تین روپے دوآنے
سانحہ پشاورنے جذباتی طورپرہرایک کومتاثرکیا تھا مگر اب فکری دراڑیں نظرآنی شروع ہوگئی ہیں۔
KARACHI:
فطرت کے اصول اٹل ہیں۔ جواقوام ان اصولوں کوسمجھ کرزندگی گزارنے کے ضابطے طے کرلیتی ہیں،وہ بہت مختصر عرصے میں ترقی کی ان منزلوں پرفائزہوجاتی ہیں جس کاہمارے جیسے ملک صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔
آپ صرف"صفتِ انصاف"کولے لیجیے۔ ہمارانظام سات دہائیوں سے انفرادی اوراجتماعی انصاف دینے سے قصدًاگریزکررہا ہے۔اس میں زندگی کا ہرشعبہ شامل ہے۔ ہم فطرت کے ازلی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں۔ جب ردِعمل سامنے آتاہے توبھی سنجیدگی کے بجائے انتہائی سطحی اقدامات کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ہماری ہی عمرکے ممالک ترقی کی دوڑمیں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں؟مشکلات ہر معاشرے میں ہیں اور رہیں گی۔مگراہم بات یہ ہے کہ قوم ان مراحل کوکتنی ذہنی پختگی سے عبورکرتی ہے۔ہم اصل حقیقت تسلیم کرنے سے آج بھی انکارکررہے ہیں۔ درحقیقت ہماراپورا"نظام عدل"ناکام ہوچکاہے۔ اس پورے نظام میں ہرچیزمل سکتی ہے مگر انصاف ڈھونڈناناممکن ہے۔ اب ہمارے پاس کیا راستہ رہ جاتاہے سوائے اس کے کہ ہم متبادل عدالتی نظام کی طرف جائیں جوبغیرخوف کے مضبوط فیصلے کرسکے۔
ایک ضمنی استدلال اٹھایاجاسکتاہے کہ کیاطالبان ہم لوگوں کوکسی قانون یاآئین کے دائرے میں رہ کردہشت گردی کانشانہ بنارہے ہیں۔ اہل قلم کی واضح اکثریت آج بھی دوٹوک پوزیشن لینے سے خائف ہے۔آج بھی ہم الفاظ کی بحث میں ایک دوسرے کوسرنگوں کرنے میں مصروف ہیں۔لوگوں کی اکثریت اب اس اَمرپرایک خاموش سمجھوتا کرچکی ہے کہ ان کے حالات جوں کے توں رہیںگے ۔
سانحہ پشاورنے جذباتی طورپرہرایک کومتاثرکیا تھا۔ مگر اب فکری دراڑیں نظرآنی شروع ہوگئی ہیں۔ان بچوں کاخونِ ناحق ہمارے اوپرقرض ہے۔ پتہ نہیں یہ کیسے اداکیاجائے گا۔ اس صورتحال میں ایک تکلیف دہ پہلو اوربھی ہے۔ہم ہمیشہ سے ایک مقروض قوم ہیں۔میں معاشی قرض کی بات نہیں کررہاکیونکہ اس پربحث کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی کانوحہ ہے۔ میں توخون اورجذبہ کے اُس مقدس قرض کی گزارش کررہاہوں جسے پہچاننے اور اداکرنے میں ہم ناکام رہے ہیں۔
