شہر قائد و لاہور میں آتشزدگی کے واقعات
دسمبر کی سرد ہواؤں میں ٹمبر مارکیٹ کی آتشزدگی کی تپش وہی محسوس کرسکتا ہے جس کا گھر اس کی آنکھوں کے سامنے جل رہا ہو۔
کتاب زیست کا ایک اور باب مکمل ہوا، 2015 کی صبح نے ایک نیا ورق الٹا دیا ، یہ الٹے ہوئے ورق برابر بڑھ رہے ہیں اور باقی ماندہ کم ہورہے ہیں ، ہم نے انفرادی حیثیت اور بحیثیت قوم ان صفحات میں کیا درج کیا؟ اس کی تفصیل سال 2014 کے باب میں درج ہوگی ۔
اچھی اور بری حکومتیں، شاد کام اور نامراد لوگ، بستی اجڑتی آبادیاں، امن اور جنگ کے ناہموار وقفے، ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں میں تاریخ کے متضاد مظہر، ایک ہی معاشرے اور ماحول میں کئی طبقاتی تضاد، ایک ہی عمل کے کئی مختلف نتائج، ایک نتیجے کے کتنے ہی عوامل، کوئی کم ہمت، کوئی بلند حوصلہ، کوئی شوشہ ایسا نہیں جو درج ہونے سے رہ گیا ہو ۔سال گزشتہ کے سورج نے 365 دنوں میں اہل پاکستان کو ہر روز ایک نیا غم دیا، ایک جانب دہشتگردی اپنے جوبن پر رہی تو دوسری جانب نااہلی، بد انتظامی، لا علمی اور بے حسی سے جنم لینے والے حادثات اہل وطن کے مصائب و آلام میں اضافے کا سبب بنے۔ سال کے اختتامی لمحات تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھے۔
اختتامی دنوں میں ملک کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں یکے بعد دیگرے آتشزدگی کے واقعات میں 13 انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ قوم کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ لاہور میں آگ کی نذر ہونیوالوں کا ماتم کرے یا کراچی میں ہونیوالے اربوں روپے کے نقصان پر آنسو بہائے۔ کراچی میں ماضی قریب میں دہشتگردی کی وارداتوں کے مختلف سانحات اور دیگر دل خراش واقعات تو ہوتے ہی رہے ہیں مگر سال کے آخر میں شہر قائد ایک بار پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ دسمبر کی سرد ہواؤں میں ٹمبر مارکیٹ کی آتشزدگی کی تپش وہی محسوس کرسکتا ہے جس کا گھر اس کی آنکھوں کے سامنے جل رہا ہو مگر وہ بے بس ہو اور کچھ کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو، زندگی بھر کی جمع پونجی کو جلتے دیکھ کر دل پر کیسی قیامت گزری ہوگی یہ وہی جان سکتا ہے جس نے قطرہ قطرہ کرکے دریا بنانے کی کوشش میں اپنی ساری عمر صرف کردی ہو۔
زندگی بھر دو جمع دو کو چار کرنیوالا جب کوئی اچانک صفر پر کھڑا ہوجائے تو کون ہے جو اس کی تہی دامانی کی انتہا کو معلوم کرسکے۔ کچھ ہونیاں ایسی بھی ہوتی ہے جو بالکل ان ہونی کی طرح ہم پر وارد ہوتی ہے، شاید انسان کی فطرت میں ہے کہ آخری لمحے تک طوفان ٹل جانے کی امید کہیں نہ کہیں باقی رہتی ہے مگر جن طوفانوں نے آنا ہوتا ہے وہ آکر رہتے ہیں اور اصل طوفان تو ہوتا ہی انھی کے لیے جنھیں کوئی سائبان میسر نہیں ہوتا یعنی بے سائبان کے لیے ہی طوفان ہوتا ہے۔
پرانا حاجی کیمپ کی ٹمبر مارکیٹ میں بھڑکنے والی آگ بجھنے تک اپنے ساتھ سیکڑوں لوگوں کے آشیانے بھی خاکستر کرگئی، دکانیں، گودام جل گئے، قریبی گھر نذر آتش ہوگئے، سیکڑوں گھرانوں کے سر سے چھت چھن گئی، لوگوں نے بمشکل جانیں بچائیں، تنگ گلیوں، پانی کی کمی، بجلی منقطع ہونے سے آگ بجھانے کے کام میں مشکلات پیش آئیں، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں دیر سے پہنچی اور پانی بھی ختم ہوگیا، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر متاثرین کی عمر بھر کی کمائی ضرور جل گئی۔
ہائے محرومی قسمت کہ اچھی حکمرانی ہمیں شجر نایاب کی طرح دستیاب نہیں،ستمبر 2012 میں بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں ہونے والی آتشزدگی اور سیکڑوں قیمتی جانیں شعلوں کی نذر ہونے کے اندوہناک واقعے سے بھی کسی نے سبق نہیں سیکھا اور ٹمبر مارکیٹ کی آتشزدگی کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف آگ اگلتے ہوئے نظر آئے۔
کراچی اور پھر لاہور میں آتشزدگی کے اندوہناک واقعات، ان سے نمٹنے کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں کی جانب سے کی جانیوالی کارروائیوں اور ہونیوالے نقصانات کے بعد لوگ طرح طرح کے سوالات کرتے نظر آرہے ہیں مگر اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کتنے محفوظ ہیں اور اگر وطن عزیز کے کسی شہر پر کوئی بڑی قدرتی آفت ٹوٹ پڑی یا کوئی بہت بڑا ناگہانی حادثہ ہوگیا تو شہریوں کی جان اور مال کس حد تک محفوظ ہوں گے؟
جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں ہنگامی حالات میں امدادی کارروائیاں کرنیوالے اداروں کے کردار، ان کے مقاصد اور تنظیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ زمانے کی ضرورتوں کے مطابق یہ عمل آج بھی جاری ہے، جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں شہری دفاع کے محکمے قائم ہوئے، تاکہ زمانہ جنگ میں سویلین آبادی کو جنگ کی تباہ کاریوں سے زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے، جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے بھی تیاریاں کی گئیں اور ان ہتھیاروں سے تحفظ کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کی گئیں۔
1970 کی دہائی میں بہت سے ممالک میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ ان اداروں کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے نئے سوالات نے جنم لیا۔ 1980ء کی دہائی میں سرد جنگ ختم ہونے سے دنیا کو لاحق جوہری خطرات میں کمی آئی لیکن جدید طرز زندگی کے تیزی سے فروغ کے باعث بہت سے دیگر خطرات میں اضافہ ہونے لگا، اگرچہ پہلے کے مقابلے میں اب دنیا میں بڑی جنگوں کی تعداد کم ہے، لیکن قدرتی آفات، انسانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہونیوالے حادثات اور دہشتگردی کے خطرات موجود ہیں اور موخر الذکر دو خطرات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں شہروں میں عمارتوں کی تعمیر کے بارے میں قوانین اور قواعد و ضوابط سے پہلے بلڈنگ کوڈ کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
عمارتوں کی تعمیر سے متعلق تمام اداروں کے قوانین اور قواعد و ضوابط بہت اچھے ہیں اور ان پر تفصیلات تک موجود ہیں کہ کتنے فاصلے پر کون سی سہولت ہوگی، کس قسم کا مٹیریل استعمال ہونا چاہیے، ان قوانین اور قواعد و ضوابط میں ترامیم کی گنجائش ہے لیکن اگر موجودہ قوانین پر ہی ان کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوجائے تو صورتحال میں بہت بہتری آسکتی ہے مگر یہ تمام نکات صرف کاغذوں کی سطح پر موجود ہیں، ان پر عملدرآمد کی صورت حال بہت خراب ہے۔ کاغذ کی حد تک تو سب ٹھیک ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اصل مسئلہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کے مرحلے میں موجود نقائص اور بدعنوانی ہے۔
بیش تر عمارتوں میں ہنگامی صورتحال میں انخلاء کے راستے نہیں ہیں اور نہ ان کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی۔ عمارتوں کے اندر اور فائر سروس کے پاس آگ بجھانے کی مناسب سہولتیں نہیں۔ بدعنوانیوں کی وجہ سے متعلقہ سرکاری ادارے مناسب طور پر کام نہیں کرپاتے۔ اصولاً عمارتوں میں ایک سے زائد ہنگامی راستے ہونے چاہئیں جو مخالف سمت میں ہوں، کثیرالمنزلہ عمارتوں میں ہیلی پیڈ بھی ہونے چاہئیں، داخلی راستے ایسے ہوں کہ ایمبولینس اور فائر ٹینڈر عمارت کی حدود میں داخل ہوسکیں۔ آج کل اکثر تجارتی و رہائشی عمارتوں میں مختلف اقسام کے تار پھیلے ہوتے ہیں، ایک داخلی راستہ ہوتا ہے۔
جس پر عموماً بجلی کے میٹر نصب ہوتے ہیں لہذا اندر داخل ہونا اور سیڑھی لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، گرل حرکت نہیں کرسکتی، گیس کے کنکشن کے لیے ربڑ کے پائپ استعمال کیے جاتے ہیں، بجلی کے تاروں اور آلات پر نظر نہیں رکھی جاتی، بجلی کی وائرنگ کے لیے ناقص مٹیریل استعمال کیا جاتا ہے، بچے موم بتی، اگربتی اور ماچس سے کھیلتے رہتے ہیں، لوگوں کو آگ بجھانے کا طریقہ معلوم نہیں، یہ تمام باتیں بہت خطرناک ہیں ۔
کراچی اور لاہور کے سانحے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اگر اس ملک میں قوانین پر عملدرآمد ہوتا تو ایسے حادثے رونما نہیں ہوتے اور اگر خدانخواستہ ہوتے تو اتنی جانیں ضایع نہ ہوتیں اور اتنا نقصان نہ ہوتا ۔ آج ملک بھر میں افراتفری کا عالم ہے، ہمارے محکمے انتظامی زوال کی نشانی بن چکے ہیں، اگر اس زوال کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو کوئی قومی سانحہ بھی رونما ہوسکتا ہے، کراچی کے سانحے کے حوالے سے سندھ حکومت کا فرض ہے کہ وہ حادثے کے اصل اسباب سامنے لائے جب کہ پنجاب حکومت پر بھی یہی فرض عائد ہوتا ہے کہ محض افسوس ظاہر کرکے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان کرنا ناکافی ہے، اصل کام تحقیقات اور قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