دہشت گردی کا خاتمہ فیصلہ کن کردار کی ضرورت

سیاسی قیادت کا یہ عزم قابل تحسین ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے ۔


Editorial January 02, 2015
بہت سے سیاستدانوں کے دلوں میں ابھی تک دہشت گردوں کا خوف موجود ہے اور وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کھل کر سامنے آنے کے لیے آمادہ نہیں۔ فوٹو : پی آئی ڈی

دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہوئے سیاسی اور عسکری قیادت نے اس کے خاتمے پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا ہے۔ سیاسی قیادت اس عزم کا اعادہ کر رہی ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت ملک میں چھپے دہشت گردوں کو تلاش کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور انھیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

سیاسی قیادت کا یہ عزم قابل تحسین ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے مگر مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت نے اب تک جو قومی ایکشن پلان تشکیل دیا ہے اس پر فوری عملدرآمد کیوں نہیں کیا جا رہا، اس کے نفاذ میں تاخیری حربے کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیے جا سکتے۔ اسی تناظر میں جمعرات کو جی ایچ کیو میں 178 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو یہ کہنا پڑا کہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں مزید وقت ضایع نہ کیا جائے، وسیع تر سیاسی اتفاق رائے چھوٹی باتوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔

دہشت گردی نے ملک کی معیشت، سلامتی سمیت ہر شعبے کو جتنا شدید نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج پوری قوم کا عزم واضح ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حوالے سے کسی قسم کی رعایت یا نرمی نہیں چاہتی اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن ایکشن کی متمنی ہے۔ اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے قوم کی نظریں سیاسی اور فوجی قیادت پر ہیں۔

انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستانی سرزمین سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشنز جاری رہیں گے۔ پاکستان آرمی کا عزم تو سب کے سامنے واضح ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے بھرپور آپریشن کر رہی اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت کا کردار اس مسئلے پر کتنا متحرک اور فعال ہے۔ موجودہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ سیاسی قیادت ابھی تک گومگو کا شکار ہے اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ رہی، دہشت گردوں کو سزا کے حوالے سے ابھی تک فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں بھی صورت حال واضح نہیں ہو رہی۔

بعض سیاسی جماعتیں اس پر ڈھکے چھپے انداز میں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، سابق صدر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اس سلسلے میں مخالفانہ انداز اپنایا، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان کی بقا اور محفوظ مستقبل کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جلد از جلد فیصلہ کن کردار ادا کیا جائے۔ دہشت گردوں کے خلاف سزاؤں پر عملدرآمد میں ہونے والی تاخیر سے عوام میں مایوس کن تاثر ابھر رہا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں دہشت گردی کو جو تقویت مل رہی ہے اس میں حکمرانوں کے تاخیری رویے کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں میں جرات کا فقدان ہے اور وہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے سیاستدانوں کے دلوں میں ابھی تک دہشت گردوں کا خوف موجود ہے اور وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کھل کر سامنے آنے کے لیے آمادہ نہیں۔ دہشت گردی خطرے کی صورت میں بدستور موجود ہے اور عوام کی جان و مال اس میں ضایع ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات میں انتہا پسند گروپوں سے مذاکرات کیے گئے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونے پر بالآخر ان کے خلاف آپریشن ہی کرنا پڑا۔ موجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آنے کے بعد انتہا پسند گروہوں سے مذاکرات کا آغاز کیا مگر اس کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس تناظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انتہا پسندوں سے مذاکرات مسئلے کا حل نہیں جو جماعتیں انتہا پسندوں سے مذاکرات کی حامی ہیں انھیں بھی اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جمعہ کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی کو ہم مزید برداشت نہیں کریں گے۔ انھوں نے واضح کر دیا کہ عوام اب قومی ایکشن پلان کو حقیقی معنوں میں ایکشن میں ڈھلتا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں، اب وقت آ چکا ہے کہ ملک کو اس گند سے صاف کیا جائے۔ اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے واضح کر دیا کہ خصوصی عدالتیں فوج کی نہیں وقت کی ضرورت ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ قومی ایکشن پلان کو پارلیمنٹ سے جلد از جلد منظور کرا لیا جانا چاہیے اگر اس میں تاخیر کی گئی تو یہ پوری قوم کا نقصان ہو گا جس کا یہ ملک اب مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں