مذموم کوشش

مئی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا تھا، قصوروار جرمنی، اٹلی اور جاپان ٹھہرے تھے

shehla_ajaz@yahoo.com

مئی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا تھا، قصوروار جرمنی، اٹلی اور جاپان ٹھہرے تھے، ان کے مظالم کی داستان طویل تھی، ان کے خلاف امریکا، برطانیہ اور اتحادی افواج نے جنگ لڑی اور پوری دنیا میں اس طویل جنگ کے بعد امن قائم ہوا تھا۔ ہٹلر کے خلاف اس جنگ کو ''جنگ برائے خیر'' یعنی "Good War" کا نام دیا گیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح جرمنی، اٹلی اور جاپان نے خوفناک جنگی کارروائیاں کیں۔

اسی طرح کی کارروائیاں اس کے جواب میں امریکا، برطانیہ اور اتحادی افواج نے کیں یہ انتہائی بیہودہ اور خوفناک حقیقت ہے کہ اتحادی افواج نے جنگی لحاظ سے اور فوجی اعتبار سے ان شہروں کو بھی نہ چھوڑا جن کی اہمیت نہ تھی، شہری آبادی پر بم باری کی گئی، شہریوں کو قتل کیا گیا اور بہت سے ایسے مظالم کہ جنھیں تحریر کرتے بھی قلم لرزتا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ظلم سے شروع ہو کر ظلم پر ہی ختم ہوئی تھی، ہیروشیما اور ناگا ساکی کی ایٹم بم کی تباہ کاریاں آج کی نسل کے لیے بھی باعث عبرت ہیں۔

دنیا پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی طویل تباہ کاریوں سے آج بھی خوفزدہ ہے گو یہ بڑی طاقتوں کے درمیان کی جنگ تھی لیکن اس کے اثرات کے تحت ہی برصغیر میں دو ممالک وجود میں آئے پاکستان اور ہندوستان۔ 1947ء کا دور اسی حوالے سے ہی یادگار نہیں بلکہ یہ عظیم جانی اور مالی قربانیوں کے حوالے سے بھی آج تک ذہنوں میں نقش ہیں یوں کہہ لیں کہ برصغیر کی سرزمین پر بنا کسی جنگ کے بھی بڑی خونریزی ہوئی۔ نہ بھلا دینے والی اذیتوں کے اوراق آج بھی کھلے ہیں۔ 1971ء میں ان اوراق میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔

11 ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنایا گیا، حالانکہ پاکستان کی جانب سے افغانستان پر سوویت فوجی چڑھائی کے خلاف جو کچھ بھی کیا گیا وہ بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر ظلم سے نبٹنے کی کوششیں تھیں، یہ کوششیں جس انداز سے کی گئیں اس میں پاکستان کو کیا ملا۔ گزشتہ تیس بتیس برسوں سے غیر ملکی جس خوبی سے پاکستانی معاشرے کا حصہ بنے ہیں اور پاکستان خصوصی طور پر کراچی کے حجم میں اضافے کا باعث بنے اس میں گزشتہ ادوار میں حکمرانوں کی غفلت کا بھی بہت بڑا ہاتھ رہا۔ 9/11 کے واقعے کے بعد ان ہی عناصر کے باعث پاکستان کو ایک اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑا اور یہ امتحان ہنوز جاری ہے۔


دنیا میں دو بڑی عظیم جنگیں ایک دوسرے کے خلاف لڑی گئیں جب کہ پاکستان ایک ایسا کمزور ملک ہے جسے درمیان میں رکھ کر ادھر ادھر سے لڑائیاں کی گئیں اس مد میں یہاں امداد بھی بہت آئی لیکن جتنا جا چکا ہے اس کے نقصان کا ازالہ بہت مشکل ہے ایک چھوٹے اور کمزور ملک ہونے کے باعث اسے مختلف ادوار میں پریشر میں رکھا گیا۔ پرویز مشرف بھی اس پریشر کا حصہ بنے جن کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی بار یہ بھی پڑھنے میں آیا بقول ان کے چند وزرا کے اگر ہم نے بش کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ہمارا حشر بھی افغانستان اور عراق جیسا ہوتا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن 2008ء سے پھانسی کے احکامات پر پابندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ غالباً یہ بھی کسی جانب سے یا خودساختہ ان دیکھے پریشر کا نتیجہ تھا لیکن اس کا انجام کیا ہوا یہ پریشر کسی بڑی طاقت نے نہیں بلکہ 141 معصوم بے گناہ جانوں کے نذرانوں نے توڑا۔

اس طرح ایک بات تو واضح ہو گئی کہ دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کم ظرفی کی اس پست دہشت گردی کی مثال نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا محمود و ایاز سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے بچپن سے لے کر کچھ عرصے پہلے تک ہم نے کبھی اخبارات کے پہلے صفحے پر پھانسی میں جھولتے انسانوں کی تصاویر نہیں دیکھیں لیکن اب دنیا نے دیکھی۔ پاکستان میں اب بھی بہت قاتل گناہ گار اپنے ناپاک کارناموں کے باعث پھانسی کی سزا کے حق دار ہیں لیکن ان کو طویل قانونی الجھنوں نے اور کچھ نادیدہ دباؤ نے روکے رکھا ہے۔ بہرحال طوالت کبھی خوفناک نتائج بھی لے کر ابھرتی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ پشاور کے اس دلخراش حادثے کے بعد عوامی عسکری اور سیاسی قوتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اپنے اتحاد کا اظہار کیا اور چند دنوں میں ہی اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔

دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے مضبوط اور باعمل قوانین اور تمام قوتوں کے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کسی خاص سائنسی تیکنیک کی ضرورت نہیں۔دہشت گردی کی وارداتیں کچھ برسوں میں عوامی سطح کے علاوہ خاص کر عسکری مقاصد پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک کے بعد ایک واردات گویا ہماری دفاعی طاقت کو جانچنے کے پیمانے مقرر کیے جا رہے تھے، لیکن یہ وار گویا شہ رگ کی کارروائی تھی اس کارروائی کے بعد طالبان کی جانب سے اسے ردعمل کی کارروائی کہا جا رہا ہے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے ان کی جانب سے ریلیز کردہ ویڈیو میں اس کو فیتا بھی لگا دیا گیا لیکن اس سانحے سے گزرنے والے طالب علموں کے مطابق وہ دہشت گرد انگریزی، اردو اور عربی میں گفتگو کر رہے تھے جب کہ ایک پاکستانی اخبار کی خبر کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے غیر مسلم ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ اپنی ہئیت میں وہ ازبک دکھائی دیتے تھے، کیا اس کارروائی میں کرائے کے گوریلے استعمال کیے گئے تھے یا یہ ایک اعلان جنگ کی مذموم کوشش ہے۔

حکومتیں کچھ بھی چاہیں لیکن ہر ملک کے عوام امن چاہتے ہیں، دو بڑی عظیم جنگوں کے خون سے یہ زمین پہلے ہی سرخ تھی اب دنیا کے انسان اسے مزید خون سے رنگنا نہیں چاہتے۔ چاہے یہ خون مسلمان کا ہو، عیسائی کا ہندو کا یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کا ہو۔ غلطیوں پر غلطی کرنا احمقانہ فعل ہے اس کا نتیجہ کبھی پھل نہیں دیتا البتہ پچھلی غلطیوں سے سبق لینے میں ہی ہم سب کی بہتری ہے کہ تمام حکومتوں سے بڑی طاقت اللہ کی طاقت ہے کیونکہ بہرحال حکم تو ان کا ہی چلتا ہے چاہے کتنا ہی زور لگا لیں۔
Load Next Story