دنیا کے انوکھے اور دلچسپ ریت و رواج

نئے سال کے حوالے سے مختلف ممالک کی دلچسپ روایات

نئے سال کے حوالے سے مختلف ممالک کی دلچسپ روایات۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
دنیا کے مختلف ملکوں میں نئے سال کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف ملکوں میں مختلف اقوام کے لوگ الگ الگ انداز سے نئے سال کا جشن مناتے ہیں، جس میں بعض اوقات تو ان کے اپنے کلچر، اپنی تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے اور بعض اوقات اس موقع پر عجیب بے تکی حرکتیں کی جاتی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بل کہ یہ سب روایات اور رسومات توہم پرستی کے زمرے میں آتی ہیں۔

امریکا کے ٹائم اسکوائر کی گھڑی جیسے ہی رات کے 11 بج کر 59 منٹ کا اعلان کرتی ہے، نئے سال کی آمد کا شور مچ جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں لوگ اپنے اپنے معیاری وقت کے مطابق نئے سال کے آنے پر جشن مناتے ہیں اور نئے سال کا کھلے دل کے ساتھ خیرمقدم کرتے ہیں۔ 2015کا استقبال بھی ساری دنیا نے اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ یہ سال پوری دنیا کے لیے اپنے دامن میں امن، خوشیاں اور انصاف لے کر آئے گا اور عالم انسانیت کو اس سال کے دوران سکون کا سانس نصیب ہوگا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں نئے سال کو کس طرح خوش آمدید کہا جاتا ہے:

٭برازیل:

فٹ بال کے متوالے برازیل کے رہنے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر آپ آنے والے اس نئے سال میں نقصان پہنچانے والی، گندی اور خراب روحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو نئے سال کی شام کا استقبال سفید لباس کے ساتھ کریں۔ اگر آپ نے اس شام کو مکمل طور پر سفید لباس زیب تن کیا تو سمجھ لیں کہ نئے سال میں کوئی بھی بدروح آپ کو نہیں ستائے گی، آپ کی سفید یونیفارم تمام گندی روحوں کو آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دے گی۔

یہ تو ایک چیز ہوئی، مگر اس حوالے سے برازیل کی دوسری انوکھی روایات میں یہ روایت بھی شامل ہے کہ اس شام کو لوگ پہلے سے سمندر کے کنارے جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے سات سمندروں کی لہروں میں چھلانگ لگائی تو نیا سال ان کے لیے خوش بختیاں لائے گا۔ یہ لوگ پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ جب گھڑی میں بارہ بجنے میں چند سیکنڈ باقی ہوتے ہیں تو لوگ سمندر کی لہروں میں چھلانگ لگادیتے ہیں اور جب وہ ڈبکی لگاکر سمندر کے پانی سے سر باہر نکالتے ہیں تو گویا وہ نئے سال میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ خود کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف کرلیتے ہیں۔ ویسے برازیل کے لوگ سمندر میں تازہ پھول اور گل دستے پھینک کر بھی نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔



٭چلی:

چلی کے لوگ نئے سال کی آمد کا تہوار بڑے عجیب و غریب انداز سے مناتے ہیں۔ یہ لوگ آدھی رات کے قریب یعنی بارہ بجے سے چند سیکنڈ پہلے ایک چمچا بھر مسور کی دال یا مختلف بیج کھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ ایک کام اور بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے جوتے کے تلے میں تھوڑی بہت رقم بڑے اہتمام سے رکھ دیتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ عمل کرنے سے اگلے بارہ ماہ تک انہیں روپے پیسے کی کوئی کمی یا پریشانی نہیں ہوتی۔

چلی کے جو لوگ چیلینج قبول کرنے کے شوقین ہیں اور خطرات سے کھیلنا جانتے ہیں، وہ نئے سال کی آمد کے موقع پر رات کا یہ خاص حصہ کسی قبرستان میں گزارتے ہیں اور وہاں گھنٹی بجاکر اپنے ان محبوب لوگوں کو بتاتے ہیں کہ نیا سال آگیا ہے۔



