عوام کو فائدہ کب پہنچے گا
ایک طرف عالمی معیشت ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔ آئل پیداوار کے سبب امریکا کی تیل کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
اگرچہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا سلسلہ جولائی کے بعد سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ گزشتہ چند ہی مہینوں میں تیل کی قیمت فی بیرل 118 ڈالر سے گھٹ کر 60 ڈالر سے بھی کم کی سطح پر آگئی ہے۔ اب مزید کمی کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے۔ ایک طرف عالمی معیشت ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔ آئل پیداوار کے سبب امریکا کی تیل کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ نیز صنعتی ممالک عرصہ دراز سے توانائی کے متبادل کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔
دنیا میں متبادل توانائی کی پیداوار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے، اس کے ساتھ ہی استعمال بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے جوکہ تیل کے متبادل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ چند عشرے قبل تھرمل ذرایع سے بجلی کی پیداوار کے حصول کے لیے آئل کا استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر دنیا بھر میں تھرمل پاور کے ذریعے توانائی کے حصول کو کم سے کم کردیا گیا اور متبادل توانائی کے دیگر ذرایع پر انحصار کیا جانے لگا۔ پاکستان میں گزشتہ تین عشروں سے تھرمل ذرایع سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ جسے بعد میں جب گیس میں تبدیل کیا گیا تو ناقص منصوبہ بندی کے باعث معلوم ہوا کہ پاکستان میں بتدریج گیس کی کمی واقع ہو رہی ہے جب کہ توانائی کے حصول کا سب سے سستا ترین ذریعہ پن بجلی کی پیداوار میں بدستور کمی واقع ہوتی چلی جا رہی تھی۔
گزشتہ دو عشروں سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں مسلسل اضافے کے باعث پٹرولیم گروپ کا درآمدی بل بڑھتا چلا جا رہا تھا جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل کا حجم کل درآمدات کا ایک تہائی سے بھی بڑھ گیا حتیٰ کہ 40 تا 42 فی صد تک پہنچ گیا۔ پٹرولیم گروپ کے درآمدی بل میں تیزی سے اضافے نے تجارت خارجہ کے توازن میں زبردست بگاڑ پیدا کیا۔ حتیٰ کہ بعض مالی سال ایسے بھی گزرتے گئے جب تجارتی خسارہ کل برآمدات سے بھی زیادہ ہوگیا۔ یا پھر بہت کم فرق رہ گیا۔ جس کے باعث ملک میں ڈالر کی قلت کے ساتھ روپے کی قدر بھی گھٹتی چلی گئی۔ جس سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پر مختلف اقسام کے ٹیکس عائد کردیے گئے۔ یکم جنوری 2015 سے قبل پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد تھی۔ ایف بی آر نے ٹیکسوں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد اور ترسیل پر ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کردیا ہے۔ جس کا اطلاق یکم جنوری 2015 سے ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پٹرول کی قیمت میں 6.25 روپے، ڈیزل 7.86 روپے، مٹی کا تیل 11.26 روپے، ہائی اوکٹین14.4 روپے اور لائٹ ڈیزل 10.48روپے فی لیٹر کم کردیا گیا۔ جس کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اسے نئے سال کا تحفہ قرار دیا۔ نیز یہ بھی کہا گیا کہ کمی کا فائدہ عوام تک پہنچنا چاہیے۔
