گیس کی عدم فراہمی کے منفی اثرات
پاکستان میں ہائیڈروکاربن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ وہ ادارہ ہےجس نےملک میں سی این جی کو سستااورماحول دوست فیول متعارف کروایا
پاکستان میں کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) عوام میں سستے ایندھن اور ماحول دوست فیول کے طور پر متعارف کرائی گئی جو رفتہ رفتہ ملکی معیشت کی ترقی کا اہم جزو بن گئی جس کی وجہ سے اس وقت پاکستان سی این جی استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے جب کہ اس صنعت میں چار سو ارب سے زائد کی سرمایہ کاری بھی کی جا چکی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں 50 لاکھ سے زائد گاڑیاں سی این جی استعمال کر رہی ہیں اور 33 سو سے زیادہ سی این جی اسٹیشن بھی قائم ہو چکے ہیں۔ اس صنعت سے ایک طرف لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے تو دوسری جانب جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں یہ بنیادی اور اہم جزو کا کردار ادا کر رہی ہے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ملک میں ابھی تک کسی بھی حوالے سے مربوط اور دیرپا پالیسیاں نہیں بنائی گئی ہیں جس کے سبب دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سی این جی سیکٹر بھی متاثر ہو رہا ہے اور وطن عزیز اقتصادی ترقی کی وہ منازل نہیں طے کر پا رہا جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
پاکستان میں ہائیڈروکاربن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں سی این جی کو سستا اور ماحول دوست فیول متعارف کروایا، البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اس ماحول دوست فیول کو متعارف کرتے ہوئے یہ بات کیوں نہ محسوس کی گئی کہ ملک میں گیس کے ذخائر اسے پورا کر نے کے لیے ہیں بھی یا نہیں۔ لگتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے ملک میں موجود گیس کے ذخائر کے بارے میں محض قیاس آرائیوں سے کام لیا گیا اور حکومتی سطح پر سی این جی کے فروغ کے لیے سرمایہ کاروں کو اسٹیشن لگانے کی ترغیب دی گئی۔
کھربوں کی سرمایہ کاری ہوئی لیکن بعد کی حکومتوں نے گیس قلت کو جواز بنا کر اس صنعت کو قدرتی ذخائر کا ضیاع کرنے والی صنعت قرار دے دیا اور اس کی بندش کے لیے پالیساں بنائی گئیں اور اس پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا دئے گئے یعنی سستے ایندھن کو ٹیکسوں کے بوجھ سے لاد دیا گیا ۔ پانچ سال پوری کرنے والی زرداری حکومت پر الزام ہے کہ اس صنعت کو صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی دوست سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جنہوں نے ذاتی طور پر مخالفت کرتے ہوئے سی این جی کو بند کرنے کی کوشش بلکہ سازش کی۔ علاوہ ازیں ایل پی جی اور ایل این جی لانے کی منصوبہ بندی کی۔
حکومت کے فیصلے کے مطابق عام صارفین کو پہلی، بجلی گھروں اور عام صنعت کو ترتیب وار دوسری اور تیسری ترجیح جب کہ سیمنٹ کو چوتھی اور سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی آخری ترجیح میں شامل کیا گیا ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس، کشیدہ اور انتہائی تشویشناک ہے کہ گھریلو صارفین عرصہ دراز سے عدم فراہمی یا کم پریشر کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں ۔ یہ مسئلہ موسم گرما میں کسی حد تک قابل برداشت ہوتا ہے البتہ سردیوں کی آمد کے ساتھ سر اٹھانے لگتا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ بالخصوص بلوچستان جو ملک بھر میں گیس کی فراہمی کا منبع ہے جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے وہا ں گیس کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جو عوام کے لیے موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے میں ناممکن ہے۔ لوگ مجبوراً نایاب جری بوٹیوں اور جنگلات کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہے اور اس پر حکومتی سطح پر خاموش تماشائی کا کردار المیہ سے کم نہیں۔
