دہشت گردی پرانتظامی تحقیق کی ضرورت
دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ کالم میں تھوڑی تشنگی سے رہ گئی تھی
ISLAMABAD:
دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ کالم میں تھوڑی تشنگی سے رہ گئی تھی چونکہ میرے پروفیشن کی نوعیت ایسی ہے کہ میرے لیے دیگر معمولات کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے دوئم پاکستان سے باہر ہونے کی بہ نسبت میری توجہ ملک کے اندرونی حالات پر کم ہوتی ہے۔اگر توجہ زیادہ بھی ہو جائے تو بھی فرد واحد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری کا تعین کرلیتی ہوں کیونکہ جو کام میرا نہیں ہے اگر ایسے اپنے سر پر سوار کرلیا جائے اور وہ کام نہ ہوسکے تو انسان مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے ، یہی اصول میں نے اپنی زندگی میں لاگو کر رکھا ہے کہ میں وہی کام کرتی ہوں جو میں کرسکتی ہوں۔اس لیے اس کام کی ناکامی پر مایوس ہونے کے بجائے میری توجہ اس بات پر زیادہ ہوتی ہے کہ ایسی کیا خامیاں تھیں جس کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،اور بالآخر ناکامی کی وجوہات کا ادراک ہوتے ہی اس کے سدباب کا بندوبست کرتی ہوں اور اس کے بعد ناکام رہ جانے والا کام کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔دہشت گردی کو دیکھنے کا بھی ایک خاص طریقہ ہونا چاہیے۔
گزشتہ کالم میں فرد واحد کی نارمل حیثیت سے دہشت گرد بننے کی اس دماغی صورتحال کا اجمالی تذکرہ تھا جو تشنگی کا سبب بن رہا تھا ،دراصل دہشت گردی میں عام لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے ، خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ اور آرام دہ دنیا کو خارزار میں تبدیل کردیا جاتا ہے،دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کاروائی کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ، میسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈونے کا بھی ماننا ہے کہ ''دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔'' تیسری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ خوف ہمیں بالکل منجمد کردے ، خوف اس وقت تشویش میں بدل جاتا ہے جب وہ مخصوص حالات سے آگے نکل جائے اور فرد یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی خطرے کی زد میں ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو بعض چیزیں انسان کے لیے فطری طور پر نقصان دہ ہیں جیسے قدرتی آفات وغیرہ اور بعض چیزوں کو انسان کے لیے نقصان دہ بنا دیا جاتا ہے ، جیسے اسلحہ ۔
فرد میں تشویش اس صورت میں بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب وہ موجودہ حالات کا تانا بانا ماضی کے تجربات سے جوڑ کر خود کو غیر محفوظ سمجھے، اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی سے وابستہ ہر چیز نفسیات کے دائرہ مطالعہ میں آتی ہے، اگرچہ یہ بات کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کافی سچائی موجود ہوتی ہے ہم آج کے مظہر کو سمجھنے کے لیے ماضی کے افکار سے بھی مدد لے سکتے ہیں، جارحیت ایک ایسا موضوع ہے جو مدت سے ماہرین نفسیات میں دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
جارحیت Aggressionکو جذباتی اور آلاتی میں تقسیم کرتے ہیں جذباتی جارحیت غصے سے منسلک ہے اور اس میں طویل مدتی منصوبہ شامل نہیں ہوتی ، اس میں فرد تکلیف پہنچانے والے کو براہ راست تکلیف دیتا ہے ، آلاتی جارحیت زیادہ نپی تلی ہوتی ہے ، آلاتی جارحیت میں جارحیت بعض مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ دہشت گردی میں ہمیں دونوں طرح کی جارحیت کارفرما نظر آتی ہے ۔ دہشت گردی کے مظہر کو سمجھنے کے لیے اس سے ہمیں ایک اچھا فریم ورک مہیا ہوسکتا ہے۔
حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جدید ہتھیاروں سے اندھا دھند بمباری کو بھی آپ دہشت گردی کے ایک حربے کے طور پر شناخت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ فریقین کے درمیان جنگ بالکل نہیں تھی جیسا کہ میڈیا اکثر ایسا دکھانے اور بتانے کی کوشش کرتا ہے ۔دہشت گردی کی ایک صورت کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے مسلح ونگ کی جانب سے سول آبادی کو نشانہ بنانا ہے جیسے اکتوبر2007ء میں کراچی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ تو 27 دسمبر2007ء کو ان کا قتل یا پشاور اسکول واقعہ۔ پشاور،کراچی،کوئٹہ اور متعدد شہروں میں دہشت گردی کے واقعات، افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے یا دہشت گردوں کی طرف سے سول آبادی کو خوف زدہ اور دہشت زدہ کرنے کے لیے کارروائیاں، ان سب کو دہشت گردی میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
تاکہ ہم بے معنی سیاسی نعروں سے گریز کرتے ہوئے علمی نقطہ نظر سے معاملہ کاجائزہ لے سکیں۔دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان میں علمی اور تحقیقی کام کا فقدان ہے، اداروں میں تربیت نہیں ہے ماہرین موجود نہیں ہیں اس کی سب سے اہم وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کا کلچر ہی پروان نہیں چڑھ سکا اور جو لوگ سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہتے ہیں تو سماجی علوم سے وابستہ افراد کو ان تک براہ راست رسائی ناممکن ہے، سیکیورٹی ادارے بھی جو معلومات حاصل کرتے ہیں وہ بھی عموعی طور راز ہی میں رکھی جاتی ہیںاور سماجی علوم کے محقیقن تک ان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے اس لیے دہشت گرد کیا سوچتا ہے؟ دہشت گردی کے واقعے کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس معلومات نہایت ناکافی ہوتی ہیں۔
پھر پاکستانی میڈیا واقعات اور دیگر احساسات کو جس طرح پہنچاتا ہے اس سے دہشت گردی کی اصل نفسیاتی جڑ کو سمجھنے میں مزید دشواری کا سامنا ہوتا ہے اس لیے دہشت گردی پر تحقیق کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض تنظیموں کی طرف سے آڈیو، ویڈیو، سوشل میڈیا پر اپنے نظریات کا پرچار تو نظر آتے ہیں لیکن ان افراد کے انٹرویو اور گفتگو میں جو دہشت گردی کا ارتکاب کرتے جا رہے ہیں اس کا عشر وعشیر بھی سامنے نہیں آتا ، حالانکہ محقق سے لے کر ایک عام آدمی کے لیے یہ ایک بہت اچھا ذریعہ ہے کہ دہشت گردوں کے ذہنی و نفسیاتی کیفیات تک رسائی حاصل کرنے کا۔ میڈیا میں جو تجزیہ کار بیٹھتے ہیں ان میں تجزیہ متن Content Analysis کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی سیاسی یا مذہبی جماعت کا دفاع کرتے یا ان کے نزدیک مخالف کی مخالفت اولیت ہوتی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات پر عام افراد پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ عام افراد سے مراد وہ افراد ہیں جو براہ راست ان واقعات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ انھیں دہشت گردی کے واقعے کی خبر کسی بھی ذریعے سے ملتی ہے، ان کا پہلا تاثر خوف، بے یقینی ور اپنی ذات پر عدم اعتماد کا ہوتا ہے اور ایسے سب سے پہلے اپنی ذات پر اعتماد میں کمی کا شکار ہونا پڑتا ہے ، رفتہ رفتہ اس واقعات کی مستند معلومات ملنے کے سبب اس کا ردعمل واضح ہوتا چلا جاتا ہے اگر واقعہ معمولی نوعیت کا ہو جس میں کسی کی موت کی خبر نہ ہو تو ایسے ایک گونا سکون سا محسوس ہوتا ہے اور اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اگر واقعہ شدید نوعیت کا ہے اور اس میں مرنے والے اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کا ردعمل شدید شدید ہوجاتا ہے اور اعصاب ارتعاش کا شکار رہتے ہیں ۔
ٹیلی ویژن جس طرح واقعات کی کوریج کر رہے ہوتے ہیں اس میں مثبت پہلوؤں کے ساتھ منفی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مناظر براہ راست فرد کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ خاص کر جو نیوز چینل سنسنی پیدا کرتے ہیں انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ معاشرے کے ہزاروں، لاکھوں افراد کی نفسیات پر براہ راست حملہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض بڑھنے کی وجوہات میں میڈیا کا بھی کردار شامل ہے ، ان امراض کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں خاص طور پر Anxiety Disorder اور خاص طور پرobsessive compulsive disorders کی مریضوں کی تعداد بڑھی ہے ۔ اسی طرح post, traumatic stress disorder کے مریضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اصل صورت حال جاننے کے لیے اس پہلو پر بھی منضبط تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں دہشت گردی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ کالم میں تھوڑی تشنگی سے رہ گئی تھی چونکہ میرے پروفیشن کی نوعیت ایسی ہے کہ میرے لیے دیگر معمولات کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے دوئم پاکستان سے باہر ہونے کی بہ نسبت میری توجہ ملک کے اندرونی حالات پر کم ہوتی ہے۔اگر توجہ زیادہ بھی ہو جائے تو بھی فرد واحد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری کا تعین کرلیتی ہوں کیونکہ جو کام میرا نہیں ہے اگر ایسے اپنے سر پر سوار کرلیا جائے اور وہ کام نہ ہوسکے تو انسان مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے ، یہی اصول میں نے اپنی زندگی میں لاگو کر رکھا ہے کہ میں وہی کام کرتی ہوں جو میں کرسکتی ہوں۔اس لیے اس کام کی ناکامی پر مایوس ہونے کے بجائے میری توجہ اس بات پر زیادہ ہوتی ہے کہ ایسی کیا خامیاں تھیں جس کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،اور بالآخر ناکامی کی وجوہات کا ادراک ہوتے ہی اس کے سدباب کا بندوبست کرتی ہوں اور اس کے بعد ناکام رہ جانے والا کام کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔دہشت گردی کو دیکھنے کا بھی ایک خاص طریقہ ہونا چاہیے۔
گزشتہ کالم میں فرد واحد کی نارمل حیثیت سے دہشت گرد بننے کی اس دماغی صورتحال کا اجمالی تذکرہ تھا جو تشنگی کا سبب بن رہا تھا ،دراصل دہشت گردی میں عام لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے ، خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ اور آرام دہ دنیا کو خارزار میں تبدیل کردیا جاتا ہے،دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کاروائی کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ، میسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈونے کا بھی ماننا ہے کہ ''دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔'' تیسری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ خوف ہمیں بالکل منجمد کردے ، خوف اس وقت تشویش میں بدل جاتا ہے جب وہ مخصوص حالات سے آگے نکل جائے اور فرد یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی خطرے کی زد میں ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو بعض چیزیں انسان کے لیے فطری طور پر نقصان دہ ہیں جیسے قدرتی آفات وغیرہ اور بعض چیزوں کو انسان کے لیے نقصان دہ بنا دیا جاتا ہے ، جیسے اسلحہ ۔
فرد میں تشویش اس صورت میں بھی پیدا ہوسکتی ہے کہ جب وہ موجودہ حالات کا تانا بانا ماضی کے تجربات سے جوڑ کر خود کو غیر محفوظ سمجھے، اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی سے وابستہ ہر چیز نفسیات کے دائرہ مطالعہ میں آتی ہے، اگرچہ یہ بات کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کافی سچائی موجود ہوتی ہے ہم آج کے مظہر کو سمجھنے کے لیے ماضی کے افکار سے بھی مدد لے سکتے ہیں، جارحیت ایک ایسا موضوع ہے جو مدت سے ماہرین نفسیات میں دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔
جارحیت Aggressionکو جذباتی اور آلاتی میں تقسیم کرتے ہیں جذباتی جارحیت غصے سے منسلک ہے اور اس میں طویل مدتی منصوبہ شامل نہیں ہوتی ، اس میں فرد تکلیف پہنچانے والے کو براہ راست تکلیف دیتا ہے ، آلاتی جارحیت زیادہ نپی تلی ہوتی ہے ، آلاتی جارحیت میں جارحیت بعض مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ دہشت گردی میں ہمیں دونوں طرح کی جارحیت کارفرما نظر آتی ہے ۔ دہشت گردی کے مظہر کو سمجھنے کے لیے اس سے ہمیں ایک اچھا فریم ورک مہیا ہوسکتا ہے۔
حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جدید ہتھیاروں سے اندھا دھند بمباری کو بھی آپ دہشت گردی کے ایک حربے کے طور پر شناخت کرسکتے ہیں کیونکہ یہ فریقین کے درمیان جنگ بالکل نہیں تھی جیسا کہ میڈیا اکثر ایسا دکھانے اور بتانے کی کوشش کرتا ہے ۔دہشت گردی کی ایک صورت کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے مسلح ونگ کی جانب سے سول آبادی کو نشانہ بنانا ہے جیسے اکتوبر2007ء میں کراچی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ تو 27 دسمبر2007ء کو ان کا قتل یا پشاور اسکول واقعہ۔ پشاور،کراچی،کوئٹہ اور متعدد شہروں میں دہشت گردی کے واقعات، افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے یا دہشت گردوں کی طرف سے سول آبادی کو خوف زدہ اور دہشت زدہ کرنے کے لیے کارروائیاں، ان سب کو دہشت گردی میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