صوبائی حکومتیں اشیا کی قیمت پر کڑی نگاہ رکھیں اور کرایے کم نہ کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے۔ اس سے قبل جب 30 اکتوبر 2014 کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کی جائے۔ سب سے پہلے تو ریل کے کرایوں اور مال گاڑی کے کرایوں میں کمی واقع ہونی چاہیے تھی اس کے ساتھ ہی پی آئی اے کے کرایوں میں کمی درکار تھی لیکن یہاں پی آئی اے نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں کے تناسب سے بجلی کی قیمت میں کمی کی ضرورت تھی۔ لیکن بجلی کی قیمت میں انتہائی معمولی کمی عمل میں لائی گئی۔ حکومت ایک طرف معمولی کمی کرتی ہے دوسری طرف کسی اور شے میں بہت زیادہ اضافہ کردیتی ہے۔ جیساکہ گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے جب کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں پہلے ہی بجلی کی قیمت میں 170 فیصد اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اب پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کو توقع ہے کہ اس طرح ٹیکس میں اضافے سے 30 جون تک ختم ہونے والے مالی سال 2014-15 کے لیے 20 تا 25 ارب روپے اضافی حاصل ہوجائیں گے۔ جب کہ باقی 45 تا 50 ارب روپے ٹیکس کے حصول میں کمی پورا کرنے کے لیے حکومت دیگر اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں اضافے کا اطلاق ہوچکا ہے۔ اگرچہ تیل کی قیمت میں کمی سے صرف وہ لوگ جوکہ موٹرسائیکل چلاتے ہوں، کار رکھتے ہوں یا ٹریکٹر چلانے والے یا ٹرک چلانے والے ، بسوں، مزدا، ویگنوں والوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ ان کو جس قدر ریلیف حاصل ہو اب ٹیکس میں اضافی شرح کے باعث ان کے ریلیف میں زبردست کمی واقع ہوگی۔ دوسری طرف تیل کی عالمی قیمت میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس تناسب کے حساب سے بہت ہی کم کمی کی گئی ہے۔ تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود عوام نے ابھی تک کسی قسم کا کوئی ریلیف محسوس نہیں کیا۔ حکومت وفاقی ہو یا صوبائی یا ضلعی انتظامیہ کوئی بھی اشیا کی قیمت کم نہ کراسکا۔ حتیٰ کہ کرایوں میں بھی اسی تناسب سے کمی نہ کرائی جاسکی۔
یکم نومبر کے بعد چند ٹرانسپورٹ کمپنیز نے اپنے طور پر 5 تا7 فی صد کمی کی تھی۔ لیکن وہ بھی دکھاوا ہی تھا جب کہ حقیقت میں کسی نہ کسی طور پر مسافروں سے لگ بھگ وہی کرایہ وصول کرلیا جاتا تھا۔ اگر حکومت مختلف اشیا کی قیمت کم نہیں کراسکی تو حکومت دیگر اقدامات کے ذریعے عوام کو ریلیف پہنچائے۔ مثلاً تیل کے درآمدی بل میں لگ بھگ 40 تا 50 فیصد کمی کے باعث اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ لہٰذا اب حکومت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وقتی طور پر آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کا پروگرام ترک کردے۔ اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو حکومت کے لیے یہ ممکن رہے گا کہ بجلی کے نرخوں میں مزید کمی لے کر آئے کیونکہ تھرمل پاور جس میں فرنس آئل استعمال ہوتا ہے فرنس آئل کی قیمت میں 260 تا 270 ڈالر فی ٹن کمی سے توانائی کی لاگت میں خاصی کمی واقع ہوگی۔
جہاں تک برآمدات میں کمی کا تعلق ہے برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کو دیگر بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو خصوصاً ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کے لیے مشرق کی طرف دیکھو، کی پالیسی اور افریقی ملکوں سے تجارت میں اضافے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ نیز حکومت کو پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے بجائے ٹیکس کی وصولی میں اضافے کے لیے دیگر بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے اگر بھرپور طریقے سے ٹیکس چوری پر بھی قابو پالیا جائے تو 70ارب کی کمی دور کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی گزشتہ کئی ماہ سے اشیا کی قیمت میں کمی عوام کو ریلیف دینے کی باتیں صرف دلاسے دینے کی حد تک ہی کی جا رہی ہیں۔ جب کہ عملاً سیلز ٹیکس اور گیس کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ آخر کمی کا فائدہ عوام کو کب پہنچے گا؟