مشرف دور میں چنگ چی رکشوں کی آمد اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر منتقل کرنے سے عوام کو جن مسائل کا سامنا اب کرنا پڑ رہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ریلیف کے اقدامات نہیں۔ سوائے صوبہ سندھ کے پورے ملک میں موسم سرما میں سی این جی کی بندش سے سفری اخراجات بڑھ گئے ہیں جب کہ سندھ میں ایک روز سی این جی کی فراہمی اور ایک روز عدم فراہمی نے عوام کو نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ کراچی شہر میں اب سے دو ماہ پہلے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جواز بنا کر عوام کو لوٹا جا رہا تھا البتہ اب کمی کے بعد یہ جواز بنا گیا ہے کہ پیٹرول سے ایوریج سی این جی نسبتا کم ہوتی ہے لہٰذا کرایوں میں کمی ممکن نہیں جب کہ حکومت اس معاملے میں ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں یرغمال بنی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جس پر شاید عوام کسی بھی طرح سے برداشت کر رہے ہیں مگر اس بڑھ کر روزگار کا مسئلہ ہے جو گیس کی عدم فراہمی کے باعث درپیش ہے۔ پنجاب میں فیصل آباد اور گوجرانوالہ جو ٹیکسٹائل صنعت کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے زیادہ گیس کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے جس کے سبب کئی صنعتیں بند اور لاکھوں افراد کو بیروزگار کر کے نان شبینہ کا محتاج کردیا ہے ۔سیمنٹ فیکٹریوں کی بندش سے کئی ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں اور جاری منصوبوں کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور لاکھوں خاندان اس سے وابستہ ہیں جن کی مسلسل اور انتھک محنت کی وجہ سے ملک میں ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن جب سے سی این جی سیکٹر کو وسعت دی گئی ہے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر کی طرح تنزلی کی جانب جا رہا ہے۔
اس کی وجوہات بے شمار ہیں لیکن ان میں بجلی کی عدم فراہمی یا مہنگی بجلی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ غیر معیاری اور مہنگی کھاد کی فراہمی ہے کیونکہ ملک میں گیس نہ ہونے سے کئی کھاد فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع میانوالی میں قائم ایگری ٹیک فرٹیلائزر پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث نومبر 2013ء سے بند پڑا ہوا ہے جس کی بنا پر ایک جانب کھاد تیار نہیں ہورہی ہے تو دوسری جانب سیکڑوں کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے جب کہ ECH نے اس پلانٹ کو سال 2014ء کو 165000میٹرک ٹن پروڈکشن کا ٹارگٹ دیا ہے۔
OGDCL نے SNGPL کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ گیس کا پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ملین کیوبک یومیہ گیس کی پیداوار اور 500 بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کے خسارے کا سامنا ہے جو کہ ایگری ٹیک کو گیس فراہم کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کوئی پاور سیکٹر SNGPL کے اس نیٹ ورک سے منسلک نہیں۔ یہ ایک کھاد پروڈیوس کرنے کا ایک پلانٹ ہے جس کی بندش سے نہ صرف سیکڑوں ملازمین بے روز گار ہو جائیں گے بلکہ OGDCL کو بھی کروڑوں کا نقصان پہلے ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا گیس کے حوالے سے دنیا میں نمایاں مقام ہے۔ ملک میں 55 ٹریلین ایکٹر فٹ (TCF ) قدرتی ذخائر موجود ہیں جو دنیا کے 25 ویں بڑے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں،51 ٹریلین ایکٹر فٹ SHALE GAS ذخائر، 40 کھرب ٹریلین ایکٹر فٹ TIGHT GAS، 21 ٹریلین ایکٹر فٹ LOW BTU گیس کے ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت 36 کھرب ڈالر بنتی ہے اور یہ پاکستان کی 100 سال کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ ملک میں 33 فیصد گیس بجلی کے لیے استعمال ہو رہی ہے جب کہ ہمارے پاس پانی، ہوا، سورج اور دیگر ذرایع سے سستی اور ماحول دوست بجلی بنائی جا سکتی ہے جب کہ 10 فیصد گیس گاڑیوں استعمال کر رہی ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق سب سے زیادہ گیس سی این جی کی صورت میں ہمارے یہاں گاڑیوںمیں استعمال ہو رہی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں 4th Generation Gas Appliances جب کہ پاکستان میں 1st Generation زیر استعمال ہے۔
گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ آئے روز پائپ لائنوں اور فیلڈ پر عسکر ی گروپوں کی جانب سے حملوں کے باعث گیس ضایع ہو جاتی ہے، حالانکہ ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اگر موثر عملی حکمت کے تحت اقدامت کیے جائیں تو گیس کا ضیاع کم ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سی سین جی کا مستقبل تنزلی کا شکار ہے جو اس قدر قابل رحم نہیں کہ اس کے لیے اقدامات کیے جانا ضروری ہوں، البتہ ملک میں صنعتوں کا بند ہونا اور اس کے ذریعے ملک میں بیروزگاری کی عفریت کا وسعت پانا یقینا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت نہیں۔ ملک میں کئی نئی گیس فیلڈ دریافت ہو رہی ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے ممکنہ حد تک مسائل کا حل ہو سکے گا، لیکن ضرورت اس امر کی ہے حکومتی سطح پر وزارت آئل اینڈگیس سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تا کہ عام صارفین سے لے کر صنعتوں کی بحالی تک گیس کی بھر پور فراہمی یقینی بنائی جا سکے جو ملک میں اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔
پاکستان میں ہائیڈروکاربن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں سی این جی کو سستا اور ماحول دوست فیول متعارف کروایا، البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے اس ماحول دوست فیول کو متعارف کرتے ہوئے یہ بات کیوں نہ محسوس کی گئی کہ ملک میں گیس کے ذخائر اسے پورا کر نے کے لیے ہیں بھی یا نہیں۔ لگتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے ملک میں موجود گیس کے ذخائر کے بارے میں محض قیاس آرائیوں سے کام لیا گیا اور حکومتی سطح پر سی این جی کے فروغ کے لیے سرمایہ کاروں کو اسٹیشن لگانے کی ترغیب دی گئی۔
کھربوں کی سرمایہ کاری ہوئی لیکن بعد کی حکومتوں نے گیس قلت کو جواز بنا کر اس صنعت کو قدرتی ذخائر کا ضیاع کرنے والی صنعت قرار دے دیا اور اس کی بندش کے لیے پالیساں بنائی گئیں اور اس پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا دئے گئے یعنی سستے ایندھن کو ٹیکسوں کے بوجھ سے لاد دیا گیا ۔ پانچ سال پوری کرنے والی زرداری حکومت پر الزام ہے کہ اس صنعت کو صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی دوست سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جنہوں نے ذاتی طور پر مخالفت کرتے ہوئے سی این جی کو بند کرنے کی کوشش بلکہ سازش کی۔ علاوہ ازیں ایل پی جی اور ایل این جی لانے کی منصوبہ بندی کی۔
حکومت کے فیصلے کے مطابق عام صارفین کو پہلی، بجلی گھروں اور عام صنعت کو ترتیب وار دوسری اور تیسری ترجیح جب کہ سیمنٹ کو چوتھی اور سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی آخری ترجیح میں شامل کیا گیا ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس، کشیدہ اور انتہائی تشویشناک ہے کہ گھریلو صارفین عرصہ دراز سے عدم فراہمی یا کم پریشر کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں ۔ یہ مسئلہ موسم گرما میں کسی حد تک قابل برداشت ہوتا ہے البتہ سردیوں کی آمد کے ساتھ سر اٹھانے لگتا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ بالخصوص بلوچستان جو ملک بھر میں گیس کی فراہمی کا منبع ہے جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے وہا ں گیس کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جو عوام کے لیے موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے میں ناممکن ہے۔ لوگ مجبوراً نایاب جری بوٹیوں اور جنگلات کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہے اور اس پر حکومتی سطح پر خاموش تماشائی کا کردار المیہ سے کم نہیں۔
مشرف دور میں چنگ چی رکشوں کی آمد اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر منتقل کرنے سے عوام کو جن مسائل کا سامنا اب کرنا پڑ رہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ریلیف کے اقدامات نہیں۔ سوائے صوبہ سندھ کے پورے ملک میں موسم سرما میں سی این جی کی بندش سے سفری اخراجات بڑھ گئے ہیں جب کہ سندھ میں ایک روز سی این جی کی فراہمی اور ایک روز عدم فراہمی نے عوام کو نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ کراچی شہر میں اب سے دو ماہ پہلے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جواز بنا کر عوام کو لوٹا جا رہا تھا البتہ اب کمی کے بعد یہ جواز بنا گیا ہے کہ پیٹرول سے ایوریج سی این جی نسبتا کم ہوتی ہے لہٰذا کرایوں میں کمی ممکن نہیں جب کہ حکومت اس معاملے میں ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں یرغمال بنی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جس پر شاید عوام کسی بھی طرح سے برداشت کر رہے ہیں مگر اس بڑھ کر روزگار کا مسئلہ ہے جو گیس کی عدم فراہمی کے باعث درپیش ہے۔ پنجاب میں فیصل آباد اور گوجرانوالہ جو ٹیکسٹائل صنعت کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے زیادہ گیس کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے جس کے سبب کئی صنعتیں بند اور لاکھوں افراد کو بیروزگار کر کے نان شبینہ کا محتاج کردیا ہے ۔سیمنٹ فیکٹریوں کی بندش سے کئی ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں اور جاری منصوبوں کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور لاکھوں خاندان اس سے وابستہ ہیں جن کی مسلسل اور انتھک محنت کی وجہ سے ملک میں ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن جب سے سی این جی سیکٹر کو وسعت دی گئی ہے ملک میں یہ شعبہ بھی دیگر کی طرح تنزلی کی جانب جا رہا ہے۔
اس کی وجوہات بے شمار ہیں لیکن ان میں بجلی کی عدم فراہمی یا مہنگی بجلی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ غیر معیاری اور مہنگی کھاد کی فراہمی ہے کیونکہ ملک میں گیس نہ ہونے سے کئی کھاد فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع میانوالی میں قائم ایگری ٹیک فرٹیلائزر پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث نومبر 2013ء سے بند پڑا ہوا ہے جس کی بنا پر ایک جانب کھاد تیار نہیں ہورہی ہے تو دوسری جانب سیکڑوں کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے جب کہ ECH نے اس پلانٹ کو سال 2014ء کو 165000میٹرک ٹن پروڈکشن کا ٹارگٹ دیا ہے۔
OGDCL نے SNGPL کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ گیس کا پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے 4.5 ملین کیوبک یومیہ گیس کی پیداوار اور 500 بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کے خسارے کا سامنا ہے جو کہ ایگری ٹیک کو گیس فراہم کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کوئی پاور سیکٹر SNGPL کے اس نیٹ ورک سے منسلک نہیں۔ یہ ایک کھاد پروڈیوس کرنے کا ایک پلانٹ ہے جس کی بندش سے نہ صرف سیکڑوں ملازمین بے روز گار ہو جائیں گے بلکہ OGDCL کو بھی کروڑوں کا نقصان پہلے ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا گیس کے حوالے سے دنیا میں نمایاں مقام ہے۔ ملک میں 55 ٹریلین ایکٹر فٹ (TCF ) قدرتی ذخائر موجود ہیں جو دنیا کے 25 ویں بڑے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں،51 ٹریلین ایکٹر فٹ SHALE GAS ذخائر، 40 کھرب ٹریلین ایکٹر فٹ TIGHT GAS، 21 ٹریلین ایکٹر فٹ LOW BTU گیس کے ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت 36 کھرب ڈالر بنتی ہے اور یہ پاکستان کی 100 سال کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ ملک میں 33 فیصد گیس بجلی کے لیے استعمال ہو رہی ہے جب کہ ہمارے پاس پانی، ہوا، سورج اور دیگر ذرایع سے سستی اور ماحول دوست بجلی بنائی جا سکتی ہے جب کہ 10 فیصد گیس گاڑیوں استعمال کر رہی ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق سب سے زیادہ گیس سی این جی کی صورت میں ہمارے یہاں گاڑیوںمیں استعمال ہو رہی ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں 4th Generation Gas Appliances جب کہ پاکستان میں 1st Generation زیر استعمال ہے۔
گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ آئے روز پائپ لائنوں اور فیلڈ پر عسکر ی گروپوں کی جانب سے حملوں کے باعث گیس ضایع ہو جاتی ہے، حالانکہ ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اگر موثر عملی حکمت کے تحت اقدامت کیے جائیں تو گیس کا ضیاع کم ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں سی سین جی کا مستقبل تنزلی کا شکار ہے جو اس قدر قابل رحم نہیں کہ اس کے لیے اقدامات کیے جانا ضروری ہوں، البتہ ملک میں صنعتوں کا بند ہونا اور اس کے ذریعے ملک میں بیروزگاری کی عفریت کا وسعت پانا یقینا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت نہیں۔ ملک میں کئی نئی گیس فیلڈ دریافت ہو رہی ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے ممکنہ حد تک مسائل کا حل ہو سکے گا، لیکن ضرورت اس امر کی ہے حکومتی سطح پر وزارت آئل اینڈگیس سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تا کہ عام صارفین سے لے کر صنعتوں کی بحالی تک گیس کی بھر پور فراہمی یقینی بنائی جا سکے جو ملک میں اقتصادی صورتحال کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