بات کچھ اِدھر اُدھر کی 2014 کے بہترین ڈرامے
ہمارے ڈراموں پر موسم کی تبدیلی ، سال کا اختتام، ملکی حالات ، عید، رمضان وغیرہ اثر انداز نہیں ہوتے۔
سال 2014 کا اختتام ہوچکا ہے لیکن جو لوگ پاکستانی ڈراموں کے شوقین ہیں اُن کو پتہ ہوگا کہ ہمارے ڈراموں پر موسم کی تبدیلی ، سال کا اختتام، ملکی حالات ، عید، رمضان وغیرہ اثر انداز نہیں ہوتے۔ البتہ عید کے موقع پر خصوصی ڈرامے ضرور تیار کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس طرح حالات ہمارے ڈراموں پر اثر انداز نہیں ہوتے بالکل ویسے ہی یہ ہمارے گھریلوں کرداروں بھی انہی ڈراموں کی طرح ہوتے ہیں، یعنی جو جیسا ہے وہ ہر وقت پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی طرح ویسا ہی رہتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دراصل پاکستانی ڈرامے ہمارے غیر متغیر مزاج کو ہی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا سال کے اختتام پر میں نے چند پاکستانی ڈراموں کا جائزہ لیا ہے ، جو میری نظر میں 2014 کے بہترین ڈراموں میں شامل ہیں۔
'محبت اب نہیں ہوگی' کی نہ کاسٹ بڑے اداکاروں پر مشتمل تھی اور نہ ہی رائٹر جانی پہچانی تھی۔لیکن اس کی کہانی معاشرے کے اُس پہلو کے گرد گھوم رہی تھی جو اکثر ہمارے گھروں میں شادی کے بعد رونما ہوتے ہیں۔دیور، بھابی اور میاں بیوی کے درمیان جو کشمکش دکھائی گئی ہے وہ حقیقت کے قریب تر ہے۔ایک لڑکی کو کتنی محتاط زندگی گزارنی چاہئے ،دیور بھابی کی بے تکلفی کو کس نظر دیکھا جاتا ہے اور بڑوں کا مسائل کو بگاڑنے اور سنوارنے میں کیا کردار ہوتا ہے، یہ کہانی کے نتائج تھے جو میری نظر میں بہترین کوشش تھی۔
'میرے ہمدم میرے دوست' کی کہانی بڑی عمرکے شخص کی چھوٹی عمر کی لڑکی سے محبت کی ہے۔کہانی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ڈرپوک لڑکی کوایک بڑی عمر کا شخص ہی معاشرے سے لڑنے کا فن سیکھا سکتا ہے۔ کہانی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بڑی عمر کا شخص جو اکثر چھوٹی عمر کی لڑکی کو ورغلا لیتا ہے یہاں اس کے بر عکس بڑی عمر کا شخص لڑکی کو نہ صرف حوصلہ دیتا ہے بلکہ سماج کی خاطر اپنے محبت کے جذبے کو بھی دبا کر رکھتا ہے اور چار لوگوں کے سامنے اپنی محبت ظاہر نہیں کر تا۔ دوسری طرف ایک لڑکی اپنی محبت کا اظہار اپنے باپ کے سامنے کس مہذب انداز میں کرتی ہے وہ اس ڈرامے کاایک منفرد پہلو ہے۔
ڈرا مہ سیریل 'شناخت' ایک ایسے حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ہم بعض دفعہ پوری زندگی شناخت نہیں کر پاتے۔ہمیں اکثر اپنی اندرونی شناخت کا پتہ نہیں ہوتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔اس کہانی میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ سادہ اور مذہبی خیالات رکھنے والے لوگوں کی زندگی خوش اسلوبی سے گزرتی ہے جبکہ فیشن ایبل لوگوں کو اپنی صحیح اور اصل شناخت کا ساری زندگی پتہ نہیں ہوتا۔وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کر بیٹھتے ہیں وہ اس بات سے لاعلم رہتے ہیں ۔ اور بلآخر اُن کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
