سر درد کی گولی اور دیدۂ حیران
پشاور کے اندوہناک واقعے نے ہمیں اس موڑ پہ لا کر کھڑا کر دیا جہاں ساری قوم فوج کی سربراہی میں ایک طرف تھی۔
ٓٓآج کل شاعر خندآور انور مسعود بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ بزرگوار اپنی ایک مشہور نظم میں سر درد کی ایک گولی کے بارے میں کچھ یوں رطب اللسان ہیں۔
سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے
اب اس تھوڑے سے نقصان کی تفصیل میں ثقل سماعت سے لے کر گردہ ویران ہونے اور دیدہ حیران ہونے تک کی روداد شامل ہے۔ اسے ہم شاعرانہ تعلی سمجھ کے لطف اندوز ہو سکتے تھے لیکن طربیہ نما المیہ یہ ہے کہ اکثر سر درد کی گولیاں ایسے ہی ذیلی اثرات رکھتی ہیں۔ یعنی سر درد تو بے شک رفع ہو جاتا ہے لیکن مریض کئی دوسری خفتہ و نا گفتہ بہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
7 اکتوبر، 1002ء میں پورے کروفر کے ساتھ افغانستان میں داخل ہونے والی نیٹو افواج آج پورے تیرہ سال بعد اپنے خفتہ و عیاں مقاصد پورے کرنے کے بعد اس شان سے رخصت ہو رہی ہیں کہ رخصتی کا مقام اور وقت طالبان کے خوف سے آخر دم تک خفیہ رکھا گیا۔ اس سادہ مگر پروقار تقریب میں جو کابل میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر کے باسکٹ بال جمنیزیم میں منعقد ہوئی، بلآخر نیٹو کا پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ اس موقعہ پہ موجود افغان حکومت کے واحد اہلکار محمد حنیف اتمار اور نیٹو آفیسرز نے ایک دوسرے یعنی افغان سیکیورٹی فورسز اور نیٹو فوجی اہلکاروں کی جرات، بہادری اور سرفروشی کو خراج تحسین پیش کیا۔
من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کی اس تقریب میں حنیف ا تمار نے جہاں دختران و پسران نیٹو کے خون ناحق کے لیے جو صرف افغان عوام کی محبت میں خاک افغانستان کا رزق بنا، ہاتھ اٹھا اٹھا کے دعائے خیر کی وہاں یہ دہائی بھی دے گئے کہ ابھی نہ جاو چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے ملک کی دیکھ بھال اور حفاظت کر سکتے ہیں اور اب آپ سے بھی کہاں بار بار آیا جائے گا لیکن خدئی قسم آج ہمارا مولوک کو تمہارا جتنا ضرورت ہے تم نہیں جانتا۔ راوی کہتا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے کندھے سے انگوچھا اتار کر نم آنکھوں کو پونچھا۔ تس پہ جنرل جان ایف کیمبیل نے جو نیٹو کے اگلے مشن یعنی افغان سیکیورٹی فورسز کی ٹریننگ پروگرام کی سربراہی کریں گے، انھیں تسلی دی کہ ابھی ہم تھوڑے سے یعنی کہ کوئی دس بارہ ہزار کے قریب یہیں ہیں اور ابھی نہیں جا رہے۔ خاطر جمع رکھو۔ یہ البتہ انھوں نے نہیں بتایا کہ اگلی بار وہ زیادہ خاموشی سے سٹک لیں گے۔ اس موقعہ پہ صدر اوباما کا تحریری پیغام بھی پڑھ کے سنایا گیا جس میں امریکی اور نیٹو افواج کی بہادری کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔
دس کھرب ڈالر ، بے حساب خونریزی اور زمانے بھر کی رسوائی مول لینے کے بعد صورتحال کچھ یوں ہے کہ افغانستان کے دیہی علاقوں پہ آج بھی طالبان قابض ہیں۔ ہلمند پہ ایک عرصے تک برطانوی فوج کے کنٹرول کی کوششیں ناکام ہوئیں اور وہ یہ کہہ کر پلٹ آئے کہ یہ صوبہ اتنا اہم نہیں تھا۔ نیٹو کی افغانستان کی تعمیر نو کے تمام منصوبے کرپشن اور تاخیر کا شکار ہوئے۔ پوست کی کاشت پہ قابو نہ پایا جا سکا۔ افغان سیکیورٹی فورسز پہ اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انھیں ٹھیک طرح مسلح بھی نہ کیا گیا۔ آج اس تاریخ تک نو منتخب غنی۔ عبداللہ حکومت نے اپنی کابینہ نہیں بنائی ہے یعنی ملک میں کوئی وزیر داخلہ یا دفاع نہیں ہے۔
