کیوں اور کیسے
سپریم کورٹ اپنے مخصوص انداز سے جمہوری عمل کی حمایت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ اپنے مخصوص انداز سے جمہوری عمل کی حمایت کر رہی ہے۔
فخرالدین جی ابراہیم متفقہ چیف الیکشن کمشنر ہیں اور کھلے لفظوں میں انتباہ کر رہے ہیں کہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ لفظ شفاف پر زور دینے کا واضح مطلب یہ ہے کہ الیکشن تو ہر قیمت پر ہوں گے۔ آئین کی 20 ویں ترمیم غیر جانبدار اور اتفاق رائے سے قائم ہونے والی نگراں حکومتوں کی ضمانت دیتی ہے۔ پھر بھی ملک میں اس طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو حالات کی ذمے داری حکومت پر ہو گی یا غیر جانبدار نگراں حکومت نہ بنی تو الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں جو ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، کیسے اور کیوں نہیں ہوں گی؟ کسی نادیدہ قوت نے انھیں روکا تو ملک کا انجام کیا ہوگا؟
یہ ماننے میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں، دوسری طرف تیزی سے ایسے واقعات ہونے لگے ہیں جن کی سنگینی ایسے اشارے دے رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں انتخابات پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے اسٹیج تیار ہو رہا ہے۔ واقعات کے ساتھ ساتھ بعض ایسے ممتاز سیاستدان بھی سرگرم ہو گئے ہیں جو اہم مراکز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں انتخابی نہیں بلکہ خاص قسم کی ''انقلابی'' ہیں۔ یہ سیاستدان یا تو قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے سنائی دیتے ہیں کہ انتخابات مسئلے کا حل نہیں یا یہ کہ الیکشن ہوئے تو بہت خونریزی ہو گی۔ اس نوعیت کے بیانات ظاہر ہے کہ رائے عامہ کے ذہن کو متاثر کرتے ہیں اور یقینی نظر آنے والے انتخابات کو شبہات میں ڈال دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کے علاوہ تجزیہ نگاروں اور باخبر ذرائع کی طرف سے بھی پھلجڑیاں چھوڑی جا رہی ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ احتساب ہو گا، لوٹ مار کرنے والوں کو پکڑا جائے گا، جن کی فہرستیں بن گئی ہیں۔ اب یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ لسٹوں کے مطابق احتساب ہوتا ہے تو اس کی مدت تین ماہ تو نہیں ہو سکتی، جتنی لمبی لسٹیں ہوں گی، احتساب اتنے ہی زیادہ مہینوں بلکہ سالوں کا ہوگا۔ ماضی گواہ ہے، ہمارے ہاں تین مہینوں کے تین برس اور تین سالوں کے دس بنتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ایک بیان، ایک حکمنامہ یہ بتانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ انتخابات کیلیے فضا ساز گار نہیں، فضا کی ناسازگاری کے لیے امن وامان کی تشویشناک صورتحال اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ اس وقت بھی موجود ہے اور یہ خطرات آئندہ دنوں میں بڑھ بھی سکتے ہیں۔
بلوچستان کی صورت حال پہلے ہی بے قابو ہے۔ اب بلدیاتی آرڈیننس نے سندھ میں بھی بلدیاتی نظام کے تنازع کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ سندھ کی دو بڑی نمائندہ قوتوں نے گذشتہ روز اپنا فیصلہ سنا دیا، ایک جماعت اندرون سندھ اور دوسری جماعت شہری آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جمہوری ضابطوں کے مطابق دونوں جماعتوں کے متفقہ فیصلے کو اکثریت کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ لیکن سندھ کی قوم پرست قوتوں اور سندھ اسمبلی میں موجود مختصر سی اپوزیشن نے (جسے اپوزیشن بنے زیادہ دن بھی نہیں گزرے) اس نظام کو سندھ دشمن قرار دے کر مسترد کر کے ہڑتال اور مظاہرے شروع کردیے جو بڑے شہروں میں تو جزوی رہے لیکن انہیں اندرون سندھ کافی حد تک کامیاب کہا جا سکتا ہے۔