٭چین:

کہتے ہیں کہ دنیا میں چین وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے بارود یا آتش گیر مواد ایجاد کیا تھا، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ نیا سال آئے اور اہل چین اس خوشی کے موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ چناں چہ اس ملک میں نئے سال کی آمد کے موقع پر زبردست آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور آسمان نصف شب کو مختلف رنگوں سے منور ہوجاتا ہے۔ اہل چین نئے سال کی آمد کے موقع پر ایک اور خصوصی کام بھی کرتے ہیں جو اب ان کا لازمی رواج بن چکا ہے۔ یہ لوگ یعنی یہاں کے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان سبھی سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، سرخ غباروں اور اسی رنگ کی آرائشی چیزوں سے اپنے گھروں، بازاروں، گلیوں، دکانوں اور عمارتوں کو سجاتے ہیں۔

اس رات کو بچوں کو سرخ رنگ کے لفافوں میں کچھ رقم بطور انعام دی جاتی ہے جسے بچے اپنے لیے نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ رقم ان کے لیے خوشی اور خوش حالی لاتی ہے۔ مگر یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے ایشیائی ملکوں کی طرح چینی نئے عیسوی سال کی آمد بڑے اہتمام سے تو مناتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ اپنے چینی قمری سال کی آمد کے موقع پر بھی زبردست جشن مناتے ہیں، جس سے انہیں دو سال یعنی قمری اور عیسوی سال منانے کا موقع مل جاتا ہے اور ان کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔



٭کیوبا:

کیوبا کے لوگوں کا ایک عجیب سا عقیدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دوران سفر کسی بھی مسافر کو کوئی زہریلا کیڑا یا سانپ وغیرہ کاٹ لے تو اس سے بچاؤ کا طریقہ بہت آسان ہے۔ کیوبا کے روایتی معالج اپنے لوگوں کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جیسے ہی نئے سال کی آمد کا اعلان ہو یعنی رات کے بارہ بجیں، ایک سوٹ کیس سے اپنے گھر کے اطراف ایک خیالی یا تصوراتی دائرہ بنادیں۔ یہ ایک حفاظتی حصار ہے، اگر آپ نے یہ بنادیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب سال بھر تک نہ تو کوئی زہریلا کیڑا ہی آپ کو کاٹ سکتا ہے اور نہ ہی سال بھر آپ کے دوسرے ملکوں کے سفر کے دوران کوئی رکاوٹ پیش آئے گی اور غیرملکی سفر کے بہت سے مواقع ملیں گے۔

بعض لوگ اس سلسلے میں قدیم روایات پر بھی عمل کرتے ہیں۔ یہ لوگ نصف شب کو جب نیا سال آرہا ہو، اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں، اسے جھاڑو لگاتے ہیں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہوکر باہر پانی پھینکتے ہیں، تاکہ گھر کے اندر کی بلائیں باہر نکل جائیں اور سال بھر پلٹ کر نہ آئیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے گھروں کو موجودہ سال کے لیے صاف اور محفوظ بنالیتے ہیں۔



٭ڈنمارک:

ڈنمارک کے لوگ نئے سال کی آمد کے خاص موقع پر اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بہت ہی خاص انداز سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے ہیں، جسے پڑھ کر آپ یقینی طور پر ہنسیں گے۔ یہ لوگ ان کے گھروں اور مکانوں کی دیواروں پر پلیٹیں اور گلاس پھینکتے ہیں جو ان سے ٹکراکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ تو نئے سال کی آمد کا عام رواج ہے، مگر ایک اور خاص طریقہ یہ ہے کہ نصف شب کے قریب یہ لوگ ایک کرسی رکھ کر اس پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی کلاک کی سوئیاں رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتی ہیں اور نیا سال شروع ہوتا ہے تو یہ اپنی کرسیوں سے نیچے فرش پر چھلانگ لگادیتے ہیں اور اس طرح بڑے پرجوش انداز میں نئے سال میں قدم رکھ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ سال بھر اسی طرح ہر کام کریں گے اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔



٭ایکواڈور:

ایکواڈور میں نئے سال کی آمد بڑے ہی عجیب و غریب انداز سے منائی جاتی ہے۔ یہ لوگ اس موقع پر اپنے سیاست دانوں کے پتلے تو جلاتے ہی ہیں، ساتھ ہی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفین کے پتلے بناکر انہیں بھی نذر آتش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض لوگ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ گویا اس ملک میں گزرے سال کے آخری لمحات اور آنے والے سال کی ابتدائی گھڑیوں میں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر آسمان کو روشن کردیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح ایکواڈور کے لوگ گذشتہ سال کی منفی توانائی، منفی سوچ اور جذبے سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔

تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ لگ بھگ اسی انداز سے پنامہ، پیراگوئے اور کولمبیا میں بھی لوگ نئے سال کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں اس موقع پر ایک اور اہم کام بھی کیا جاتا ہے، جو لوگ اپنے مخالفین یا سیاست دانوں کے پتلے جلانا پسند نہیں کرتے، وہ اپنے گھر میں تھوڑی بہت رقم اس طرح چھپادیتے ہیں کہ کوئی اسے تلاش نہ کرسکے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ گھر میں چھپائی گئی یہ رقم ان کے لیے سال بھر کی خوش حالی لاتی ہے۔



٭جرمنی:

چائے کی پتی بھی مستقبل کا پتا دیتی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نیا سال ہمیں مستقبل کی جھلک دکھاتا ہے۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر یعنی نصف شب کو اہل جرمنی ایک پیالی میں چائے کی پتی ڈال کر اس میں پانی ڈالتے ہیں اور پھر اس میں جھانکتے ہیں تو انہیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی جھلکیاں دکھائی دے سکتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ آسٹریا میں بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایک چمچا سیسہ ٹھنڈے پانی میں ڈالتے تو جو شکل بنتی ہے، وہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔ ویسے جرمنی کے لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتے ہیں۔


٭یونان:

یونان میں نئے سال کی آمد پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس اہم موقع کے لیے یہ لوگ خصوصی طربیہ نغمات تیار کرتے ہیں۔ یہ تمام خوشی کے گیت بچے گاتے ہیں، جس کے بدلے میں ان کے بڑے، ان کے پڑوسی اور ان کے خاندان کے لوگ انہیں انعامی رقم بھی دیتے ہیں۔ اس رقم کی ان کی نظر میں بڑی اہمیت ہوتی ہے اور یہ بچے اسے سال بھر سنبھال کر رکھتے ہیں، کیوں کہ ان کے لیے یہ خوش بختی کی علامت ہے۔



اہل یونان نئے سال کا خیرمقدم کھلی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ جیسے ہی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتی ہے تو اہل یونان اپنے گھروں، بازاروں کی لائٹس بند کردیتے ہیں، تاکہ نئے سال کو اپنی کھلی اور تازہ آنکھوں سے اترتے دیکھیں، جس کے بعد تمام لائٹس آن ہوجاتی ہیں تو پرانے سال کا نام و نشان نہیں باقی نہیں ہوتا، جب کہ نیا سال پوری آب و تاب کے ساتھ آچکا ہوتا ہے۔ اس اہم ایونٹ کی ایک اور قدیم روایت Vasilópita ہے۔ یہ ایک کیک ہے جو خاص طور پر اسی موقع کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کیک کے اندر کوئی سکہ یا کوائن یا کوئی چھوٹی سی چیز چھپی ہوتی ہے، جس فرد کے حصے میں کیک کو وہ ٹکڑا آتا ہے جس میں سکہ چھپا ہوتا ہے، اسے بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے کہ آنے والا سال اس کے لیے اپنے ساتھ بہت سی کام یابیاں لایا ہے۔