تحریک پاکستان کایک ایسا پہلوبھی ہے جوکم ازکم میری نظرسے اوجھل رہا۔ یہ معصوم بچوں کا قائدکی خدمت میں وہ عطیہ ہے جوانھوں نے کم سنی کے زمانے میں ایک ایک پیسہ جوڑکر بھجوایا تھا۔ 46 بچوں کے یہ نایاب خطوط اس عظیم اعتمادکامظہرتھے جو مسلمانوں کواپنے نایاب قائدپرتھا۔ان کوکتابی شکل میں ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے محفوظ کیا ہے۔ یہ کام قابل تحسین بھی ہے اورقابل ستائش بھی۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کسی تاریخ دان یاعالم نے ڈاکٹرندیم کی طرح نہیں سوچا۔میں ان میں سے چندخطوط آپ کے سامنے رکھتاہوں تاکہ اس وقت کے بچوں کے اندازفکرکااندازہ ہوسکے اورآپ کویہ بھی اندازہ ہوکہ ہم نے اپنے ملک کی فکری اساس کوکس بے دردی سے پامال کیاہے۔آپ خطوط پڑھتے جائیے، میں نے ان میں کسی لفظ کی بھی کوئی تبدیلی نہیں کی۔
پہلاخط
مورخہ ۴۲/۴/۲۹
جناب باباجی صاحب۔حضورجناح صاحب
بعدآداب غلامانہ کے عرض ہے کہ پھوپھاجان بیس دن ہوئے،دوستوں سے کہتے تھے کہ حضورجناح صاحب نے مسلمانوں کے کام واسطے ہرایک مسلمان سے چندہ مانگاہے۔ آگے نہیں مانگاتھا۔باباجی صاحب مجھ کوغلام کوجوپیسہ ملتاہے میں نے اکٹھاکرلیاہے۔آپ کوئی فکرنہ کریں۔آٹھ آنے جمع ہوگئے ہیں۔ٹکٹ لے کراس لفافے میں بندکرکے بھیجے ہیں۔ خداکرے آپکومل جائیں۔آپ بالکل فکرنہ کریں ۔میں اور بھی پیسے جمع کروںگا۔اگریہ آٹھ آنے آپ کومل گئے اوربھی بھیجوں گا۔آپ کوئی فکرنہ کریں۔اورجب بڑاہوںگااوربھی بہت زیادہ روپے بھیجوں گا۔خداآپ کاسایہ ہمارے سروں پرقائم رکھے۔آداب'راقم ' آپ کاغلام'عزیزالرحمن طالبعلم
جماعت پنجم 'چشتیہ ہائی اسکول،امرت سر
دوسراخط ملاحظہ فرمائیے!
۴۲/۳ ْ/۲۹
حضرت قائداعظم دام ظلکم
اسلام علیکم
ہم دونوں بھائی بہن اسکول میں تعلیم پارہے ہیں۔ میں درجہ ہشتم میں پڑھتاہوں اورمیری چھوٹی بہن چوتھی کلاس میں تعلیم پارہی ہے۔ میں نے اخبارمنشورمیں اپنے محبوب قائداعظم کی اپیل مسلم قوم کے نام جب پڑھی تواسی روزسے ہم دونوں بھائی بہن نے تہیہ کرلیاکہ جوپیسے ہمارے والدین ہم کوروزانہ دینگے،جب کہ ہم اسکول جاتے ہیں،دیتے ہیں انکوجمع کرکے اپنے محبوب قائداعظم کے سرمایہ میں جمع کریں۔آٹھ آنہ کے ٹکٹ ناچیزقبول فرمائیں۔ قائداعظم زندہ باد' خادم'قاضی اظہارمعین' متعلم درجہ ہشتم
مظفرنگر۔
تیسراخط
فصاحت منزل'مکرم جاہی روڈ'حیدرآباددکن
محترم قائداعظم! اسلام علیکم!
