مودی حکومت کا قیام اور پاک بھارت کشیدگی کا مستقبل

13.1 ارب ڈالر کے دفاعی منصوبوں اوراسرائیلی دفاعی نظام ’’اسپائیک‘‘ کی خریداری کا مقصد کیا ہے؟

13.1 ارب ڈالر کے دفاعی منصوبوں اور اسرائیلی دفاعی نظام ’’اسپائیک‘‘ کی خریداری کا مقصد کیا ہے؟۔ فوٹو: فائل

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اوران کی کابینہ آئے دن پاکستان کے خلاف تند و تیزبیانات اور بھارتی سیکیوریٹی فورسزکی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جارحیت نے، جہاں خطے کے امن پر سوالیہ نشان لگائے، وہاں مودی سرکار کے کشمیر سے متعلق عزائم بھی اب دنیا کے سامنے طشت ازبام ہو چکے ہیں۔

مودی کی بھونڈی انتخابی سیاست اورجنگی جنون نے ایک طرف امن کے پیروکاروںکوگہری مایوسی میںدھکیل دیا ہے تو دوسری طرف خطے میںاستحکام کی خواہش مند قوتوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جنتاپارٹی کی حکومت کے بعد پاکستان کے پڑوس میںایک نیا بھارت وجود میں ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مودی پاکستان سے نفرت کی ایک بڑی علامت بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی اس سوچ نے اُن کی مقبولیت کو چارچاند تو لگادیے مگر بھارت کے سیکیولر ریاست ہونے کے دعوے کا جنازہ بھی نکال دیا اور بین الاقوامی برادری کے سامنے ان کی انتہا پسند ذہنیت آشکار کر دی ہے۔

نریندر مودی کے وزیراعظم بنتے ہی وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف نے مودی کی تقریب حلف برداری میںشرکت کی دعوت قبول کر کے خطے میں امن و استحکام اور جامع مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنے کے جذبے کا عملاً اظہار کیا تھا، جس پرابتدا میں مودی حکومت نے بھی مثبت ردعمل دکھایا۔ وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے دی جانے والی دورۂ پاکستان کی دعوت بھی قبول کی اور خارجہ سیکریٹریز کی سطح پر جامع مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا اعلان بھی کردیا مگر بعد میں بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی طرف سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کا عذر لنگ تراش لیا اور اگست میں ہونے والے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرلی۔

یوں امن کا موقع عملاً سبوتاژکردیا گیا،حال آں کہ حریت کانفرنس کے رہ نماؤں سے پاکستانی ہائی کمشنرز اور بھارت کا دورہ کرنے والے پاکستانی رہنماؤں کی ملاقاتیں روایت کاحصہ رہی ہیں، جن پرکسی بھارتی حکومت نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا حتٰی کہ بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی اپنے دورحکومت میں ان ملاقاتوں پرمعترض نہیں ہوئے تھے۔ نومبر میں کھٹمنڈو سارک کانفرنس کے انعقاد میں بھی مودی کا رویہ جس طرح کانظر آیا، اُس نے بھی بہت سے راز عیاں کر دیے تھے۔

ان حالات میں پاک فوج، جہاں بھارت کی کھلی جارحیت کا جواب دے رہی ہے، وہاں وہ سرحد پار عام کشمیریوں کی جان و مال کے تحفظ کو بھی ممکن بنا رہی ہے کہ کہیں جوابی فائرنگ سے وہ متاثر نہ ہو جائیں، اب وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان نے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے مبصر مشن کو آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے سرحدی علاقوں کا دورہ کر ایا تھا۔ مشن نے بھارتی جارحیت سے ہونے والی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بھارتی ''سورماؤں ''کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے عام شہریوں سے بھی ملاقات کی۔