٭جاپان

جاپان میں بھی نیا سال خاص انداز سے منایا جاتا ہے، مگر یہاں کے بودھوں کی نظر میں اپنا کیلینڈر اہم ہے۔ بہت سے جاپانی اس سال کے جانور کے حساب سے مناتے ہیں۔ جیسے 2014 کے سال کا جانور گھوڑا ہے۔ یہ لوگ اس موقع پر مندروں میں جاتے ہیں اور ان کی گھنٹیاں 108 بار بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل جاپان نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔



ان کے ہاں ایک بات بہت اچھی ہے، یہ لوگ گذشتہ سال کے جھگڑے اور تنازعات اس موقع پر ختم کردیتے ہیں تاکہ نئے سال میں بالکل نئے اور تازہ انداز سے داخل ہوں اور یہ سال جھگڑوں اور اختلافات سے پاک شروع ہو۔ اس طرح ان کا ملک تنازعات سے پاک ہوجاتا ہے۔

٭نیدرلینڈ یا ہالینڈ:

ہر بار نئے سال کی آمد کے موقع پر ہر ولندیزی کاربائیڈ شوٹنگ کے ایونٹ میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ اس میں دودھ کے ڈبوں میں کیمیکل ڈال کر پہلے ہلایا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے ہلکے دھماکے سے اڑادیا جاتا ہے۔ مگر چوں کہ یہ کسی حد تک خطرناک بھی ہوتا ہے، اس لیے ہالینڈ کے متعدد شہروں میں اس رسم پر پابندی عاید ہے۔ اس کے باوجود نوجوان اس موقع پر اس کاربائیڈ شوٹنگ سے لطف اندوز ہونے سے باز نہیں آتے۔

لیکن ہالینڈ کے اکثر لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، مگر چوں کہ اس موقع پر جشن تو منانا ہے، چناں چہ اکثر شوقین لوگ اس موقع پر سمندر کا رخ کرتے ہیں، جہاں وہ اس سرد موقع پر سوئمنگ کے مختصر لباس میں نہ صرف منجمد کرنے والے پانی میں غوطہ خوری کرتے ہیں، بل کہ شمالی سمندر کی سرد لہروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نئے سال کا استقبال اس جرأت سے کرتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ گویا ہالینڈ کے لوگ آنے والے نئے سال کو جرأت و بہادری کے حوالے سے وقف کرتے ہیں۔



٭فلپائن:

اگر نیا سال کسی نئے انداز کے فیشن سے شروع کیا جائے تو یہ ایک اچھی علامت ہوتی ہے۔ فلپائن کے لوگ ہر نئے سال کی آمد ایک خاص انداز سے مناتے ہیں۔ وہ اس موقع کے لیے مخصوص لباس زیب تن کرتے ہیں جن پر گول گول سے ڈیزائن بنے ہوتے ہیں۔ اس مخصوص شام کو وہ اپنی جیبوں میں گول سکے بھی رکھتے ہیں، کیوں کہ گول ڈیزائن انہوں نے اس ایونٹ کے لیے خاص کیا ہوا ہے۔

اہل فلپائن نے گول ڈیزائن کو خوشی اور خوش حالی کی علامت قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے بعض فیملیاں اور افراد تو اس موقع پر گول پھل جیسے سنگترے اور گریپ فروٹ (چکوترے) کھاتے ہیں، گول پھل سجاتے ہیں اور گول ڈیزائن کے پرچم اور جھنڈیاں اپنے گھروں پر لگاتے ہیں۔



٭جمہوریہ روس:

روس میں نئے سال کے حوالے سے ایک دل چسپ رواج ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی ایسی خواہش ہے جس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ یہ جلدازجلد پوری ہو؟ یا اس کا کوئی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہورہا؟ تو وہ نئے سال کے موقع پر یہ کرتا ہے کہ اپنی اس خواہش کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کاغذ کو جلاتا ہے اور اس کی راکھ شمپئن کے ایک گلاس میں ڈال کر اسے غٹاغٹ پی جاتا ہے۔