ڈرامہ 'شکوہ' کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ والدین بچوں کی قوتِ پرواز سے بھی ڈرتے ہیں۔بے جوڑر شتے اور بے جوڑ محبت حماقت ہوتی ہے۔اپنی زندگی کی حقیقت کو قبول کرنے سے انسان مطمئن تو ضرور ہو جاتا ہے لیکن خوش نہیں ہوتا۔گوکہ کہتے تو ہیں کہ
محبوب کا بوڑھاپا لذت دلا رہا ہے
انگور کا مزہ کشمش میں آرہا ہے
لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ بڑی عمر کے مرد کا بڑھاپا آخرکار جوان بیوی کیلئے اس طرح وبال بن جاتا ہے کہ بیچ زندگی میں اُس کو چھوڑ دیتا ہے۔سمجھوتے کی زندگی عذاب ہوتی ہے۔البتہ ڈرامے کااختتام پورے ڈرامے کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔
'بشر مومن' گو کہ حد سے زیادہ طوالت اختیار کرتا گیا اورا سٹار پلس کے ڈراموں کے رجحانات بھی تھوڑے اس ڈرامے پر اثر انداز ہو رہے تھے ، لیکن اس ڈرامے کی اچھی بات اس کی جاندار کہانی ہے جس میں ایک طرف یہ دیکھایا گیا ہے کہ ایک اچھی اور محبت کرنے والی بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہے، دوسری جانب نفرت کی آگ کس طرح خاندان کے لوگوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے ۔ لیکن محبت کی تلاش انسان کو بشر بننے پر مجبور کرتی ہے۔ڈرامے کی غیرضروری طوالت بنیادی کہانی کی بجائے ثانوی کرداروں پر رائٹر کی توجہ تھی۔ میری خیال میں یہ ایک بہترین ڈرامہ تھا۔
'موسم ' ڈرامہ روایتی انڈین فلم تھیم Love Triangle پر مبنی تھا جس میں محبت اور حسد کے عناصر دیکھائے گئے ہیں۔گوکہ یہ ڈرامہ سیزن کا بہترین ڈرامہ ثابت نہ ہوسکا لیکن آخر میں جیسے تیسے کہانی کو لپیٹ دیا گیا۔شازیہ کی سازشوں کو اُس کی ماں نے قسمت کے خلاف لڑنے سے تعبیر کرکے شازیہ کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تو کی تھی، لیکن شاید شازیہ جیسے لوگوں کو سازشوں سے دور رکھنے کیلئے ان کو سبق سیکھانا ہے بہتر ہے۔
'فراق' میں انسان کے اندر کی لڑائی کو حقیقی روپ میں دکھایا گیا ہے۔اپنے قریبی رشتوں پر شک کرکے ہم اپنی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ مرد کی سوچ کہ وہ دوسری شادی کرکے خوش رہ سکتا ہے، کوڈرامے میں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
'میں بشرا' عورت کی معاشرے کے خلاف جدوجہد پر مبنی کہانی تھی۔ بیٹی کا ہرصورت باپ کو یہ دکھانا کہ بیٹیاں کسی صورت بیٹوں سے کم نہیں ہوتی ڈرامہ کا مرکزی خیال تھا۔اس خیال کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لڑکی کا اچھا نام رکھنے سے قسمت بدلتی ہے اور اگلا بچہ یقینا نر پیدا ہوگا۔ یہی سوچ آج بھی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔
ڈرامہ 'لا' غیر یقینی طور بہت جلد ختم کر دیا گیاشاید وجہ vieweship کی کمی ہو۔خیر ڈرامے کی کہانی میں دم تھا لیکن کام نہیں بنا۔سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا ، کہانی کا مرکزی خیال ہے۔حسب نسب ، دولت اور جھوٹی عزت کچھ نہیں یہ خیالات اچھی طرح پیش کئے گئے۔