پاکستان نے اس جارحیت کو اقوام متحدہ میں اٹھایا اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ اُمور سرتاج عزیز نے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو فون کر کے ان کی توجہ بھارت کے اس خطرناک کھیل کی طرف دلائی مگر مودی کے ان جارحانہ اقدامات کی بھارتی میڈیا میں یہ تشریح کی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذ پر کشیدگی کو بام عروج پر پہنچا کر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اس دیرینہ خواب اور انتخابی وعدے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، جس کا بھارتیہ جتنا پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کر رکھا ہے۔



اس بات کی تصدیق بی جے پی کے صدر اور مودی کے دست راست امیت شاہ کا یہ اعلان تھا کہ '' مشن 44 پلس'' بھارتی جتنا پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی 84 رکنی ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے سری نگر میں پہلا ہندو یا غیر مسلم وزیر اعلیٰ لانا ہے، اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان مخالف اقدامات کو ہوا دی جا رہی ہے کیوں کہ بی جے پی اس حکمت عملی کا ہریانہ اور مہاراشٹر کی ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں کام یاب تجربہ کرچکی ہے۔

نریندر مودی نے دیوالی سری نگر میں منائی تھی۔ ان کے اس اقدام کا مقصد بہ ظاہر متاثرین سیلاب کے ساتھ اظہاریک جہتی تھا حال آں کہ تمام متاثرین سیلاب مسلمان اور سکھ تھے، جن کا ہندو تہوار سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا تھا۔ حسب سابق مودی کی آمد پر مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال رہی اور پورا علاقہ فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتا رہا۔ نریندر مودی یہاں متاثرین سیلاب کے ساتھ نظر نہیں آئے البتہ وہ بلند ترین محاذجنگ سیاچن پر بھارتی فوجیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے دکھائی دیے۔

دیوالی بھارتی فوج کے ساتھ منا کر مودی نے جہاں اپنی بھونڈی انتخابی سیاست کو آگے بڑھایا، وہاں اپنے جنگی جنون کے عزائم کو بھی آشکار کیا۔ اصل میںمودی حکومت مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر کے اسے ہڑپ کرنے اور تین حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کر چکی ہے۔ کشمیر کو یہ خصوصی آئینی درجہ بھارتی آئین کی شق 310 کے تحت حاصل ہے، جسے ختم کرنا بی جے پی کا منشور ہے۔


دوسری طرف بھارتی حکومت خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں میںبھی پوری شدومد سے لگی ہوئی ہے۔ مودی نے وزارت عظٰمیٰ سنبھالنے کے بعد بھوٹان اورنیپال کا دورہ کیا، وہیں وہ نیویارک میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر بنگلہ دیش اور سری لنکا کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں اور آج کل ان کی بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجدسے توگاڑھی چھن رہی ہے۔ خطے کاٹھیکے داربننے کے چکرمیں بھارت نے سری لنکا میں چینی آب دوزوں کی آمد پرچین اورسری لنکا، دونوں سے احتجاج بھی کیا، جسے دونوں ملکوں نے مستردکردیا ہے۔

مودی سرکار ایک طرف توخطے میںپاکستان کے گردگھیرا تنگ کرنے کی کوششوںمیں مصروف ہے تو دوسری طرف بھارت کوعلاقائی طاقت بنانے کے خبط میں بھی مبتلا ہے اوراپنے اس جنگی جنون کوعملی جامہ پہنانے کے لیے بھارتی حکومت نے حال ہی میں 13.1 ارب ڈالر کے دفاعی منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جن کے تحت بھارت سوویت دور کے جنگی سازو سامان کو جدید بنایا جائے گا اور مقامی دفاعی انڈسٹری کی استعداد کار بھی بڑھائی جائے گی۔

