پاکستان ایک نظر میں سیاسی قیادت کی غلطی

سیاسی حکومت ابھی تک اقدامات کا ہی فیصلہ نہیں کرپائی۔ اگرجمہوریت کو مضبوط کرنا ہےتو سیاستدانوں کو رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔

ایک عرصہ ہوا جوڈیشل ریفارمز کا غوغا سن رہے ہیں۔ لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ اگر فوجی عدالتیں فوری فیصلے کر سکتی ہیں۔ فوری سزائیں دے سکتی ہیں تو یہی کام عدلیہ کیوں نہیں کر سکتی۔ کمیٹیاں نہ بنائیں، کام کریں کام!۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ سیاسی حکومت فیصلے کرنے کی قوت سے عاری رہتی ہے اور فیصلے ایسے جو بروقت کیے جائیں۔ سانحہ پشاور کے فوراً بعد مسلح افواج نے بلا تفریق جوابی کاروائی شروع کی ۔ اس جوابی کاروائی سے پہلے سے جاری ضرب عضب میں مزید تیزی آ گئی جبکہ خیبر ون میں ایک نیا ولولہ پیدا ہو گیا۔

صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناطے ہمیشہ سے پاکستان کے سیاسی حالات میں خصوصی دلچسپی رہی اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت ایک بہترین نظام ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کو ایک باندھی کے روپ میں ہی دیکھا۔ ہر کوئی جمہوریت کو صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہی استعمال کرتا رہا۔ اسی لیے لوگ آمریت کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے رہے۔ اگر حقیقی معنوں میں جمہوریت اس ملک میں نافذ کی جاتی تو آمریت کی مخالفت میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ عام عوام بھی سامنے آتے ۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ عوام آمریت کے خلاف اس طرح سے کبھی بھی سڑکوں پہ نہیں آئے جس طرح انہیں آنا چاہیے۔

مصنوعی ہی سہی لیکن آمر اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے کسی نہ کسی طرح عوام کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ آمر ہمیشہ اس وقت اقتدار پر قابض ہوتا ہے جب سیاستدان اسے جگہ مہیا کرتے ہیں۔ یہ جگہ وہ اپنے بیانات سے بھی مہیا کر سکتے ہیں اور اپنے افعال سے بھی ۔

سانحہ پشاور کے بعد سیاستدان جب ایک میز پر اکھٹے ہو گئے تو توقع یہی کی جا رہی تھی کہ اب شاید پاکستان کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کیا جا سکے گا۔ کیوں کہ ترقی اسی صورت ممکن تھی جب دہشت گردی کے عفریت کو ہاتھ ملا کر اکھاڑ پھینکا جائے۔ لیکن سب سے پہلے سیاسی قیادت نے خود کو کمیٹی کے بکھیڑوں میں الجھا لیا۔ حالانکہ تاریخ میں امر ہونے کے لیے فوری فیصلوں کی طاقت لازم ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدان یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں۔

عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو باقی سیاستدانوں کے لیے تو شاید قابل قبول نہ ہوں لیکن عوام کی ضرورت ہوں۔ قومی پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف سمیت اعلیٰ فوجی قیادت بھی شامل تھی۔ تمام صورت حال سے سیاستدانوں کو آگاہ کیا گیا۔ حالات کی سنگینی کا بتایا گیا۔ اس کے باوجود سیاستدانوں کو صرف فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کے لیے 10گھنٹے سے زیادہ لگے۔ وہ بھی اس لیے کہ وزیر اعظم صاحب نے فرما دیا کہ آج کا اجلاس تب ہی ختم ہو گا کہ جب اتفاق رائے ہو جائے۔


اسی لیے عوام کے دلوں میں سیاستدانوں کے لیے شکوک و شہبات جنم لیتے ہیں۔ پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ کسی معاملے کو لٹکانا ہو تو اس پر کوئی کمیشن یا کمیٹی بنا دو۔ اس معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے اور شاید کچھ وقت گزارنے کا ارادہ ہے۔ تا کہ لوگ اس سانحے کی سنگینی کو بھول جائیں۔ اور کسی نئے سانحے کو انتظار کرنا شروع کر دیں۔ فوج اور سیاسی حکومت میں تعلقات بھی اس سانحے کے بعد ایک دوراہے پر آ گئے ہیں۔ فوج نے فوری کاروائی بھی کی ۔ اور پھانسیاں بھی ہوئیں۔ لیکن سیاسی معاملات ابھی تک لٹکے ہوئے ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق بھی حقیقت میں سیاستدانوں کی نا اہلی ہے۔ ایک عرصہ ہوا جوڈیشل ریفارمز کا غوغا سن رہے ہیں۔ لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ اگر فوجی عدالتیں فوری فیصلے کر سکتی ہیں۔ فوری سزائیں دے سکتی ہیں تو یہی کام عدلیہ کیوں نہیں کر سکتی۔ عدلیہ کو با اختیار بنائیں۔ اصلاحات لائیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد سے سیاسی جماعتیں الگ الگ راگ الاپ رہی ہیں۔ اور جن سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ ہوں گے وہ پریشان بھی زیادہ ہوں گی ۔ شاید اسی لیے یقین دہانی حاصل کی جا رہی ہے کہ فوجی عدالتیں سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فوج اس وقت نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ اداروں کی کمزوری اور سیاستدانوں کی نا اہلی سے فوج کو وہ کام بھی کرنے پڑ رہے ہیں جو اس کی اولین ذمہ داری نہیں تھے۔ اور اب تو انصاف کے لیے بھی فوج کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان صرف پانچ سال کا سوچ کر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایسے فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جن کے نتائج دوررس ہوں۔ وہ صرف ایسے اقدامات کی طرف توجہ دیتے ہیں جو صرف پانچ سال ان کی حکومت کے لیے سود مند ہوں۔ اگر سیاسی حکومتیں اپنے فرائض سے پہلوتہی نہ برتیں تو فوج کو کبھی موقع ہی نہ ملے ۔ فوج کو موقع تو ہم اور ہمارے سیاستدان خود دیتے ہیں۔

حالیہ سانحے کے بعد سے اقدامات کا ہی جائزہ لیں تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ سیاسی حکومت ابھی تک اقدامات کا ہی فیصلہ نہیں کر پائی۔ جب کہ فوج مکمل طور پر مصروف عمل ہے۔ اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو سیاستدانوں کو رویہ تبدیل کر کے مضبوط اور بروقت فیصلے کرنا ہوں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story