ہڑتال کے دوران پرتشدد واقعات ہوئے جن سے اشارہ ملتا ہے کہ بات ایک ہڑتال پر نہیں رکے گی بلکہ معاملہ آگے چلے گا۔ قوم پرستوں کے پاس ووٹ بینک کی قوت زیادہ نہ سہی لیکن اسٹریٹ پاور اور گھیرائو جلائو کی صلاحیت خاصی زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سانحہ پر اندرون سندھ جو خوفناک تشدد بھڑکا تھا ، اس نے حکومت کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دوران درجنوں ریل گاڑیاں، سینکڑوں ٹرانسپورٹ گاڑیاں، بے شمار دکانوں، مکانوں اور املاک کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ راستے بلاک کر دیے گئے، بہت سی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پرتشدد احتجاج میں پیپلز پارٹی کا حصہ کم اور بعض قوم پرستوں کا کردار زیادہ تھا۔ جو اس سانحے کو ''پاکستان نہ کھپے'' کے ایجنڈے کیلیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں آرڈیننس کی منظوری کے بعد 18یا 20 رکنی اپوزیشن نے ایوان میں شدید ہنگامہ کیا اور کہا کہ اس کے خلاف وہ چالیس سال سوگ منائیں تو بھی کم ہے۔ یہ آرڈیننس سندھ سے غداری ہے اور پیپلز پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اپوزیشن اور قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس سے سندھ عملاً دو صوبوں میں بٹ جائے گا۔ اس دلیل میں کوئی منطق ہو نہ ہو لیکن اپوزیشن اور قوم پرستوں نے اسے اپنا نعرہ بنا لیا ہے۔ حکومتی اتحادیوں پیپلز پارٹی اور متحدہ دونوں کا کہنا ہے کہ اس نظام سے سندھ تقسیم نہیں ہو گا۔ کیونکہ بنیادی طور پر سارے صوبے کے لیے ایک ہی نظام ہے، اس بحث کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط، ہم بطور ایک قوم بحث یا دلیل سے معاملات نبٹانے کی صلاحیت اور طاقت کھو چکے ہیں۔ سندھ کی قوم پرستوں قوتوں کے پیروکار صوبہ تقسیم ہونے کی باتوں پر بہت پریشان ہیں اور اتنے جذباتی ہیں کہ کوئی بھی ان کو مشتعل کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے اندر بھی کسی نہ کسی قسم کی اور کسی نہ کسی سطح کی پریشانی پائی جاتی ہے۔
بلدیاتی آرڈیننس کا قصہ بہت طویل ہے اور ڈیڑھ دو برسوں سے اس مسئلے پر پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان اختلافات اور مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اس کہانی میں کئی موڑ آئے۔ بات کئی بار بگڑی، کئی بار بنی، متحدہ نے بار بار حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی جس پر بالآخر پیپلز پارٹی نے اپنے حصے سے بڑھ کر لچک دکھائی اور اتحادی سیاست کی مجبوریوں کو من وعن قبول کر لیا۔
پیپلز پارٹی اگر یہ کہے کہ اس نے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تو بہت سے لوگ نہیں مانیں گے۔ لیکن وہ اس حوالے سے درست کہہ رہی ہو گی کہ اتحادی سیاست میں ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ اکثریتی پارٹی کو اصولوں پر کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ حکمران پارٹی ہونے کے ناتے سندھ میں امن وامان قائم کرنا پیپلز پارٹی کی ذمے داری ہے اور وہ متحدہ کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مخالفین نے اسے سندھ سے غداری کہہ دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ سے غداری کر ہی نہیں سکتی۔ وہ ایسا کرتی تو سندھ اسمبلی میں اپنے ارکان کو متحد نہ رکھ سکتی۔ اندرون سندھ کے عوام کی دل آزاری ضرور ہوئی ہے جسے مخالفین زیادہ سے زیادہ اُچھالیں گے اور آئندہ انتخابات میں اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
صدر آصف زرداری اب تک سیاست کا ہر کھیل سمجھداری سے کھیلتے رہے ہیں، اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ البتہ مخالفوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک یا دو روز شور مچا کر چپ ہوجائیں گے، غیر حقیقت پسندی ہو گی۔ حالات میں مزید خرابی ہوسکتی ہے جسے کے نتیجے میں بلدیاتی انتخابات کا پرامن انعقاد اپنی جگہ ایک مسئلہ ہو گا۔ بات کہاں پر جا کر رکے اور کہاں تک پہنچے گی، فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال بلدیاتی انتخابات کو نہیں روکا جا سکے گا۔ یہ بھی یقین رکھیں کہ متفقہ نگران حکومت بھی بنے گی اور شفاف الیکشن بھی ہوں گے کیونکہ موجودہ پاکستان اس کے بغیر اگلی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