اب کے میں نے اپنے جیب خرچ کوسویٹس کے لیے نہیں خرچ کیاتھا۔لہذاوہ پانچ روپیہ میں قومی دفاعی فنڈکے لیے بھیج رہی ہوں۔میں ایک اسکول گرل اس سے زیادہ نہیں بھیج سکتی۔ امیدہے کہ ایک لڑکی کے جیب خرچ کی یہ حقیرسی رقم آپ فنڈ میں شامل کرلینگے۔میں وہی لڑکی ہوں جس نے آپ سے حیدرآباد،راک لینڈ گیسٹ ہاؤس میں ۱۰اگست ۴۱ کو ملاقات کی تھی اورکچھ پاکستان اورمسلم ترقی کے متعلق گفتگوکی تھی۔
فقط ' شمیم آراء
چوتھاخط
ملتان' ۱۷جون ۴۲ء
بخدمت جناب قائداعظم صاحب' اسلام علیکم
آپ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے قومی فنڈ کے لیے ۸آنے کاپوسٹل آرڈرنمبر034272Aبھیج رہا ہوں۔ یہ میں نے اپنے جیب خرچ میں سے جمع کیا ہے۔ امیدہے کہ آپ میری حقیررقم قبول فرمائیں گے۔
آپکاخادم
سعیداخترجماعت نہم
ایمرسن کالج ملتان
پانچواںخط
قائداعظم کی خدمت میں یتیموں کی پیشکش
بعالی خدمت حضرت قائداعظم محمد علی جناح صدر مسلم لیگ کل ہندبمبئی
ہمارے اچھے قائداعظم!
اسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
ہم یتیموں کی دعاہے کہ اللہ تعالی آپکوتا دیر سلامت رکھے۔قائداعظم آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے مسلم لیگ کے لیے چندے کی درخواست کی ہے یہ ہم کو اخباروں کے ذریعے معلوم ہواہمارابھی خیال ہواکہ ہم بھی آپ کی خدمت میں کچھ چندہ پیش کریں اورآپ کویہ معلوم ہے کہ ہم یتیم ہیں اورہمارے کھانے پینے اورکپڑے وغیرہ کاانتظام یتیم خانے سے ہوتاہے ہمارے ماں پاب نہیں ہیںجوہم کوہرروزپیسے دیں پھربھی ہم نے یہ طے کرلیاکہ آپ کی خدمت میں ضرورکچھ بھجیں گے۔
اس لیے ہم نے ہم کودھیلہ پیسہ جوبھی کچھ بھی جہاں کہیں سے ملااس کوجوڑناشروع کردیایہاں تک کے تین روپیہ دوآنے کی رقم جمع ہوئی اب اس کوآپ کی خدمت میں روانہ کررہے ہیں آپ اسکو قبول کیجیے۔ضرورقبول کیجیے ہم آپ سے اقرارکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم کوزندہ رکھااورہم خوب پڑھ کرجوان ہوئے تومسلم لیگ کی بڑے زورسے خدمت کرینگے اورجب ہم کمانے لگیں گے توآپکی درخواست پربہت سے روپیہ چندے میں دینگے آپ ہمارے لیے دعاکیجیے۔والسلام' ہم ہیں آپکے دعاگو
یتیم خانہ کڑپہ کے یتیم' کڑپہ(صوبہ مدراس)
خلوص بھرے ان خطوط میں سے کس کونکالوں، کیا لکھوں،کیانہ لکھوں۔ بچوں کے آٹھ دس آنے کے چندہ کی باتیں قلمبندکرکے روح تک کانپ جاتی ہے۔ہم لوگ کیاتھے اورکیابنادیے گئے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ معصوم بچے پاکستان آبھی پائے یا نہیں۔ یہ راستے میں شہیدکردیے گئے یااجڑکررہ گئے، اگریہ بچے یہاں پہنچ بھی گئے توان کے ساتھ کیاسلوک روا رکھاگیا۔آج وہ اس دنیامیں ہیں بھی یا نہیں۔ مجھے کسی بات کاکوئی علم نہیں، ہماری قوم کابال بال آج اندورنی اوربیرونی قرضے میں بندھاہواہے۔
ہم کھربوں روپے کے مقروض ہیں۔یہ کوئی حکومت ادا بھی کرپائے گی یا نہیں۔ مجھے اس سے کوئی سروکارنہیں، میں تویتیم بچوں کے تین روپے دوآنے کاقرض تک ادا نہیں کرسکتاجوانھوں نے اپنے کھانے پینے اور کپڑوں کے اخراجات سے بچاکراس ملک کو دیے تھے۔ شائد آپ اتنا بھاری قرض ادا کرسکیں۔ اس قرض کی ادائیگی میری اسطاعت سے توبالکل باہر ہے۔ صاحبان!بالکل باہر۔