دو تہائی کینسر کی بیماریاں بدقسمتی سے لگتی ہیں تحقیق

اسٹیم سیل کی تقسیم انتہائی خطرناک ہوتی ہے جس کا کوئی بھی سیل کس بھی وقت ڈی این اےمیں کینسر سیل سےملاپ کرلیتا ہے،تحقیق


ویب ڈیسک January 02, 2015
ایک تہائی کینسر ایسے ہیں جن سے طرز زندگی تبد یل کر کے بچا چا سکتا ہے،سائنسدان فوٹو:فائل

KARACHI:

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنسدان صرف تجربات اور عملی چیزوں کو ہی مانتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اور امریکا میں کی جانے والی نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ دو تہائی کینسرکی بیماری صرف بدقسمتی سے لگتی ہے تاہم کچھ مہلک کینسر طرز زندگی سے بھی انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔


امریکی جرنل سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ یوں تو لاکھوں سیل ہماری جسم میں گردش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو کینسر کی بیماری کا باعث بن جاتے ہیں تاہم دماغی او پھیپھڑوں کے کینسر کی عمومی وجہ سگریٹ نوشی اور دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ تمام قسم کے کینسر کی بیماری اسی طرح بائی چانس لگ جاتی ہیں جس طرح ڈائس کے پھینکنے سے مطلوبہ نمبر اچانک سامنے آجائے یا پھر طویل انتظار تک نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی انسان کا ڈی این اے کبھی بائی چانس ہی کینسر پھیلانے والے سیل کو حاصل کرلیتا ہے اور یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ دوتہائی لوگ بد قسمتی سے ہی کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔


ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے کچھ کینسر سیل ہمارے ٹشوز سے ملاپ کر لیتے ہیں اس کا جواب دیا ہے جونز ہوپکن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اینڈ بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی کینسر پر تحقیق کرنے والی ٹیم نے جس کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود پرانے کمزور ہوتے ہوئے سیل کی جگہ قدرتی طور پر نئے سیل لیتے رہتے ہیں جو اسٹیم سیل کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں تاہم اسٹیم سیل کی یہ تقسیم انتہائی خطرناک ہوتی ہے جس کا کوئی بھی سیل کس بھی وقت ڈی این اے میں کینسر سیل سے ملاپ کرلیتا ہے جبکہ سیل کی تبدیلی کے اس عمل کی رفتار پورے جسم میں مختلف ہوتی ہے پیٹ میں یہ رفتار تیز جبکہ دماغ میں سست ہوتی ہے، ٹیومر کے علاج کے ماہر اور اس تحقیق کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین ٹوماسیٹی کا کہنا ہے کہ اگر دو تہائی کینسر اسٹیم سیلز کی تقسیم کے وقت ڈی این اے کے اندر اتفاقی تبدیلی سے لاحق ہوتے ہیں تو طرزِ زندگی اور عادات کو تبدیل کرنے سے ایک خاص قسم کے کینسر سے بچنے میں تو بڑی مدد ملے گی لیکن دوسری قسم کے کینسر پر یہ چیزیں اتنی موثر ثابت نہیں ہوں گی۔


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک تہائی کینسر ایسے ہیں جن سے طرز زندگی تبد یل کر کے بچا چا سکتا ہے، مثال کے طور پر تمباکو نوشی سے پرہیز، صحت مند وزن، اچھی غذا اور کثرتِ شراب نوشی سے پرہیز۔ ان کا کہنا تھا کہ طرزِ زندگی میں یہ تبدیلیاں لانا کینسر کے بچاؤ کی ضمانت نہیں لیکن ان سے کینسر کا خطرہ کم ضرور ہو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں