیڈی ٹرائل کورٹس کو 'دستۂ اجل برائے انصاف' کے معنوں میں لے رہے ہیں، ملک کی بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ آئین میں عمل کے لیے سب کچھ موجود ہے کسی مسودہ قانون یا ترمیم کی ضرورت نہیں، اگر عدالتیں دہشت گردی سے نمٹنے میں غیر موثر ہیں تو متوازی عدالتی نظام لانے کے بجائے موجودہ عدالتی نظام کی فوری اصلاح پر توجہ دی جائے ۔ ادھر وزارت قانون نے انسداد دہشتگردی کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق نئی آئینی ترمیم کے بجائے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کی تجویز پیش کر دی ہے۔
وزارت قانون نے آئینی کمیٹی کو کہا ہے کہ کمیٹی وزارت قانون کی رائے لینے کے بجائے اپنے طور پر ڈرافٹ فائنل کرے اور کمیٹی اپنے طور پر پلان آف ایکشن وزارت قانون کو بتا دے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو تو اس کے بعد وزارت قانون اس ڈرافٹ کی روشنی میں حتمی مسودہ قانون پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کر دیگی ۔ یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر مجوزہ اسپیڈی ٹرائل کورٹس کے قیام کے حوالے سے مختلف جماعتوں کے تحفظات کو وفاقی وزراء اسحاق ڈار، چوہدری نثار اور پرویز رشید دور کریں گے ، جب کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ نیکٹا غیرملکی این جی اوز کے ذریعے دہشتگردوں کو ہونے والی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے ، اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور بلا تاخیر ایکشن لیا جائے، دہشتگردوں کو اندرون و بیرون ملک سے ہونے والی فنڈنگ روکنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوںکو مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے ۔
امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن کا قول تھا کہ ''امریکا کو کوئی باہر سے تباہ نہیں کریگا ، اگر ہم نے غلطی کی ، اپنی آزادی سے محروم ہوئے تو ہم اندر سے برباد ہونگے ۔اس لیے میں اپنے دشمنوں کو تباہ کرتا ہوں جب انھیں دوست بنا لیتا ہوں ۔'' تدبر و تحمل، وژن اور افہام و تفہیم کی اس غیر معمولی سطح پر ارباب اختیار کو دیکھنے کی تمنا قوم کے دل میں بھی ہے ، اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی ، جنگ و تباہ کاریوں کے اس الم ناک مرحلے میں ہماری جمہوری اور قومی ساکھ بھی اس کمال کو پہنچ جائے کہ عوام بھی چرچل کی طرح اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اگر ہماری عدالتیں ، پارلیمنٹ اور ریاستی ادارے بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں تو مادر وطن کو کسی بات کا غم نہیں ۔دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں جیت قوم کی ہی ہوگی تاہم فتح کی یہ منزل ٹھوس عمل سے ہی مل سکے گی اس لیے عدلیہ کے کردار ، حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی عزم و اتحاد اور دشمن سے نمٹنے کے لیے سیاست دانوں کو تاریخی فیصلے کرنے ہونگے اور تن من دھن لگا کر بازی جیتنی ہوگی ۔
قومی سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا خصوصی عدالتیں نیشنل پلان کا حصہ اور غیر معمولی مسئلے کا غیرمعمولی حل ہیں۔ 6گھنٹے طویل اجلاس میں وفاقی وزرأ خواجہ آصف، اسحاق ڈار، پرویز رشید، چوہدری نثار، احسن اقبال، عبدالقادر بلوچ، سرتاج عزیز، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈی جی ملٹری آپریشنز سمیت دیگر سینئر حکام نے شرکت کی ۔
ملک کو ہلاکت خیز دہشتگردی اور اس کے نیٹ ورک سے منسلک عفریت نما تنظیموں اور انتہا پسند تحریکوں سے نجات دلانے کے لیے بلاشبہ تاریخ نے حکمرانوں کو سخت آزمائش اور دانشمندی و تدبر کے غیر معمولی امتحان میں ڈالا ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے جس جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ایک بحث جاری ہے وہ اس اعتبار سے مستحسن ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا میں سیاسی اور آئینی ماہرین اس بارے میں بعض ایسے تحفظات اور خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔حکومت 20 نکاتی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا پختہ تہیہ کے ہوئے ہے، جب کہ بعض سیاسی رہنما اور سینیٹرز کا انداز نظر یہ ہے کہ فوجی عدالتیں بنانے کے لیے حالات مجبور کر رہے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے بارے میں سب سیاسی جماعتوں کے تحفظات تھے مگر سب نے اس پر اتفاق کیا تھا ۔