فخرالدین جی ابراہیم متفقہ چیف الیکشن کمشنر ہیں اور کھلے لفظوں میں انتباہ کر رہے ہیں کہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ لفظ شفاف پر زور دینے کا واضح مطلب یہ ہے کہ الیکشن تو ہر قیمت پر ہوں گے۔ آئین کی 20 ویں ترمیم غیر جانبدار اور اتفاق رائے سے قائم ہونے والی نگراں حکومتوں کی ضمانت دیتی ہے۔ پھر بھی ملک میں اس طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو حالات کی ذمے داری حکومت پر ہو گی یا غیر جانبدار نگراں حکومت نہ بنی تو الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں جو ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، کیسے اور کیوں نہیں ہوں گی؟ کسی نادیدہ قوت نے انھیں روکا تو ملک کا انجام کیا ہوگا؟
یہ ماننے میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں، دوسری طرف تیزی سے ایسے واقعات ہونے لگے ہیں جن کی سنگینی ایسے اشارے دے رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں انتخابات پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے اسٹیج تیار ہو رہا ہے۔ واقعات کے ساتھ ساتھ بعض ایسے ممتاز سیاستدان بھی سرگرم ہو گئے ہیں جو اہم مراکز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں انتخابی نہیں بلکہ خاص قسم کی ''انقلابی'' ہیں۔ یہ سیاستدان یا تو قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے سنائی دیتے ہیں کہ انتخابات مسئلے کا حل نہیں یا یہ کہ الیکشن ہوئے تو بہت خونریزی ہو گی۔ اس نوعیت کے بیانات ظاہر ہے کہ رائے عامہ کے ذہن کو متاثر کرتے ہیں اور یقینی نظر آنے والے انتخابات کو شبہات میں ڈال دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کے علاوہ تجزیہ نگاروں اور باخبر ذرائع کی طرف سے بھی پھلجڑیاں چھوڑی جا رہی ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے بلکہ احتساب ہو گا، لوٹ مار کرنے والوں کو پکڑا جائے گا، جن کی فہرستیں بن گئی ہیں۔ اب یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ لسٹوں کے مطابق احتساب ہوتا ہے تو اس کی مدت تین ماہ تو نہیں ہو سکتی، جتنی لمبی لسٹیں ہوں گی، احتساب اتنے ہی زیادہ مہینوں بلکہ سالوں کا ہوگا۔ ماضی گواہ ہے، ہمارے ہاں تین مہینوں کے تین برس اور تین سالوں کے دس بنتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ایک بیان، ایک حکمنامہ یہ بتانے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ انتخابات کیلیے فضا ساز گار نہیں، فضا کی ناسازگاری کے لیے امن وامان کی تشویشناک صورتحال اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ اس وقت بھی موجود ہے اور یہ خطرات آئندہ دنوں میں بڑھ بھی سکتے ہیں۔
بلوچستان کی صورت حال پہلے ہی بے قابو ہے۔ اب بلدیاتی آرڈیننس نے سندھ میں بھی بلدیاتی نظام کے تنازع کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ سندھ کی دو بڑی نمائندہ قوتوں نے گذشتہ روز اپنا فیصلہ سنا دیا، ایک جماعت اندرون سندھ اور دوسری جماعت شہری آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جمہوری ضابطوں کے مطابق دونوں جماعتوں کے متفقہ فیصلے کو اکثریت کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ لیکن سندھ کی قوم پرست قوتوں اور سندھ اسمبلی میں موجود مختصر سی اپوزیشن نے (جسے اپوزیشن بنے زیادہ دن بھی نہیں گزرے) اس نظام کو سندھ دشمن قرار دے کر مسترد کر کے ہڑتال اور مظاہرے شروع کردیے جو بڑے شہروں میں تو جزوی رہے لیکن انہیں اندرون سندھ کافی حد تک کامیاب کہا جا سکتا ہے۔
