بات کچھ اِدھر اُدھر کی زمانہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے
ہمیشہ یہی سوچیں کہ آج ہی دنیا بنی ہے اور آج ہی قیامت آنی ہے اور آج ہی کے دن پر میری جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
''زمانہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے''۔ یعنی کہ وقت کی موجودہ کیفیت کا نام زمانہ ہےاور زمانہ کبھی گزرتا نہیں اور نہ ہی آگے بڑھتا ہے۔
یہ ازل سے لیکر ابد تک حال (موجودہ کیفیت) میں ہی موجود رہے گا۔ ویسے ہی جیسے دریا ہمیشہ اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں مگر ان کے اندر موجود پانی ایک جگہ ساکن ہو کر نہیں ٹھہرتا۔بلکہ محرک ہو کر بہتا رہتا ہے۔ اسی طرح زمانہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن تبدیلی کے عمل سے انسان اس کی قائم کردہ تہذیب اور رائج کردہ قوانین گزرتے آئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'تبدیلی کائنات کا خمیر ہے'، تو قدرت کے قائم کردہ اسی عملِ تغیّر کے پیشِ نظر کائنات میں سیاروں اور ستاروں کی چال بدلتی رہتی ہےاور اس دنیا میں موجود مختلف تہذیبیں عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہوئیں کبھی نشیب سے فراز تک پہنچتی ہیں تو کبھی شکست و ریخت سے دوچار ہوتی ہیں۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ وقت رک گیا ہے گزرتا کیوں نہیں؟ یا وقت تیزی سے گزرا کیوں جا رہا ہے؟ ٹھہرتا کیوں نہیں؟ درحقیقت وقت کا دھارا ہمیشہ ایک ہی جگہ تھما رہتا ہے۔ تبدیلی صرف ہماری کیفیت میں آتی ہے۔ چونکہ وقت کو تین زمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ماضٰی، حال اور مستقبل اور اسی قانون کے تحت وقت کو لے کر ہماری کیفیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہم ہر ہر لمحہ گزارتے تو حال میں ہیں، لیکن جیسے ہی ہم گذشتہ کسی تلخ لمحے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم پر ماضی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، تب ہم حال میں رہتے ہوئے بھی ماضی میں جینے لگتے ہیں۔ اور گزشتہ زندگی کے گزارے ہوئے نامسائد حالات ہمیں رنجیدہ کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث ہم آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اور پھر الزام وقت پر لگا دیتے ہیں کہ یہ وقت ٹھہر کیوں گیا ہے؟ گزرتا کیوں نہیں؟ اس لیئے کہتے ہیں کہ ''پلٹ کر مت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤگے''۔
اور جب ہم موجودہ لمحوں کو چھوڑ کر آنے والے کسی لمحے کے بارے میں سوچنے، حکمتِ عملی تیار کرنے یا منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں تب ہم پرمستقبل کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہم حال میں رہتے ہوئے بھی مستقبل میں جینے لگتے ہیں۔ اور جانے انجانے میں حال کے قیمتی لمحوں کو مستقبل کی فکر میں فراموش کر بیٹھتے ہیں اور پھر الزام تراشی وقت پر کرنے لگتے ہیں کہ وقت اتنی تیزی سے کیوں گزر گیا؟ ٹھہرا کیوں نہیں؟ اس لیئے کہتے ہیں کہ '' اپنی رفتار محدود رکھو ورنہ منہ کے بل گر جاؤگے''۔
مزکورہ بالا باتوں میں مجھ ناچیز نے صرف یہی بتانے کی جسارت کی ہے کہ زمانے اور وقت کو کبھی بھی ماضی اور مستقبل کی عینک سے مت دیکھیے کہ ایسا ہوا تھا، ویسا ہوگا۔ زمانہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے اور ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم حال میں رہیں۔ ہمیشہ یہی سوچیں کہ آج ہی دنیا بنی ہے اور آج ہی قیامت آنی ہے۔ آج ہی میں پیدا ہوا اور آج ہی مجھے مرنا ہے۔ جنت بھی یہیں ہے اور جہنم بھی یہیں۔ نیکی، بدی، جزا و سزا سب کچھ یہیں ہے۔ اسی آج کے دن پر میری جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اس لیئے وقت کی رمز کو سمجھیں، وقت بزاتِ خود سویا ہوا ہے۔ تبھی گھڑیال سے خراٹوں کی آواز آتی ہے اور ہم اس کے گرد دوڑ رہے ہیں۔وقت ہماری موجودہ کیفیت کا اظہار ہی تو ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے حال میں گزاریں یا کہ ماضی اور مستقبل میں۔ حال میں گزاریں گے تو ہر ہر لمحہ ہماری ذات احتساب سے گزرے گی۔ اور اگر حال پر ماضی اور مستقبل کی کیفیات طاری کریں گے تو سوائے وقت کو کوسنے کے کچھ ہاتھ نہیں لگنا۔ وقت کا حاصل حصول وہی ہے جو کہ ہم حال میں کر رہے ہیں۔ وقت کبھی نہ بدلہ ہے نہ بدلے گا۔ صرف تہزیبیں اور کلینڈر پر تاریخیں بدلتی رہتی ہیں اور بدلتی رہیں گیں۔ ہر گزشتہ سال کے غروب ہوتے سورج کو الودع اور سالِ نو کے طلوعِ آفتاب کو خوش آمدید کہا جاتا رہیگا۔ ہماری زندگی کے نہ ہی گزشتہ سال ہماری زندگی سے کم ہوئے اور نہ ہی گزرنے والے سال کم ہو رہے ہیں۔ ایک ایک لمحہ ہم خودعینی شاہد کی طرح حال میں محفوظ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