روسی نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنی ادھوری اور تشنہ خواہش کی تکمیل کے لیے ایسا ہی کرتے ہیں۔ نئے سال کی روایتی تقریبات میں نئے سال کا درخت بھی شامل ہے جسے خصوصی اہتمام سے سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ اس موقع پر سانتا جیسی ایک فیگر بھی آتی ہے جسے روسی Ded Moroz (Grandfather Frost) کہہ کر پکارتے ہیں۔ ڈیڈ موروز اصل میں فروسٹ یا انجماد کا دادا ہے۔ برف جیسی سفید داڑھی والا یہ بوڑھا اپنی پوتی Snegurochka کے ساتھ آتا ہے۔ یہ لڑکی برف کی خادمہ کہلاتی ہے۔ دونوں دادا پوتی مل کر بچوں میں تحفے تقسیم کرتے ہیں۔



٭اسکاٹ لینڈ:

اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو تحفے دینے کا کریز ہے۔ یہ لوگ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بہانے بہانے سے تحفے دیتے ہیں اور اس حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ نئے سال کے موقع پر بھی اسکاٹ لینڈ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے کسی دوست یا رشتے دار کے ہاں اس وقت پہنچتے ہیں جب نیا سال اپنی آمد کی گھنٹی بجارہا ہوتا ہے، تو میزبان آپ کے سامنے بچھ جائیں گے اور آپ کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

لیکن چوں کہ آپ اس گھر میں نئے سال میں داخل ہونے والے پہلے فرد قرار پائے، اس لیے آپ پر لازم ہے کہ اپنے میزبانوں کے لیے تحفے تحائف ضرور لے جائیں۔ لیکن یہ تحفے زیادہ قیمتی نہیں ہونے چاہییں بل کہ کم قیمت اور چھوٹے ہوں، مگر ان سے محبت کا اظہار ہوتا ہو۔ مثال کے طور پر ان تحفوں میں ڈبل روٹی بھی ہوسکتی ہے اور وہسکی بھی۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگ نئے سال کا خیرمقدم آتش بازی سے بھی کرتے ہیں جو یہاں کی قدیم روایت ہے۔



٭جنوبی افریقا:

اگر آپ جنوبی افریقا میں رہتے ہیں اور پیدل چلنے کے شوقین ہیں تو نئے سال کی آمد کے موقع پر ذرا محتاط رہیں، کیوں اس ملک کے شہر جوہانسبرگ میں ایک عجیب سی روایت ہے۔

جوہانسبرگ کے لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنا پرانا فرنیچر، بجلی کی مصنوعات جیسے ریڈیو، ٹی وی وغیرہ اٹھاکر بڑی بے پروائی کے ساتھ گھروں کی کھڑکیوں میں سے باہر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ یہ سامان کسی کو نقصان بھی پہنچاسکتا ہے۔ گویا جنوبی افریقا کے لوگ نئے سال کے آنے سے پہلے پرانی چیزوں سے نجات پانا پسند کرتے ہیں اور نئے سال میں نئی چیزیں خریدتے ہیں، تاکہ نیا زمانہ ان کے لیے نئی خوشیاں لائے۔



٭اسپین:

اسپین میں اور اسپینی زبان بولنے والے دوسرے ملکوں میں نئے سال کی آمد بڑے خاص انداز سے منائی جاتی ہے۔ اس روز نصف شب کو 12 انگور کھانا یہاں کی قدیم روایت ہے۔ بارہ انگور بارہ مہینوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور انہیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے سال کا ہر مہینہ ان کے لیے خوش بختی لائے گا۔

یہ بارہ انگور بھی بڑے اہتمام اور سلیقے سے کھائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر رات کے بارہ بجے جب نیا سال بارہ گھنٹیوں کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے تو اس کی ہر گھنٹی پر ایک انگور کھانا ہوگا، واقعی بہت دل چسپ روایت ہے۔ ویل ڈن اسپین!
Load Next Story