ہڑتال کے دوران پرتشدد واقعات ہوئے جن سے اشارہ ملتا ہے کہ بات ایک ہڑتال پر نہیں رکے گی بلکہ معاملہ آگے چلے گا۔ قوم پرستوں کے پاس ووٹ بینک کی قوت زیادہ نہ سہی لیکن اسٹریٹ پاور اور گھیرائو جلائو کی صلاحیت خاصی زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سانحہ پر اندرون سندھ جو خوفناک تشدد بھڑکا تھا ، اس نے حکومت کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دوران درجنوں ریل گاڑیاں، سینکڑوں ٹرانسپورٹ گاڑیاں، بے شمار دکانوں، مکانوں اور املاک کو نذر آتش کر دیا گیا ۔ راستے بلاک کر دیے گئے، بہت سی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پرتشدد احتجاج میں پیپلز پارٹی کا حصہ کم اور بعض قوم پرستوں کا کردار زیادہ تھا۔ جو اس سانحے کو ''پاکستان نہ کھپے'' کے ایجنڈے کیلیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ سندھ اسمبلی میں آرڈیننس کی منظوری کے بعد 18یا 20 رکنی اپوزیشن نے ایوان میں شدید ہنگامہ کیا اور کہا کہ اس کے خلاف وہ چالیس سال سوگ منائیں تو بھی کم ہے۔ یہ آرڈیننس سندھ سے غداری ہے اور پیپلز پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اپوزیشن اور قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس سے سندھ عملاً دو صوبوں میں بٹ جائے گا۔ اس دلیل میں کوئی منطق ہو نہ ہو لیکن اپوزیشن اور قوم پرستوں نے اسے اپنا نعرہ بنا لیا ہے۔ حکومتی اتحادیوں پیپلز پارٹی اور متحدہ دونوں کا کہنا ہے کہ اس نظام سے سندھ تقسیم نہیں ہو گا۔ کیونکہ بنیادی طور پر سارے صوبے کے لیے ایک ہی نظام ہے، اس بحث کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں کہ کون درست ہے اور کون غلط، ہم بطور ایک قوم بحث یا دلیل سے معاملات نبٹانے کی صلاحیت اور طاقت کھو چکے ہیں۔ سندھ کی قوم پرستوں قوتوں کے پیروکار صوبہ تقسیم ہونے کی باتوں پر بہت پریشان ہیں اور اتنے جذباتی ہیں کہ کوئی بھی ان کو مشتعل کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے اندر بھی کسی نہ کسی قسم کی اور کسی نہ کسی سطح کی پریشانی پائی جاتی ہے۔
بلدیاتی آرڈیننس کا قصہ بہت طویل ہے اور ڈیڑھ دو برسوں سے اس مسئلے پر پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان اختلافات اور مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اس کہانی میں کئی موڑ آئے۔ بات کئی بار بگڑی، کئی بار بنی، متحدہ نے بار بار حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دی جس پر بالآخر پیپلز پارٹی نے اپنے حصے سے بڑھ کر لچک دکھائی اور اتحادی سیاست کی مجبوریوں کو من وعن قبول کر لیا۔
پیپلز پارٹی اگر یہ کہے کہ اس نے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تو بہت سے لوگ نہیں مانیں گے۔ لیکن وہ اس حوالے سے درست کہہ رہی ہو گی کہ اتحادی سیاست میں ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ اکثریتی پارٹی کو اصولوں پر کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ حکمران پارٹی ہونے کے ناتے سندھ میں امن وامان قائم کرنا پیپلز پارٹی کی ذمے داری ہے اور وہ متحدہ کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مخالفین نے اسے سندھ سے غداری کہہ دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ سے غداری کر ہی نہیں سکتی۔ وہ ایسا کرتی تو سندھ اسمبلی میں اپنے ارکان کو متحد نہ رکھ سکتی۔ اندرون سندھ کے عوام کی دل آزاری ضرور ہوئی ہے جسے مخالفین زیادہ سے زیادہ اُچھالیں گے اور آئندہ انتخابات میں اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
صدر آصف زرداری اب تک سیاست کا ہر کھیل سمجھداری سے کھیلتے رہے ہیں، اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ البتہ مخالفوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک یا دو روز شور مچا کر چپ ہوجائیں گے، غیر حقیقت پسندی ہو گی۔ حالات میں مزید خرابی ہوسکتی ہے جسے کے نتیجے میں بلدیاتی انتخابات کا پرامن انعقاد اپنی جگہ ایک مسئلہ ہو گا۔ بات کہاں پر جا کر رکے اور کہاں تک پہنچے گی، فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال بلدیاتی انتخابات کو نہیں روکا جا سکے گا۔ یہ بھی یقین رکھیں کہ متفقہ نگران حکومت بھی بنے گی اور شفاف الیکشن بھی ہوں گے کیونکہ موجودہ پاکستان اس کے بغیر اگلی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