آئین کا بنیادی ڈھانچہ حصہ اول
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ترمیم کر رہے ہیں وہ ترمیم کسی کاغذ کے ٹکڑے پر نہیں ہوتی بلکہ اس سماجی معاہدے کی ماہیت پر ہوتی ہے۔
COPENHAGAN:
پشاور سانحے نے بہت سے سوال چھوڑے تھے۔ لگتا یوں ہے کہ ہم ان سوالات کا جواب پانے سے پہلے پھر الجھ گئے ۔ آئین کوئی آج یا کل یا پرسوں کے لیے نہیں بنتا، صدیوں کے لیے بنتا ہے۔اس میں اتنی طاقت و دور اندیشی ہوتی ہے کہ وہ نئے حالات کو جذب کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے کبھی ترمیم کے ذریعے تو کبھی تشریح کے ذریعے ، یہ کوئی جامد و ساکن یا کوئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہوتا جس طرح جنرل ضیا الحق یا جنرل تنویر اس کے بارے میں کہتے تھے۔
یہ قوم کا سماجی معاہدہ ہوتا ہے جو کاغذ پر اتارا جاتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ترمیم کر رہے ہیں وہ ترمیم کسی کاغذ کے ٹکڑے پر نہیں ہوتی بلکہ اس سماجی معاہدے کی ماہیت پر ہوتی ہے ۔ اگر ترمیم عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہ کرپائے تو اس سے اس سماج میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا جو آئین میں ترمیم کرگئے یا دیگر قوانین میں کی اس نے اس سماج میں بگاڑ پیدا کیا ۔ اور ہم ان ترامیم کو اٹھارہویں ترمیم سے بھی نہیں نکال سکے جب کہ جنرل مشرف کی ترامیم کو نکال دیا ۔ وہ اس لیے کہ جنرل مشرف نے مذہبی لبادہ نہیں اوڑھ رکھا تھا جب کہ جنرل ضیا اوڑھے ہوئے تھا ۔
میں نے آج سول قیادت کو کی ہوئی گزارش دیکھی کہ دہشت گردی پر کی ہوئی ایک رائے کو ''چھوٹے اختلافات'' کی نذر نہ کیا جائے ۔ بظاہر کوئی اختلاف نہیں اختلاف فوجی عدالتوں پر ہے ۔ انھوں نے فوجی عدالتوں کو بنانا رکاوٹ نہیں سمجھا ۔ اور اس میں دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں مروج انصاف فراہم کرنے والا نظام بہت ہی بڑے بحران کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
Justice delayed is justice denied
(دیر سے دیا ہوا انصاف دراصل انصاف دینے سے انحرافی ہے)
جب انصاف وقت پر نہ مل سکے تو پھر انصاف کاہے کا؟ یہ وہ بنیادی بات تھی جس نے Rule of Law کے نام پر چلائی ہوئی تحریک میں روح ڈالی تھی۔ اور پھر اس تحریک کی کامیابی کے بعد بات وہیں کی وہیں رہ گئی ۔ اور یہ بات جب تک اتنی سدھر کے آگے نہ آئے جتنا ہمارے پڑوسی ملکی ہندوستان میں ہے مسائل اور بڑھیں گے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں اب تک بھی جو بہتری پائی جاتی ہے وہ اس لیے کہ ہم ہندوستان کی عدالتوں کے دیے ہوئے فیصلوں کی روشنی میں اپنے قانون کو اور بہتر کر رہے ہوتے ہیں ۔
ہندوستان امریکا کی کورٹس سے اپنے آئین و قوانین کو بہتر کر رہا ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم صرف ہندوستان کی کورٹس کے فیصلوں کو دیکھیں بلکہ ہم خود بھی برطانیہ، امریکا، یورپی یونین، کینیڈا یا آسٹریلیا کے کورٹس کے فیصلوں سے رہنمائی لے سکتے ہیں ۔ ہمارا G1 Act 1935 بہت حد تک کینیڈا کے آزادی والے قانون سے ملتا جلتا ہے دراصل ہم سب ایک ہی ڈوری میں ہیں اور یہ ہے وہ پاکستان کے قانون کی طاقت جو اس کو آگے لے جائے گی ۔
میری جاں آج کا غم نہ کر کہ کاتب وقت نے
کس کل میں نہ جانے کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں
(فیض)
جب امریکا کو دہشت گردی ملی تو کیا انھوں نے قوانین نہیں بنائے ۔ کیا برطانیہ نے ترامیم نہیں کیں؟ بلکہ یورپی یونین کے ممالک اپنی خودمختار حیثیت سے بھی دست بردار ہوکر خطے کی سطح پر ایک جیسا کرمنل نظام بنایا ۔ ان کے یہاں تو اسٹراسبرگ میں ایک کورٹ ہے جس کے انسانی آزادی کے نام پر دیے ہوئے فیصلے یورپی یونین کے سارے ممالک پر لاگو ہوتے ہیں ۔
ہمارے ہاں ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ آیا آئین سپریم ہے یا پارلیمنٹ؟ فوجی عدالتوں کی بحث نے اس بات کو دوبارہ سے ایک نئے موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے ۔ کیونکہ شیخ لیاقت حسین کیس کے بعد اب فوجی عدالتوں کو عام قانون کے ذریعے سول علاقوں میں جورس ڈکشن نہیں بنانے دی جاسکتی۔ وہ اس لیے کہ پارلیمنٹ ایک قانون عام قرارداد سادہ اکثریت سے بنا سکتی ہے ۔ اور وہ قانون آئین کے تابع ہوتا ہے اور اس لیے آئین کے تناظر میں جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل بینچ نے فروری 1999 کو (PLD 1999 SC 504) شیخ لیاقت حسین کیس کا فیصلہ سنایا تھا ۔ کل کی پارلیمنٹ میں خورشید شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کو دہشت گردوں تک وسیع کیا جائے، بے معنی ہے یہ بات جسٹس اجمل میاں کے سنائے ہوئے فیصلے کے تناظر میں ہے۔
ہاں یقیناً یہ کام آئین میں ترمیم کرکے کیا جاسکتا ہے اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے نہ کہ آئین ۔ اور اگر اس طرح نہیں تو پھر آئین میں ترمیم کرنے کا حق آرٹیکل 238 کے تحت محدود ہے ۔ جس طرح Marbury Vs Madison میں 1820 میں امریکا کی سپریم کورٹ نے کیا تھا ، جس طرح Kasha Vs Anan DA کیس میں 1973 کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے کیا تھا ۔ انھوں نے آئین ساز پارلیمنٹ اور دیگر آنے والی پارلیمنٹ کو الگ الگ کھڑا کردیا اور کہا کہ آئین بنانے کا اختیار اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اور ایسی ترمیم جوکہ آئین کی روح میں جائے یا جو خود ایک آئین بنا بیٹھے اس کی اجازت نہیں، لہٰذا آئین سپریم ہے نہ کہ پارلیمنٹ ۔ اس حقیقت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا و ہندوستان یہ ایسے ممالک ہیں جن کے آئین تحریری ہیں ۔ ان کے آئین سپریم ہیں۔ (جاری ہے)