ہوتا تب بھی کیا فرق پڑنا تھا، زیادہ سے زیادہ پریس کانفرنسیں ہی کرنی تھیں۔ کئی سیکیورٹی آفیشلز نے انٹرویوز میں اعتراف کیا کہ ان کے پاس طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے کافی ہتھیار نہیں ہیں۔ ہلمند میں ایک سینیر ملٹری کمانڈر جنرل ملک نے کہا کہ نیٹو کے جانے کے بعد ہم بہادری سے دشمن کا مقابلہ کریں گے لیکن دشمن اور خدا جانتا ہے کہ ہمارے پاس نہ ہیلی کاپٹر ہیں نہ ایئرفورس بلکہ بھاری توپیں اور آرٹلری بھی نہیں ہے اور ان کا دشمن یہ بھی جانتا ہے کہ بددعاوں سے کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ دوسری طرف طالبان نے نیٹو کی رخصتی پہ مژدہ سنایا کہ ہلمند ہی نہیں، موسہ کلہ کے وسیع رقبے اور گریشک کی چالیس فوجی پوسٹوں سمیت مرجہ کے تمام علاقے پہ وہ پہلے ہی قابض ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی صورتحال آپ پہلے ہی ملاحظہ کر چکے ہیں۔ ایسے میں وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔
یعنی طالبان کے اس ڈھیلی ڈھالی نیم جان حکومت کے ساتھ معرکوں میں تیزی اور اسی تیزی کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کا طالبان کے ساتھ شامل ہو جانا۔ اب اگر پاکستان صرف اس لالچ میں کہ افغانستان میں بھارت کی جگہ وہ چوکیداری کرے، وہاں اپنی سرمایہ کاری بڑھائے گا۔ یہ ایک اچھی صورتحال بن سکتی تھی اگر طالبان اور پاکستان ایک پیج پر ہوتے۔ لیکن طالبان کی نظر میں آپ اور افغان حکومت ایک پیج پر ہیں یعنی خطے میں امریکی مفادات کی چوکیدار۔ تو وہ جو کچھ اپنی حکومت کے ساتھ کر رہے ہیں وہی سب کچھ آپ کے ساتھ آپ کے ملک میں کریں گے۔ یعنی اگر آپ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ امریکا کے نکلنے کے بعد وجہ جہاد ختم ہو گئی ہے تو یہ واقعی آپ کی غلط فہمی ہے۔ نیٹو کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا حشر آپ تیرہ سالوں میں دیکھ چکے ہیں، آپ کی سرمایہ کاری کا حجم بہرحال اتنا نہیں ہو گا۔ اب واحد آپشن یہ رہ گیا تھا کہ نیٹو کی واپسی سے پہلے ہم آپریشن کر کے طالبان کو یہاں سے اکھاڑ پھینکیں اور وہی ہم نے کیا۔
پشاور کے اندوہناک واقعے نے ہمیں اس موڑ پہ لا کر کھڑا کر دیا جہاں ساری قوم فوج کی سربراہی میں ایک طرف تھی اور اچھے برے سارے طالبان دوسری طرف۔ ملٹری کورٹس کی تجویز بھی اسی لیے تھی کہ طالبان کو قرار واقعی اور فوری سزا دی جا سکے۔ لیکن یہ کوئی واضح نہیں کر سکا کہ جیلوں میں بند کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو تو چوراہے پہ پھانسی دی جا سکتی ہے اگر ان کے بھی پشتی بان راضی ہو جائیں، لیکن خود کش حملہ آوروں کو حوروں کے جھرمٹ سے بلا کر کون دار پہ جھلائے گا؟ یہ ملٹری کورٹس سیاسی انتقام کے کام بھی نہیں آ سکتیں کیونکہ ماضی کے تجربے سے سیاسی جماعتیں کافی سیانی ہو چکی ہیں اور پہلے ہی لندن اور لاڑکانہ سے دھمکیاں دی جا چکی ہیں۔ لے دے کر وہی لوگ زیر عتاب آئیں گے جن پہ طالبانی سوچ رکھنے کا شبہ ہو گا یا پھر مدارس جن کے خلاف ایک فضا بنائی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ ان کورٹس میں کسی فیصلے کے خلاف اپیل بھی ایسی ہی کسی کورٹ میں کی جا سکے گی جس کا ظاہر ہے کہ کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو جلد ہی وہ گھڑ مس مچے گا کہ لوگ مصر کو بھول جائیں گے کیونکہ طالبان تو خاموش نہیں بیٹھیں گے دوسری طرف مذہبی جماعتیں جن کے کارکنان کی بڑی تعداد ان مدارس میں زیر تعلیم ہے خاص طور پہ وہ جن کا اثر و رسوخ فاٹا میں زیادہ ہے۔
ایک طویل عرصے کی در بدری اور ڈرون حملوں کا تلخ اثر مزید جلتی پہ تیل ڈالے گا۔ شاید آپ دو چار سو یا ہزار لوگوں کو سزائے موت دے بھی دیں تو ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا کیا کریں گے جو جہاد سے تو شاید متنفر ہو چکے ہوں لیکن اسلام سے ان کی وابستگی ہر مصلحت سے بالاتر ہے۔ تب تک شاید ان کی سمجھ میں بھی بہت کچھ آ چکا ہو اور ہمدردی کا باٹ کب اس پلڑے سے اس پلڑے میں منتقل ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ایسے میں ملٹری کورٹس کو شاعر واقف حال انور مسعود کی سر درد کی گولی سمجھئے جسے قومی اتفاق رائے کے پانی کے ساتھ نگلوایا جا رہا ہے۔ یہ خیال کیے بغیر کہ ہمارے دیدے لہو بہا بہا کر اتنے بے حال ہو چکے ہیں کہ اب ان میں حیران ہونے کی بھی سکت نہیں رہی۔