تاہم یہ بہت حساس اوراہم معاملہ ہے ۔ مگر اس استدلال کے جواب میں کہ فوجی عدالتیں اس وجہ سے بنائی جا رہی ہیں کیونکہ ہماری عدالتیں ڈلیور نہیں کر سکیں ، ہم حالت جنگ میں ہیں اس وقت اسپیڈی کورٹس بنانا بہت ضروری ہے ، بعض آئینی ماہرین اور سیاسی جماعتوں کی رائے یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا اقدام جمہوری روح اور آئین کے بنیادی ڈھانچہ سے ہرگز متصادم نہ ہو ۔ مزید برآں حکمرانوں کو پھانسی کیسز پر عملدرآمد کے ضمن میں سختی سے قائم رہنے اور اقوام متحدہ کی اپیل کو مسترد کرنے کے عالمی مضمرات کا بھی ادراک کرنا چاہیے۔
بعض تجزیہ کار فوجی عدالت یا اسپیڈی ٹرائل کورٹس کو 'دستۂ اجل برائے انصاف' کے معنوں میں لے رہے ہیں، ملک کی بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما کہتے ہیں کہ آئین میں عمل کے لیے سب کچھ موجود ہے کسی مسودہ قانون یا ترمیم کی ضرورت نہیں، اگر عدالتیں دہشت گردی سے نمٹنے میں غیر موثر ہیں تو متوازی عدالتی نظام لانے کے بجائے موجودہ عدالتی نظام کی فوری اصلاح پر توجہ دی جائے ۔ ادھر وزارت قانون نے انسداد دہشتگردی کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق نئی آئینی ترمیم کے بجائے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کی تجویز پیش کر دی ہے۔
وزارت قانون نے آئینی کمیٹی کو کہا ہے کہ کمیٹی وزارت قانون کی رائے لینے کے بجائے اپنے طور پر ڈرافٹ فائنل کرے اور کمیٹی اپنے طور پر پلان آف ایکشن وزارت قانون کو بتا دے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو تو اس کے بعد وزارت قانون اس ڈرافٹ کی روشنی میں حتمی مسودہ قانون پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کر دیگی ۔ یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر مجوزہ اسپیڈی ٹرائل کورٹس کے قیام کے حوالے سے مختلف جماعتوں کے تحفظات کو وفاقی وزراء اسحاق ڈار، چوہدری نثار اور پرویز رشید دور کریں گے ، جب کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ نیکٹا غیرملکی این جی اوز کے ذریعے دہشتگردوں کو ہونے والی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے ، اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور بلا تاخیر ایکشن لیا جائے، دہشتگردوں کو اندرون و بیرون ملک سے ہونے والی فنڈنگ روکنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوںکو مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے ۔
امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن کا قول تھا کہ ''امریکا کو کوئی باہر سے تباہ نہیں کریگا ، اگر ہم نے غلطی کی ، اپنی آزادی سے محروم ہوئے تو ہم اندر سے برباد ہونگے ۔اس لیے میں اپنے دشمنوں کو تباہ کرتا ہوں جب انھیں دوست بنا لیتا ہوں ۔'' تدبر و تحمل، وژن اور افہام و تفہیم کی اس غیر معمولی سطح پر ارباب اختیار کو دیکھنے کی تمنا قوم کے دل میں بھی ہے ، اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی ، جنگ و تباہ کاریوں کے اس الم ناک مرحلے میں ہماری جمہوری اور قومی ساکھ بھی اس کمال کو پہنچ جائے کہ عوام بھی چرچل کی طرح اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اگر ہماری عدالتیں ، پارلیمنٹ اور ریاستی ادارے بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں تو مادر وطن کو کسی بات کا غم نہیں ۔دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں جیت قوم کی ہی ہوگی تاہم فتح کی یہ منزل ٹھوس عمل سے ہی مل سکے گی اس لیے عدلیہ کے کردار ، حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی عزم و اتحاد اور دشمن سے نمٹنے کے لیے سیاست دانوں کو تاریخی فیصلے کرنے ہونگے اور تن من دھن لگا کر بازی جیتنی ہوگی ۔