یہ منصوبے کافی عرصے سے زیر التوا تھے تاہم مودی سرکارنے ان کوآگے بڑھانے کااعلان کیاہے۔ بھارتی حکومت اس سے قبل جون میں بھی ساڑھے 3 ارب ڈالر کے منصوبوں کی منظوری دے چکی تھی، یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران پاکستان پر درپردہ جنگ کا الزام عائد کیا تھا کہ بھارت بندوقوں کی گھن گرج نہیں، ترقی چاہتا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب کے دوران پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کشمیر میں شدت پسندوں کی پشت پناہی کر کے پراکسی وار لڑنے میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دراصل باقاعدہ روایتی جنگ کی سکت نہیں رکھتا، اسی لیے وہ شدت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔



دوسری طرف پاکستان خطے میں دونوں طرف کے عوام کی خوش حالی کے ایجنڈے کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے بھارت کو اپنے اس وعدہ کو یاد دلانا چاہتا ہے، جو اس کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کیا تھا اور جس کا تاریخی ریکارڈ قراردادوں کی صورت میں موجود ہے۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق منصفانہ طور پر حل ہونا چاہیے۔ جہاں تک جموں و کشمیر میں پراکسی وار کے الزام یا وسیع تر معنوں میں پاکستان کی روایتی جنگی صلاحیت کا معاملہ ہے، تو بھارت سمیت دیگر طاقتوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی طاقت ہے۔

اس کے کوئی جارحانہ جنگی عزائم نہیں ہیں، اس کے 18 کروڑ سے زیادہ عوام امن پسند ہیں، جب کہ نائن الیون کے بعد سے وہ دہشت گردی کے داخلی اور عالمی عفریت اور اس کے پیدا کردہ معاشی و تزویراتی خطرات کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کرلڑ رہا ہے اور خطے کے مجموعی انسانی مفادات کے تحفظ کی بھی اس کے عوام اور افواج پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ مودی حکومت کرپشن کے خلاف مہم چلانے کی بات تو کرتی ہے مگر اس کے کروڑوں عوام غربت ، بیماری، تشدد اور جرائم کے خاتمہ کے لیے نئے وزیراعظم کے اقدامات پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

جنگ مسائل کا حل نہیں، نریندر مودی کو پاک بھارت کور ایشوز پر بات چیت کے میکنزم اور روڈ میپ کی تیاری میں مشترکہ سفارتی اقدامات پر توجہ دینا چاہیے۔ مودی نے دہشت گردی کو بھارت کے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تعمیر و ترقی کے اتنے وسائل دست یاب کروائیں گے کہ تشدد، نفرت اور ٹکراؤ کی فضا ترقی اورخوش حالی کی فضا میں بدل جائے گی مگر نریندر مودی نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاچن کے معاملے پر پاکستان سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بھارت کے لیے لداخ کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے پاکستان کے تمام تر تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لداخ میں متنازع نیمو بازگو ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور سرینگر ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا۔

مودی سرکارنے صرف اسی پراکتفا نہیں کیا بل کہ امریکی میزائل شکن دفاعی سسٹم کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی دفاعی نظام ''اسپائیک'' خریدنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل سے معاہدے کے تحت کم از کم 8 ہزار اسپائک میزائل اور 300 لانچرز خریدے جائیں گے، جن کی مالیت 5 کروڑ 25 لاکھ ڈالر یا 32 ارب روپے ہوگی۔ یہ نظام امریکی دفاعی نظام جیو لائن سے بہتر ہے۔

امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی بھارت سے اس نظام کی خریداری کے لیے بات چیت کر رہے ہیں کیوں کہ یہ دونوں ملکوں میں گہرے دفاعی تعلقات کا حصہ ہے۔ اس سے بھی دوقدم آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی حکومت نے چین کے ساتھ اپنی دشوارگزار سرحد پر اربوں روپے کی لاگت سے سڑک تعمیرکرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ دفاعی ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان سے سرحدی جھڑپوں اور چین کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میںبھارت کا یہ اقدام اس کی فوجی صلاحیت بڑھانے اورعلاقائی طاقت بننے کے خواب کوعملی جامہ پہنانے کا عملی اظہارہے۔
Load Next Story