لیڈری یا فتنہ پروری
سیاست دان یہ سمجھتےہیں کہ ملک میں لا قانونیت ہو گی توفوجی حکومت ملک پرقابض نہ ہوسکےگی مگر سیاست دانوں کی غلط فہمی ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے جہاں ہم کو سیاسی، جغرافیائی اور اقتصادی نقصانات ہوئے وہاں قیادت کا نقصان بھی ہوا اور تعلیمی اعتبار سے بھی ایک زیادہ پڑھی لکھی آبادی ہم سے دور ہو گئی۔ جس کی وجہ سے سیاسی پسماندگی میں بھی اضافہ ہوا اور باقی ماندہ پاکستان کے سیاسی حکمرانوں نے جاگیرداری سماج کو مضبوط تر کر دیا، معمولی سی بات ہے ذرا غور فرمائیں کہ جاگیرداری سماج کس طرح عوام پر عفریت کی طرح نازل ہے، بے چارہ کسان گنا پیدا کرتا ہے۔
اس کی قیمت گنا مل والے مقرر کرتے ہیں اور حاکم۔ پھر شکر کا ریٹ بھی خود گنا کرش کر کے مقرر کر دیا ہے کس طرح زراعت پر کنٹرول ہے۔ یہی حال کپاس کا بھی ہے یہاں معیشت پر حاکم کا کنٹرول ہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ دنیا میں انڈسٹریز کے مالک براہ راست حکمران نہیں ہوتے بلکہ ان کے نمایندے ہوتے ہیں اس طرح استحصالی قوت براہ راست پالیسی پر عمل در آمد نہیں کر پاتی مگر پاکستان میں یہ عمل براہ راست ہے۔
اس لیے ایک دکاندار کی طرح متحد ہو کر ریٹ ریٹ مقرر کرتی ہے جب تک پاکستان یک لخت تھا مغربی پاکستان کی سیاست مشرق کے زیر اثر رہی اور جب اس کے نمایندے 1970ء میں جیت گئے تو ہمارے لیڈروں نے نعرہ لگایا ''ادھر ہم ادھر تم'' جب 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو اس وقت بھی ہمارے سیاسی حکمرانوں کی چالبازیاں تھیں، اسکندر مرزا نے حماقت سے بھری ہوشیاری دکھائی اور حکومت کو سنوارنے کے بجائے آج کی جیسی سیاست دکھائی جا رہی تھی۔ کئی برس تک شدت پسندوں سے گفت و شنید میں لگائے اور کل تک جن لوگوں کو مفاہمت کی سیاست کا درس دیتے تھے اچانک کمر کس کے بیٹھ گئے۔
اسی کی سیاست دان ہوشیاری دکھا رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ فوجی کس حد تک آگے جا سکتے ہیں۔ سیاست دان اس ہوشیاری میں ہیں کہ فوج کو الجھا کر رکھو تا کہ ملک کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے کہ حکومت کس طور سے چلنی چاہیے۔ سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں لا قانونیت ہو گی تو فوجی حکومت ملک پر قابض نہ ہو سکے گی مگر سیاست دانوں کی غلط فہمی ہے۔ پاکستانی فوج مصری فوج سے کم نہیں اس سے زیادہ چوکس، ہوشیار اور با صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر ہے اور قوم پرستی کے جذبات سے سرشار بھی۔ بھانت بھانت کی بولی بولنے والے سیاست دان یہ نہیں جانتے کہ اگر فوج کے عدالتی راستے میں روڑے اٹکائے گئے تو پھر تصادم کا ہی راستہ بچ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی برسر اقتدار آنے والی پارٹیاں عوام میں اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں سرفروشی کے جواہر سے لیس نہیں بلکہ کرپشن سے بھرپور ہیں۔
کراچی کی قدیم بستی لیاری کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔ سیاسی گماشتے نسل و رنگ کے نام پر اپنے ہی لوگوں کو نابود کرنے میں مصروف ہو گئے، سیاست دانوں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستانی سیاست دانوں کے حالات ایسے ہی ہیں جیسا کہ 1958ء میں تھے۔ رہ گیا پاکستانی سیاست داں یہی سمجھ رہے ہیں کہ فوج بے بس ہوگئی ہے کیونکہ بین الاقوامی حالات اس کے حق میں ہیں اسی لیے نام نہاد جمہوریت جو NRO کی شکل میں امپورٹ کی گئی مگر امریکا کا جمہوریت کے لیے کوئی معیار نہیں، مغربی دنیا نے عرب سلاطین کی کس قدر حمایت کر رکھی ہے۔
اخوان المسلمین کی جمہوری حکومت کو کسی طرح کچل دیا، لہٰذا مجموعی طور پر جو حکومت امریکا کے لیے بہتر ہو گی۔ وہ اسی کی حمایت کرے گا نہ کہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری۔ پشاور سانحے کے بعد جمہوری حکومت غیر مقبول ہو چکی ہے اس لیے اگر عوام کو سکون میسر آتا ہے تو پھر فوجی حکومت کی عوام حمایت کریں گے۔ بے یقینی اور نام نہاد میڈیا کی آزادی کی آڑ میں جنگ زرگری کا تماشہ ان سب کھیلوں سے لوگ پریشان ہیں۔
