نام میں بھی کچھ نہ کچھ رکھا ہے

ایک طویل عرصے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو شروعات ایک ایسے کالم سے کرنا چاہتے ہیں

ایک طویل عرصے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو شروعات ایک ایسے کالم سے کرنا چاہتے ہیں جو بے مقصد سا ہو اور جس کے ذریعے ہم خود کو صرف ''وارم اپ'' کر سکیں۔ مگر اب لکھنے بیٹھے ہیں تو محسوس ہو رہا ہے کہ بغیر کسی مقصد کے کچھ لکھنا بھی ایک خاصا مشکل کام ہے اور نجانے بہت سے لوگ اتنے تواتر سے یہ کام کیسے کر لیتے ہیں۔

بہر حال قارئین سے استدعا ہے کہ اگر ان کے پاس کچھ اور پڑھنے کے لیے ہو تو وہ اس کالم کا رخ نہ کریں اور اگر پڑھیں بھی تو پڑھنے کے بعد اسے DELETE کر دیں۔

پتہ نہیں آپ نے یہ بات محسوس کی ہے یا نہیں مگر ''پرویز'' ہماری قومی سیاست میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام رہا ہے۔ آگے پیچھے کے مختلف لاحقوں کے ساتھ اس نام کے سیاست داں ہمارے یہاں سب سے زیادہ سر گرم عمل رہے ہیں۔

شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو جس کے صف اول میں اس نام کا کوئی نہ کوئی سیاسی قائد شامل نہ ہو اسی لیے ہمیں آج شدت سے یہ خیال آ رہا ہے کہ اگر یہ سارے پرویز متحد ہو جائیں تو ہماری قومی سیاست میں خاصی خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے اور قومی سیاست سے بڑی حد تک تلخی اور کشیدگی کم ہو سکتی ہے، اتفاق سے کل ''پرویزوں'' کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

ان میں غالباً سب سے قدیم نام راجہ ناصر پرویز کا ہے۔ جو پیپلزپارٹی کے اچھے وقتوں کے وزیر تھے اور جن کی اچھی یا بری شہرت یہ تھی کہ وہ بھارتی جیل سے فرار ہو گئے تھے۔

اتفاق سے اس نام کی شخصیتوں میں شاید نام کی وجہ سے بہت ساری مشترکہ قدریں ہیں۔ ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر اہم عہدوں پر فائز اور اقتدار میں شریک رہے ہیں۔ پرویز مشرف سابق صدر اور آرمی چیف رہے، انھوں نے فوج کی باگ ڈور جس شخصیت کے سپرد کی وہ بھی ایک پرویز تھے یعنی جنرل (ر) پرویز کیانی۔ جن کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح خود کو سیاست سے دور رکھا۔

اس کے علاوہ پرویز اشرف سابق وزیراعظم اور پرویز الٰہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ حال کے لوگوں میں پرویز خٹک، صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات ہیں۔ اس فہرست میں ایک نام کا اضافہ ہوتے ہوتے رہ گیا جو جسٹس طارق پرویز کا تھا جو چیف الیکشن کمشنر بنتے بنتے رہ گئے تھے۔

اگر سیاسی جماعتوں کی نمایندگی دیکھی جائے تو اتفاق سے پرویز نام کے سیاست دان تقریباً ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔ پرویز اشرف اگر پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو پرویز الٰہی (ق) لیگ بلکہ اپوزیشن کے ایک اہم رہنما ہیں۔ پرویز خٹک پاکستان تحریک انصاف کے نمایندے کی حیثیت سے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں تو پرویز رشید کا تعلق برسر اقتدار جماعت (ن) لیگ سے ہے۔ پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ہیں جو شاید واحد ''پرویز'' ہیں جو اپنی پارٹی سے بڑے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہاکہ ان تمام لوگوں میں کئی یکساں خصوصیات ہیں۔ بیشتر متنازعہ ہیں جن کو مخالف کی دکھتی رگ پر انگلی رکھنا آتا ہے ہمیشہ الگ ہٹ کر کوئی موضوع چھیڑتے نہیں جانے دیتے مگر لوگ انھیں بار بار سن سن کر بھی بور نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ میڈیا میں بھی ہر دلعزیز ہیں۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب ان کا کوئی نہ کوئی بیان اخبارات کے اکثر و بیشتر صفحہ اول کی زینت نہ بنتا ہو۔ جس کا ایک بڑا سبب ان کی طرف سے چھوٹے موضوع اور منفرد الفاظ کا انتخاب ہے۔ وہ جب ایک دوسرے کی مخالفت میں بھی بول رہے ہوتے ہیں تو ان کی باتیں بری نہیں لگتی بقول شاعر:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
تو کہ اچھا ہوا برا نہ ہوا


پرویز نام کی ان شخصیتوں کی یہ مقبولیت پرنٹ میڈیا تک ہی محدود نہیں بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی ان میں سے بیشتر اینکرز حضرات کی مقبول شخصیت ہیں جو ان کو بار بار بلاتے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں اگر حال کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کسی ایک چینل پر آتے ہیں یا پرویز رشید ان کی نمایندگی کرتے ہیں تو فوراً ہی کوئی اور چینل سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو بلاوا بھیجتا ہے کیوں کہ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ان سب کو بولنے کا فن آتا ہے۔