'اضطراب' کی کہانی ایک مرد اور دو بیویاں والی کہانی ہے۔کہانی میں پہلی بیوی کی کینسر کی بیماری کہانی میں نیا موڑ لیکر آتی ہے۔جان لیوا بیماری کی صورت میں انسان کے خیالات کیسے تبدیل ہوتے ہیں، اس پہلو کو اچھی طرح پیش کیا گیا ہے۔ دوسری بیوی کی غیر مشروط محبت بھی اس ڈرامے کا ایک نیا انداز تھا۔
'محبت صبح کا ستارہ ہے' کی کہانی بنیادی طور پر امیر غریب کے فرق کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ظالم اور مفاد پرست لوگ ہر طبقے میں ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود خوب صورتی کے ساتھ ڈرامے کا احتتام کیا گیا جو لوگوں کے لئے اس اچھا پیغام تھا۔
'پیارے افضل' جس سے یا تو بات نہیں ہوتی یا پھر پوری بات نہیں ہوتی اور آخر میں بات تو پوری کر گیا لیکن اپنے حصے کی زندگی بھی پوری کر گیا۔ افضل کا جو انجام ہوا وہ پیار کا انجام نہیں تھا بلکہ ایک ایسے فرد کا انجام تھا جو برائی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور لڑتے لڑتے مر جاتا ہے۔ پیارے افضل اس سال کا بے حد مقبول ڈرامہ تھا جس کے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
کہانی کاا سکرپٹ اپنی جگہ لیکن اداکاروں کی پرفارمنس ہی ڈرامے میں جان ڈالتی ہے۔ اکثر اداکاری کی کمی کی وجہ سے اچھے سے اچھا ڈرامہ فلاپ ہوجاتا ہے۔
میری نظر میں بہترین کہانی ڈرامہ 'شکوہ' کی تھی جو آخر تک رائٹر (سروت نظیر) کے کنٹرول میں تھی اورکہانی کا اختتام بھی ڈرامے کے میں تھیم سے قریب تر تھا۔
اسی بنیاد پر بہترین اداکارہ ڈرامہ کی ہیروئین 'مہر' (سونیا حسین)کو ہی قرار دوں گا جس نے نہ صرف پریشان لڑکی کا کردار بخوبی ادا کیابلکہ ایک بوڑھی ماں کا کردار بھی زبردست ادا کیا۔
2014 کے بہترین اداکار پیارے افضل ہی ہے جس نے نہ صرف ناکام عاشق کا کردار ادا کیا، بلکہ کرکٹر،غنڈہ،نافرمان اولاد،اور آخر میں فلم شعلے کے امیتابھ بچن اور ڈرامہ دھواں کے نبیل کےا سٹائل میں مرنے کی بھی خوب صورت اداکاری کی۔
امید ہے کہ 2015 بھی ٹی وی ڈراموں کی دنیا کے لحاظ سے ایک بہترین سال ثابت ہوگا۔
واضح رہے کہ تمام ڈراموں کا درجہ بندی کی بنیاد پر جائزہ نہیں لیا گیا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
'محبت اب نہیں ہوگی' کی نہ کاسٹ بڑے اداکاروں پر مشتمل تھی اور نہ ہی رائٹر جانی پہچانی تھی۔لیکن اس کی کہانی معاشرے کے اُس پہلو کے گرد گھوم رہی تھی جو اکثر ہمارے گھروں میں شادی کے بعد رونما ہوتے ہیں۔دیور، بھابی اور میاں بیوی کے درمیان جو کشمکش دکھائی گئی ہے وہ حقیقت کے قریب تر ہے۔ایک لڑکی کو کتنی محتاط زندگی گزارنی چاہئے ،دیور بھابی کی بے تکلفی کو کس نظر دیکھا جاتا ہے اور بڑوں کا مسائل کو بگاڑنے اور سنوارنے میں کیا کردار ہوتا ہے، یہ کہانی کے نتائج تھے جو میری نظر میں بہترین کوشش تھی۔
'میرے ہمدم میرے دوست' کی کہانی بڑی عمرکے شخص کی چھوٹی عمر کی لڑکی سے محبت کی ہے۔کہانی میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ڈرپوک لڑکی کوایک بڑی عمر کا شخص ہی معاشرے سے لڑنے کا فن سیکھا سکتا ہے۔ کہانی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بڑی عمر کا شخص جو اکثر چھوٹی عمر کی لڑکی کو ورغلا لیتا ہے یہاں اس کے بر عکس بڑی عمر کا شخص لڑکی کو نہ صرف حوصلہ دیتا ہے بلکہ سماج کی خاطر اپنے محبت کے جذبے کو بھی دبا کر رکھتا ہے اور چار لوگوں کے سامنے اپنی محبت ظاہر نہیں کر تا۔ دوسری طرف ایک لڑکی اپنی محبت کا اظہار اپنے باپ کے سامنے کس مہذب انداز میں کرتی ہے وہ اس ڈرامے کاایک منفرد پہلو ہے۔