ابھی گزشتہ دنوں بے نظیر بھٹو کا یوم شہادت منایا گیا مگر مجمع کس قدر کم تھا اور کس قدر بے اثر، اجتماع تھا اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ بے نظیر کا اثر جاتا رہا بلکہ بے نظیر کے خون کے قصاص پر حکومت اقتدار میں آئی اور ان کے کیس میں بے نظیر کے قتل کی سازش بے نقاب نہ ہو سکی اور وہ جستجو بھی نہ کی، بس وقت گزارا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوانوں میں ایک بھی نہ نجیب جیسا اور نہ منور سہروردی جیسا لیڈر موجود ہے اگر تھوڑا بہت کوئی جیالا باقی رہ گیا ہے تو وہ مسرور احسن، مگر قیادت کی اول صف میں ان کا شمار آج کل نہیں ہوتا۔ پیپلزپارٹی میں لیڈری اسی کے پاس ہے جس پر آصف زرداری کی نظر کرم ہے۔
مٹھی کے اسپتالوں میں غذائی قلت سے سیکڑوں بچے جاں بحق ہوئے اور ہوتے جا رہے ہیں مگر پارٹی میں بغاوت نہ ہوئی اور نہ ہو گی۔ یہ اپنے محلوں میں 200 یا 300 لوگ بھی جمع نہیں کر سکتے۔ صدر محفل بلا اور بلی کی نازیبا زبان استعمال کرتے رہے تا کہ عوام گمراہ ہوں اور غیر ضروری معاملات میں الجھا کر کنفیوژن پیدا کیا جائے جیسے پی پی پر کریک ڈاؤن ہونے کو ہے اور وہ بھی فوجی حکومت کی جانب سے گو کہ ایسا ہرگز نہیں پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کا عزم بلاول زرداری اور آصف علی زرداری کی جانب سے کیا جاتا رہا مگر ہر فیصلے میں محترمہ فریال تالپور کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
پارٹی کی فکری اور نظری بنیاد کمزور پڑتی جا رہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے جس نظریہ کو عام کیا اور امریکا کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل سفید ہاتھی کہہ کر مخاطب کیا اسی امریکا نے این آر او (NRO) کی ضمانت دے کر ملک میں جمہوریت بحال کروائی اس دور میں ملک میں لاقانونیت میں اضافہ ہوا،۔
پہلے مرحلے میں سیاسی پارٹیاں خوف میں مبتلا ہو کر فوجی عدالتوں کے لیے ''ہاں'' کر بیٹھیں مگر جب انھوں نے فوج کا رویہ سیاسی پارٹیوں کے لیے نرم پایا تو پھر وہ مگر گئیں ان حالات کا تجزیہ ایم کیو ایم کے قائد نے بہت بہتر کیا ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ بہت حد تک درست ہے اگر فوج کو اپنے اہداف کے حصول میں رکاوٹیں محسوس ہوئیں تو محض مارشل لاء کی جھلک کے بجائے فوج مارشل لاء کو اصل میں نافذ کر دے گی ایم کیو ایم دور بینی سے کام لے رہی ہے۔ نواز شریف کو بھی اس کا ادراک ہے کیوں کہ جنرل راحیل شریف نواز شریف کی تمام اہم میٹنگوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بے نظیر خود دہشت گردی کا شکار ہوئیں مگر پھر بھی پی پی پی دہشت گردی کو روکنے میں سنجیدہ نہیں۔
اگر خاکم بدہن موجودہ فوجی کارروائی کے خاطر خواہ نتائج نہ نکلے تو کیا یہ لیڈر حضرات ملک بچانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ہرگز نہیں۔ پاکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آتے آتے رہ گیا، درون خانہ پارٹیوں کے آپس کے خصوصاً پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کی چپقلش گفتگو برائے گفتگو چلتی رہے گی۔ پاکستان کا ہر فرد جو تقریباً90 ہزار کا مقروض ہے تو کیا ہم اور آپ نے قرض لیا ہے ظاہر ہے یہ لوٹ مار لیڈروں کی ہے اور اب بات مال سے بڑھ کر جان پر آ گئی ہے۔
محض شمع جلا کر عوام کو سکون نہیں مل سکتا لہٰذا خیبر پختونخوا میں دو ہفتہ گزارنے کے بعد بھی غم کی فضا کم نہ ہوئی بلکہ عام آدمی خود سانحہ پشاور کے غم کو منا رہے ہیں لیڈر پیچھے اور عوام خود آگے ہیں جو عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر عمران خان نے فوجی حکمت عملی کو محسوس نہ کیا تو وہ غیر مقبول ہو سکتے ہیں کہ لوگوں کو جان کی پڑی ہے۔ پورا پشاور بند ہے اور انھیں اقتدار کی پڑی ہے۔ حال کی بات ہے کہ سیلز ٹیکس پر 5 فی صد ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا نہ کہ 5 فی صد کا مزید ریلیف عوام کو ملتا۔