تاہم سانحہ پشاور نے جہاں پوری قوم بلکہ پوری دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا وہاں تاریخ کے اس سب سے المناک واقعے نے پرویز نام کے ان سارے سیاست دانوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ کل تک جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ اب باہم شیر و شکر محسوس ہوگئے ہیں یوں قومی سیاست میں بھی اب ایک نئے خوشگوار باب کا آغاز ہو گیا ہے۔

اگر دلوں میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا ہوگئی تو آیندہ الیکشن بھی محبت اور یگانگت کی فضا میں لڑے جائیںگے۔ مخالف امیدوار ایک دوسرے کو ''پہلے آپ پہلے آپ'' کہنے لگیں گے (کاش ایسا ہو جائے) فی الحال یہی ہو سکتا ہے کہ پرویز نام کی ان تمام شخصیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جائے جو تمام سیاسی جماعتوں کے موجودہ ملاپ کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اب جی چاہتا ہے کہ مختصر اور محتاط انداز میں زیر تبصرہ شخصیتوں کی خصوصیات بیان کر دی جائیں۔ ان میں سب سے سمجھدار جنرل (ر) پرویز کیانی تھے جنھوں نے اپنے گرد ایک دائرہ کھینچ لیا تھا اور آخر وقت تک اس سے باہر نہیں نکلے اور باعزت طور پر ریٹائر ہو گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے بلاشبہ ملک و قوم کی ترقی خاص طور پر معیشت کی بحالی کے لیے خاص کام کیا مگر اسی دوران ان سے بعض ایسے اقدامات بھی سرزد ہو گئے جن کے نتیجے میں وہ خاصے متنازعہ بن گئے اگر وہ یہ بات سمجھ لیتے کہ ان کا دور ''اوور'' ہو چکا ہے تو وہ خاصی ''الجھنوں'' سے بچ سکتے تھے۔ بہرکیف وہ اپنے پیرینٹ انسٹی ٹیوشن کے دفاع کا کام بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بطور وزیر اعظم پرویز مشرف کا انتخاب ان کی ہمہ صفت شخصیت ایک سے زیادہ صوبوں سے ماضی کی وابستگی اور خاص مقاصد کے تحت کیا تھا اور وہ بڑی حد تک یہ مقاصد پورے کرنے میں کامیاب رہے۔

پرویز الٰہی نے اپنی سیاست کو پنجاب تک محدود کر رکھا ہے اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں شہباز شریف کے مقابلے میں زیادہ ترقی ہوئی تھی ان کے دور میں صوبہ پنجاب میں نسبتاً زیادہ امن و سکون تھا۔ جس کا کریڈٹ اس وقت کی وفاقی حکومت کو بھی جاتا ہے۔ جس نے پورے ملک میں دہشت گردی کے دیو کو کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔ نہ کوئٹہ، پشاور میں اتنی زیادہ دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی تھیں اور نہ کراچی میں اتنی ٹارگٹ کلنگ۔

جہاں تک پرویز رشید کا تعلق ہے انھیں بولنے کا فن بھی آتا ہے اور مخالفوں کے الزامات کا جواب دینے کا ڈھنگ بھی۔ وہ الفاظ کا انتخاب بھی بہت سلیقے سے کرتے ہیں اور مخالفین کو خود ان کی زبان میں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے انھیں اپنی جماعت اور قائد کے دفاع کے کام پر لگایا ہوا ہے اور وہ یہ کام بڑی مہارت سے انجام دے رہے ہیں۔ آج کل جب کہ دونوں طرف کی توپیں خاموش ہیں پرویز رشید کو خاصا ریسٹ مل گیا ہو گا اور وہ اب تازہ دم ہو کر میدان میں آئیں گے۔

موجودہ دور میں جو سب سے نئے پرویز ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ پرویز خٹک ہیں۔ جو کئی اعتبار سے ایک انتہائی مشکل صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے انھیں خیبر پختونخوا کو ایک ماڈل صوبہ بنانے کی ذمے داری سونپی ہوئی ہے اور وہ حتی الامکان یہ ذمے داری نبھا رہے ہیں ۔عمران خان کے وژن کے مطابق انھوں نے صوبہ سرحد میں کچھ نئے کام کر کے دکھانے کا عزم کیا ہوا ہے مگر ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردی کا خوفناک سایہ رات دن ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔

آئے دن انھیں تعزیت کے لیے کسی نہ کسی گھر جانا پڑتا ہے حال ہی میں پاکستان کی تاریخ کے بدترین سانحے نے تو ان کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے جس سے وہ نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ موقع اچھا تھا کہ وہ سانحہ پشاور کے موقعے پر اپنے صوبہ سرحد کے ناراض دوستوں کو منانے کی کوشش کرتے حالات نے انھیں یہ اچھا موقع دیا تھا جو بظاہر انھوں نے گنوا دیا ہے۔ بہرکیف مجموعی طور پر وہ اس دور کے ایک اچھے پرویز بن کر ابھرے ہیں۔

خدا کرے ہماری سیاست اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان موجودہ قربت تادیر قائم رہے وہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں اور آیندہ الیکشن چاہے وہ بلدیاتی ہی کیوں نہ ہوں اتنے اچھے ماحول میں لڑے جائیں کہ کسی بھی امیدوار کو دھاندلی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور اس قسم کے سازگار حالات پیدا کرنے اور ماحول بنانے میں مختلف جماعتوں کو مندرجہ بالا ''پرویز'' حضرات یقیناً اپنا اپنا کردار ادا کریں گے ۔
Load Next Story