ڈرا مہ سیریل 'شناخت' ایک ایسے حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ہم بعض دفعہ پوری زندگی شناخت نہیں کر پاتے۔ہمیں اکثر اپنی اندرونی شناخت کا پتہ نہیں ہوتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں۔اس کہانی میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ سادہ اور مذہبی خیالات رکھنے والے لوگوں کی زندگی خوش اسلوبی سے گزرتی ہے جبکہ فیشن ایبل لوگوں کو اپنی صحیح اور اصل شناخت کا ساری زندگی پتہ نہیں ہوتا۔وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کر بیٹھتے ہیں وہ اس بات سے لاعلم رہتے ہیں ۔ اور بلآخر اُن کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
ڈرامہ 'شکوہ' کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ والدین بچوں کی قوتِ پرواز سے بھی ڈرتے ہیں۔بے جوڑر شتے اور بے جوڑ محبت حماقت ہوتی ہے۔اپنی زندگی کی حقیقت کو قبول کرنے سے انسان مطمئن تو ضرور ہو جاتا ہے لیکن خوش نہیں ہوتا۔گوکہ کہتے تو ہیں کہ
محبوب کا بوڑھاپا لذت دلا رہا ہے
انگور کا مزہ کشمش میں آرہا ہے
لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ بڑی عمر کے مرد کا بڑھاپا آخرکار جوان بیوی کیلئے اس طرح وبال بن جاتا ہے کہ بیچ زندگی میں اُس کو چھوڑ دیتا ہے۔سمجھوتے کی زندگی عذاب ہوتی ہے۔البتہ ڈرامے کااختتام پورے ڈرامے کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔
'بشر مومن' گو کہ حد سے زیادہ طوالت اختیار کرتا گیا اورا سٹار پلس کے ڈراموں کے رجحانات بھی تھوڑے اس ڈرامے پر اثر انداز ہو رہے تھے ، لیکن اس ڈرامے کی اچھی بات اس کی جاندار کہانی ہے جس میں ایک طرف یہ دیکھایا گیا ہے کہ ایک اچھی اور محبت کرنے والی بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہے، دوسری جانب نفرت کی آگ کس طرح خاندان کے لوگوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے ۔ لیکن محبت کی تلاش انسان کو بشر بننے پر مجبور کرتی ہے۔ڈرامے کی غیرضروری طوالت بنیادی کہانی کی بجائے ثانوی کرداروں پر رائٹر کی توجہ تھی۔ میری خیال میں یہ ایک بہترین ڈرامہ تھا۔
'موسم ' ڈرامہ روایتی انڈین فلم تھیم Love Triangle پر مبنی تھا جس میں محبت اور حسد کے عناصر دیکھائے گئے ہیں۔گوکہ یہ ڈرامہ سیزن کا بہترین ڈرامہ ثابت نہ ہوسکا لیکن آخر میں جیسے تیسے کہانی کو لپیٹ دیا گیا۔شازیہ کی سازشوں کو اُس کی ماں نے قسمت کے خلاف لڑنے سے تعبیر کرکے شازیہ کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تو کی تھی، لیکن شاید شازیہ جیسے لوگوں کو سازشوں سے دور رکھنے کیلئے ان کو سبق سیکھانا ہے بہتر ہے۔
'فراق' میں انسان کے اندر کی لڑائی کو حقیقی روپ میں دکھایا گیا ہے۔اپنے قریبی رشتوں پر شک کرکے ہم اپنی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ مرد کی سوچ کہ وہ دوسری شادی کرکے خوش رہ سکتا ہے، کوڈرامے میں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