دُعا ہے کہ یہ جو موجودہ وقت 2015ء ہے۔ یہ رب تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمانبرداری میں گزرے۔ جبکہ اُمتِ مسلمہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان امن و آشتی سے بلندی و سرفرازی کا سال ثابت ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ ازل سے لیکر ابد تک حال (موجودہ کیفیت) میں ہی موجود رہے گا۔ ویسے ہی جیسے دریا ہمیشہ اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں مگر ان کے اندر موجود پانی ایک جگہ ساکن ہو کر نہیں ٹھہرتا۔بلکہ محرک ہو کر بہتا رہتا ہے۔ اسی طرح زمانہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن تبدیلی کے عمل سے انسان اس کی قائم کردہ تہذیب اور رائج کردہ قوانین گزرتے آئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ 'تبدیلی کائنات کا خمیر ہے'، تو قدرت کے قائم کردہ اسی عملِ تغیّر کے پیشِ نظر کائنات میں سیاروں اور ستاروں کی چال بدلتی رہتی ہےاور اس دنیا میں موجود مختلف تہذیبیں عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہوئیں کبھی نشیب سے فراز تک پہنچتی ہیں تو کبھی شکست و ریخت سے دوچار ہوتی ہیں۔
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ وقت رک گیا ہے گزرتا کیوں نہیں؟ یا وقت تیزی سے گزرا کیوں جا رہا ہے؟ ٹھہرتا کیوں نہیں؟ درحقیقت وقت کا دھارا ہمیشہ ایک ہی جگہ تھما رہتا ہے۔ تبدیلی صرف ہماری کیفیت میں آتی ہے۔ چونکہ وقت کو تین زمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ماضٰی، حال اور مستقبل اور اسی قانون کے تحت وقت کو لے کر ہماری کیفیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ہم ہر ہر لمحہ گزارتے تو حال میں ہیں، لیکن جیسے ہی ہم گذشتہ کسی تلخ لمحے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم پر ماضی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، تب ہم حال میں رہتے ہوئے بھی ماضی میں جینے لگتے ہیں۔ اور گزشتہ زندگی کے گزارے ہوئے نامسائد حالات ہمیں رنجیدہ کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث ہم آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اور پھر الزام وقت پر لگا دیتے ہیں کہ یہ وقت ٹھہر کیوں گیا ہے؟ گزرتا کیوں نہیں؟ اس لیئے کہتے ہیں کہ ''پلٹ کر مت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤگے''۔
اور جب ہم موجودہ لمحوں کو چھوڑ کر آنے والے کسی لمحے کے بارے میں سوچنے، حکمتِ عملی تیار کرنے یا منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں تب ہم پرمستقبل کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہم حال میں رہتے ہوئے بھی مستقبل میں جینے لگتے ہیں۔ اور جانے انجانے میں حال کے قیمتی لمحوں کو مستقبل کی فکر میں فراموش کر بیٹھتے ہیں اور پھر الزام تراشی وقت پر کرنے لگتے ہیں کہ وقت اتنی تیزی سے کیوں گزر گیا؟ ٹھہرا کیوں نہیں؟ اس لیئے کہتے ہیں کہ '' اپنی رفتار محدود رکھو ورنہ منہ کے بل گر جاؤگے''۔
مزکورہ بالا باتوں میں مجھ ناچیز نے صرف یہی بتانے کی جسارت کی ہے کہ زمانے اور وقت کو کبھی بھی ماضی اور مستقبل کی عینک سے مت دیکھیے کہ ایسا ہوا تھا، ویسا ہوگا۔ زمانہ ہمیشہ حال میں ہی رہتا ہے اور ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم حال میں رہیں۔ ہمیشہ یہی سوچیں کہ آج ہی دنیا بنی ہے اور آج ہی قیامت آنی ہے۔ آج ہی میں پیدا ہوا اور آج ہی مجھے مرنا ہے۔ جنت بھی یہیں ہے اور جہنم بھی یہیں۔ نیکی، بدی، جزا و سزا سب کچھ یہیں ہے۔ اسی آج کے دن پر میری جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اس لیئے وقت کی رمز کو سمجھیں، وقت بزاتِ خود سویا ہوا ہے۔ تبھی گھڑیال سے خراٹوں کی آواز آتی ہے اور ہم اس کے گرد دوڑ رہے ہیں۔وقت ہماری موجودہ کیفیت کا اظہار ہی تو ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے حال میں گزاریں یا کہ ماضی اور مستقبل میں۔ حال میں گزاریں گے تو ہر ہر لمحہ ہماری ذات احتساب سے گزرے گی۔ اور اگر حال پر ماضی اور مستقبل کی کیفیات طاری کریں گے تو سوائے وقت کو کوسنے کے کچھ ہاتھ نہیں لگنا۔ وقت کا حاصل حصول وہی ہے جو کہ ہم حال میں کر رہے ہیں۔ وقت کبھی نہ بدلہ ہے نہ بدلے گا۔ صرف تہزیبیں اور کلینڈر پر تاریخیں بدلتی رہتی ہیں اور بدلتی رہیں گیں۔ ہر گزشتہ سال کے غروب ہوتے سورج کو الودع اور سالِ نو کے طلوعِ آفتاب کو خوش آمدید کہا جاتا رہیگا۔ ہماری زندگی کے نہ ہی گزشتہ سال ہماری زندگی سے کم ہوئے اور نہ ہی گزرنے والے سال کم ہو رہے ہیں۔ ایک ایک لمحہ ہم خودعینی شاہد کی طرح حال میں محفوظ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
دُعا ہے کہ یہ جو موجودہ وقت 2015ء ہے۔ یہ رب تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمانبرداری میں گزرے۔ جبکہ اُمتِ مسلمہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان امن و آشتی سے بلندی و سرفرازی کا سال ثابت ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