تاکہ ہم بے معنی سیاسی نعروں سے گریز کرتے ہوئے علمی نقطہ نظر سے معاملہ کاجائزہ لے سکیں۔دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان میں علمی اور تحقیقی کام کا فقدان ہے، اداروں میں تربیت نہیں ہے ماہرین موجود نہیں ہیں اس کی سب سے اہم وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کا کلچر ہی پروان نہیں چڑھ سکا اور جو لوگ سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہتے ہیں تو سماجی علوم سے وابستہ افراد کو ان تک براہ راست رسائی ناممکن ہے، سیکیورٹی ادارے بھی جو معلومات حاصل کرتے ہیں وہ بھی عموعی طور راز ہی میں رکھی جاتی ہیںاور سماجی علوم کے محقیقن تک ان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے اس لیے دہشت گرد کیا سوچتا ہے؟ دہشت گردی کے واقعے کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس معلومات نہایت ناکافی ہوتی ہیں۔
پھر پاکستانی میڈیا واقعات اور دیگر احساسات کو جس طرح پہنچاتا ہے اس سے دہشت گردی کی اصل نفسیاتی جڑ کو سمجھنے میں مزید دشواری کا سامنا ہوتا ہے اس لیے دہشت گردی پر تحقیق کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض تنظیموں کی طرف سے آڈیو، ویڈیو، سوشل میڈیا پر اپنے نظریات کا پرچار تو نظر آتے ہیں لیکن ان افراد کے انٹرویو اور گفتگو میں جو دہشت گردی کا ارتکاب کرتے جا رہے ہیں اس کا عشر وعشیر بھی سامنے نہیں آتا ، حالانکہ محقق سے لے کر ایک عام آدمی کے لیے یہ ایک بہت اچھا ذریعہ ہے کہ دہشت گردوں کے ذہنی و نفسیاتی کیفیات تک رسائی حاصل کرنے کا۔ میڈیا میں جو تجزیہ کار بیٹھتے ہیں ان میں تجزیہ متن Content Analysis کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی سیاسی یا مذہبی جماعت کا دفاع کرتے یا ان کے نزدیک مخالف کی مخالفت اولیت ہوتی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات پر عام افراد پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ عام افراد سے مراد وہ افراد ہیں جو براہ راست ان واقعات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ انھیں دہشت گردی کے واقعے کی خبر کسی بھی ذریعے سے ملتی ہے، ان کا پہلا تاثر خوف، بے یقینی ور اپنی ذات پر عدم اعتماد کا ہوتا ہے اور ایسے سب سے پہلے اپنی ذات پر اعتماد میں کمی کا شکار ہونا پڑتا ہے ، رفتہ رفتہ اس واقعات کی مستند معلومات ملنے کے سبب اس کا ردعمل واضح ہوتا چلا جاتا ہے اگر واقعہ معمولی نوعیت کا ہو جس میں کسی کی موت کی خبر نہ ہو تو ایسے ایک گونا سکون سا محسوس ہوتا ہے اور اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اگر واقعہ شدید نوعیت کا ہے اور اس میں مرنے والے اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کا ردعمل شدید شدید ہوجاتا ہے اور اعصاب ارتعاش کا شکار رہتے ہیں ۔
ٹیلی ویژن جس طرح واقعات کی کوریج کر رہے ہوتے ہیں اس میں مثبت پہلوؤں کے ساتھ منفی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مناظر براہ راست فرد کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ خاص کر جو نیوز چینل سنسنی پیدا کرتے ہیں انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ معاشرے کے ہزاروں، لاکھوں افراد کی نفسیات پر براہ راست حملہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض بڑھنے کی وجوہات میں میڈیا کا بھی کردار شامل ہے ، ان امراض کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں خاص طور پر Anxiety Disorder اور خاص طور پرobsessive compulsive disorders کی مریضوں کی تعداد بڑھی ہے ۔ اسی طرح post, traumatic stress disorder کے مریضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اصل صورت حال جاننے کے لیے اس پہلو پر بھی منضبط تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں دہشت گردی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