'میں بشرا' عورت کی معاشرے کے خلاف جدوجہد پر مبنی کہانی تھی۔ بیٹی کا ہرصورت باپ کو یہ دکھانا کہ بیٹیاں کسی صورت بیٹوں سے کم نہیں ہوتی ڈرامہ کا مرکزی خیال تھا۔اس خیال کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لڑکی کا اچھا نام رکھنے سے قسمت بدلتی ہے اور اگلا بچہ یقینا نر پیدا ہوگا۔ یہی سوچ آج بھی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔
ڈرامہ 'لا' غیر یقینی طور بہت جلد ختم کر دیا گیاشاید وجہ vieweship کی کمی ہو۔خیر ڈرامے کی کہانی میں دم تھا لیکن کام نہیں بنا۔سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا ، کہانی کا مرکزی خیال ہے۔حسب نسب ، دولت اور جھوٹی عزت کچھ نہیں یہ خیالات اچھی طرح پیش کئے گئے۔
'اضطراب' کی کہانی ایک مرد اور دو بیویاں والی کہانی ہے۔کہانی میں پہلی بیوی کی کینسر کی بیماری کہانی میں نیا موڑ لیکر آتی ہے۔جان لیوا بیماری کی صورت میں انسان کے خیالات کیسے تبدیل ہوتے ہیں، اس پہلو کو اچھی طرح پیش کیا گیا ہے۔ دوسری بیوی کی غیر مشروط محبت بھی اس ڈرامے کا ایک نیا انداز تھا۔
'محبت صبح کا ستارہ ہے' کی کہانی بنیادی طور پر امیر غریب کے فرق کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ظالم اور مفاد پرست لوگ ہر طبقے میں ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود خوب صورتی کے ساتھ ڈرامے کا احتتام کیا گیا جو لوگوں کے لئے اس اچھا پیغام تھا۔
'پیارے افضل' جس سے یا تو بات نہیں ہوتی یا پھر پوری بات نہیں ہوتی اور آخر میں بات تو پوری کر گیا لیکن اپنے حصے کی زندگی بھی پوری کر گیا۔ افضل کا جو انجام ہوا وہ پیار کا انجام نہیں تھا بلکہ ایک ایسے فرد کا انجام تھا جو برائی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور لڑتے لڑتے مر جاتا ہے۔ پیارے افضل اس سال کا بے حد مقبول ڈرامہ تھا جس کے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
کہانی کاا سکرپٹ اپنی جگہ لیکن اداکاروں کی پرفارمنس ہی ڈرامے میں جان ڈالتی ہے۔ اکثر اداکاری کی کمی کی وجہ سے اچھے سے اچھا ڈرامہ فلاپ ہوجاتا ہے۔
میری نظر میں بہترین کہانی ڈرامہ 'شکوہ' کی تھی جو آخر تک رائٹر (سروت نظیر) کے کنٹرول میں تھی اورکہانی کا اختتام بھی ڈرامے کے میں تھیم سے قریب تر تھا۔
اسی بنیاد پر بہترین اداکارہ ڈرامہ کی ہیروئین 'مہر' (سونیا حسین)کو ہی قرار دوں گا جس نے نہ صرف پریشان لڑکی کا کردار بخوبی ادا کیابلکہ ایک بوڑھی ماں کا کردار بھی زبردست ادا کیا۔
2014 کے بہترین اداکار پیارے افضل ہی ہے جس نے نہ صرف ناکام عاشق کا کردار ادا کیا، بلکہ کرکٹر،غنڈہ،نافرمان اولاد،اور آخر میں فلم شعلے کے امیتابھ بچن اور ڈرامہ دھواں کے نبیل کےا سٹائل میں مرنے کی بھی خوب صورت اداکاری کی۔
امید ہے کہ 2015 بھی ٹی وی ڈراموں کی دنیا کے لحاظ سے ایک بہترین سال ثابت ہوگا۔
واضح رہے کہ تمام ڈراموں کا درجہ بندی کی بنیاد پر جائزہ نہیں لیا گیا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