وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان خصوصی عدالتوں کےقیام اور آئینی ترامیم پر اتفاق ہوگیا ہے جس کا مسودہ کل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت 5 گھنٹے طویل کل جماعتی کانفرنس ہوئی جس میں سابق صدر آصف علی زرداری،جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، چیرمین تحریک انصاف عمران خان، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، فروغ نسیم سمیت چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ،وفاقی وزرا اور دیگر سیاسی قائدین نے شرکت کی جبکہ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے، اجلاس میں سیاسی قائدین نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خصوصی عدالتوں کےقیام اور اس سے متعلق آئینی ترامیم پر تفصیلی بحث کی جس کے بعد تمام جماعتوں کےدرمیان دونوں معاملات پر اتفاق رائے ہوگیا۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشتگردی پر کاری ضرب کا فیصلہ کن لمحہ ضائع نہیں ہونے دیں گے، آج ریفرنڈم بھی کرالیں تو قوم کا فیصلہ دہشتگردوں کے خلاف ہوگا اس لئے قومی لائحہ عمل کو قومی اتحاد کے ساتھ عملی جامعہ پہنانا ہوگا اور اگر دہشتگردوں سے نمٹ نہیں سکتے تو یہاں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ قومی ایکشن پلان کے مسودہ پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہئے، ایکشن پلان پر بہت مشاورت ہوچکی اب وقت آگیا ہے کہ آج حتمی فیصلہ کیا جائے تاکہ مسودے کو منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے، قومی قیادت گزشتہ 15 روز کے دوران تیسری مرتبہ ایک میز پر بیٹھی ہے اور اس دوران طویل غور و خوض کے بعد قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تاہم پارلیمنٹ میں اس پر مزید بحث کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ فوجی عدالتیں 2 سال کے لئے قائم کی جائیں گی جس پر 24 دسمبر کو تمام سیاسی قائدین نے اطمینان کا اظہار کیا جب کہ قومی قیادت نے قومی ایکشن پلان پرعملدرآمد کے لئے کمر باندھ لی اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پر عملدرآمد کے لئے کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے، اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سب کو متحد اور متفق ہونا ہوگا جب کہ قوم ایکشن پلان کو ایکشن میں ڈھلتا دیکھنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ قومی ایکشن پلان میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی شامل ہے جس پر بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جس پر وزیراعظم نواز شریف نے اے پی سی طلب کرتے ہوئے سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